(Last Updated On: )
برسوں بعد کل رات خواب میں
تم کو گھر آئے دیکھا
سماں تھا کہ بیان سے باہر
خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا
یوں کہ ہر طرف
بہار ہی بہار تھی
اچانک اذان کی آواز سے
آنکھ کھولی
دل شادمان تھا
محو رقصم تھا
دادی کے کمرے کی
بتی جلتی ہوئی دیکھتی تو
ننگے پیر ہی انہیں
خواب سنانے بھاگی
آخر ان کی منتیں،
قبول ہونے والی تھیں
کہ اچانک خیال آیا
اور چپ چاپ
آنسو چھپائے
واپس لوٹ آئی
تم تو تب نہیں آسکتے تھے
جب دنیا آزاد تھی
اب تو بات ہی مختلف ہے
جانے یہ جہاد کب ختم ہوگا
کب آزادی کی نوید لیے
تم لوٹے گے
پتہ ہے دادی سے
لوگ کہتے ہیں
تم اب نہیں آنے والے
مگر وہ ہیں کہ مانتی ہی نہیں
نہ کسی اور کو ماننے دیتیں
اور میرا دل
وہ تو ہے ہی تمہارے پاس
پتہ ہے روز خواب سجاتی ہوں
اور روز ٹوٹ جاتے ہیں
بس اسی آس پر
اب سانس چلتی ہے
کبھی تو ہم پر بھر
تقدیر مہربان ہوگی
مگر نجانے کب
“