ٹیپو ادھیڑ عمر ہونے کے بعد بھی بہت معصوم تھے۔ ہم نے ان کے بارے میں ہمیشہ اپنی دلچسپی ان میں پائ۔ ہم بچپن میں شریر تو تھے مگر حساس بھی بہت تھے۔ ہمارے دماغ میں ٹیپو کو لیکر برابر کچھ نہ کچھ چلتا رہتا، ہم برابر سوچتے رہتے کہ ٹیپو اتنے بڑے ہیں۔ لیکن وہ بچوں جیسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ مگر کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک بار ہم نے اپنی بڑی پھوپھی سے پوچھا تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ بھیَّا ان کا دماغ کم ہے۔ اس دن کے بعد سے ہمارے دل میں ٹیپو کے لئے بڑی ہمدردی پیدا ہوگئ۔ مگر ٹیپو ہماری شرارتوں کا نشانہ برابر بنتے۔
ٹیپو خود بھی ہماری شرارتوں کے ساتھ چھوٹے بچے بن جاتے بہت ہنستے ہم ان کو دیکھ دیکھ کر ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے ہنستے۔ خوب ہنستے اتنے ہنستے کہ کبھی کبھی پیٹ میں بل پڑجاتے۔
ہمیں دہلی میں رہتے ہوئے پچاس سال ہوگئے ہیں لیکن اپنا چھوٹا سا خوبصورت شہر بریلی آج تک نہیں بھولے، وہاں کی گلیاں، بازار سب سے بڑی چیز ہمارا بچپن بریلی میں شرارتیں کرتا ہوا ملتا ہے۔ بریلی بہت بدل گیا، اب تو اور بھی خوبصورت ہوگیا ہے۔ مگر ہم نے وہاں اپنے بچپن کو اپنے چچازاد بھائ اور ہمارے بچپن کے دوست بَبُّو کے گلے میں ہاتھ ڈالے شرارتیں کرتے ہوئے ، اکثر بریلی میں گھومتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں بریلی بہت اچھا لگتا ہے کیوں کہ وہاں ہماری بچپن کی یادیں ہیں۔
بریلی میں ہمارا گھر شہر کے بالکل بیچوں بیچ ہے۔ برسات کا موسم بریلی میں خوشگوار ماحول بنا دیتا تھا۔ مگر بچپن میں ہمیں جو برسات اچھی لگتی تھی اس کی خاص وجہ یہ تھی۔ برسات کا پانی ہمارے آنگن، گلی، محلے میں بھر جاتا۔ اب جو پانی بھرتا تو بہت مزہ آتا۔ اب سب بچے کاغذ کی ناؤ بنا کر پانی میں چھوڑتے۔ کیوں ہمیں آج بھی وہ کاغذ کی ناؤ بنانا وہ بھی بحث میں دوسروں سے بڑی بنانا۔ ہاں برسات میں رنگ برنگی چھتری بھی ایک بہت اہم چیز تھی اور ہاں پلاسٹک کی برساتی بھی تھی ہمارے پاس سچی اس کی پلاسٹک کی کیپ بھی تھی معلوم اس کی کیپ کیسی تھی آپ روس کے صدر لینن کو جانتے ہیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں ہم نے بچپن میں لینن کی جو تصویریں دیکھی تھیں اس میں وہ ہماری برساتی کی طرح لمبا کوٹ پہنے ہوتے اور سر پر ایک کیپ لگائے ہوتے ویسی تھی ہماری برساتی کی کیپ۔ ارے!!!! کیسے بتائیں اچھا آپ اپنے امی ابو سے پوچھئے وہ بتائیں گے۔ ارے بھیَّا ٹیپو کے برسات میں مزوں کی بات کررہے تھے ہماری برساتی بیچ میں آگئی بچپن میں ہر ایک اپنی کہتا تھا۔ دوسرے کی سنتا نہیں تھا مذاق بھی اڑاتے بس پھر شروع ہوجاتی کیا؟ ارے وہی لڑائی کسی نے منہ چڑا دیا کسی زبان باہر نکال دی کسی نے دھکا دے دیا ارے بھیَّا بس پوچھو مت کھیل ختم اور بس دے تیرے کی اور لے تیرے کی جب تک کوئی بڑا آکر ڈانٹتا یا بیچ بچاؤ نہ کراتا تب تک کون کس کا دوست کس کا دشمن پتہ ہی نہیں۔ اے یہ لو پھر ٹیپو غائب۔
خیر اب سنو برسات میں ٹیپو کو چین کہاں۔ ٹیپو چوڑی موری کے پائجامہ کو گھٹنو تک اڑسے رہتے اور ادھر سے ادھر سر پر بوری اوڑھے گھومتے رہتے۔ ہمیں حیرت یہ ہوتی تھی یہ لال کوٹھی والے اتنے ظالم ہیں کہ بے چارے نوکر کو چھتری نہیں دلا سکتے کوئی غریب تھوڑی ہیں چھی شرم بھی نہیں آتی ٹیپو بوری اوڑھے پھرتے ہیں۔ بچے تو ایسی ہی باتیں سوچے پھرتے ہیں۔ خیر ایک بار بہت زور کی بارش ہوئ گلی سڑک گھروں میں پانی بھر گیا ہمارے دادا کی بہن منی بوا اپنے پلنگ پے بیٹھی ہوئی پڑھ رہی تھیں اور کہتی جاتیں آل تو جلال تو قدرت ہے کمال تو آئ بلا کو ٹال تو ساتھ میں کہتیں ﷲ خیر کرے کیسی کالی گھٹا گھنگھور بادل کیسی بارش ہورہی ہے۔ جتنا وہ یہ سب کرتیں ہم بہت ہنستے اور سارے بچے آنگن میں بھیگتے، شور مچاتے گھر والے تو کچھ نہیں کہتے بوا کی کینٹکی چالو رہتی۔ اے حنیف کی دلہن اپنے لونڈے کو بلا لے پہلوٹی کا ہے بجلی کڑک رہی ہے۔ ویسے بھی دبلا پتلا ہے ٹھنڈ لگتی جائے گی۔ کسی کو کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی بوا بڑبڑاتی رہتیں۔ اے ہے بھیَّا میں نے ایسی مائیں نہیں دیکھیں بچوں کی فکر ہی نہیں ہے۔ ہماری بڑی پھوپھی کہتیں اے ہے منی پھپھو کیوں کڑھ رہی ہو نہ بچے مانیں گے نہ مائیں سنیں گی۔ چپ چاپ دعا مانگتی رہو۔ خیر۔
پانی بھر گیا اب ایک اور کام ہوا دولہا بھائ صاحب (ہماری بڑی پھوپھی کے بیٹے، ان کو دولہا بھائ صاحب کیوں کہتے تھے ہمیں آج تک نہیں پتہ) تین سے چھے کا فلم شو دیکھنے گئے ہوئے ہیں پانی بھر گیا کیسے آئیں گے۔ ادھر ایک بات یہ ہوتی تھی گلیوں میں جب پانی بھر جاتا کتے گھبرا کر گھروں میں گھس جاتے اور گندگی پھیلاتے تو ہمارے بڑے پھوپھا(جنھیں ہم ماموں کہتے تھے کیوں پتہ نہیں) اپنے گھر سے لاٹھی سے مار کر بھگاتے کتے بھرے پانی میں اچھل اچھل کر چھینٹے اڑاتے ہوئے بھاگتے تھے تو پورا محلہ ہنستا چیختا تو کتے اور تیز بھاگتے ایک عجب منظر ہوتا۔ ٹیپو کو برسات میں گھومنے پھرنے سامان لینے جانے سر پر بوری اوڑھے ادھر سے ادھر ٹہلنے اور بچوں کے ساتھ شرارتیں کرنے میں بڑا مزہ آتا۔ بچوں کے ساتھ ناؤ بناکر چھوڑتے ہم کہہ دیتے ٹیپو دیکھو ہماری ناؤ ڈوبے نہ۔ ہاں بھائ بھائ میں دیکھ لا ہوں اب ٹیپو پانی میں ناؤ کے پیچھے پیچھے چلے جارہے ہیں۔ سب لوگ آوازیں لگا رہے ہیں ٹیپو دیکھو وہ میری ناؤ ٹیڑھی ہوگئ سیدھی کرو۔ ٹیپو گندے پانی ہاتھ ڈالتے ناؤ سیدھی کرتے۔ خیر۔
بارش سے پانی گلی میں بھر گیا تھا۔ ماموں اپنے گھر کے دروازے پر کتوں کی وجہ سے لٹھیا لئے ہوئے بیٹھے تھے۔ ٹیپو گلی کے سامنے سے گذر رہے تھے۔ ہم لوگوں نے آواز دی اماں ٹیپو کہاں جارہے ہو۔ ٹیپو بھی زور سے بولے جالا ہوں بھائی۔ اماں یہاں آؤ ناؤ چلاؤگے۔ ٹیپو کی رگ پھڑک گئ جارہے تھے کام سے ہماری طرف مڑ گئے۔ ہماری گلی لمبی ہے سارے مکانوں کے آگے لینٹر بنے ہوئے تھے اس پر چڑھ کر آرام سے پوری گلی کے گھروں بغیر پانی میں ڈوبے جایا جا سکتا تھا ٹیپو لینٹر پر چڑھ چکے تھے اور ہماری طرف آرہے تھے۔ ادھر ایک کتا دھیرے پانی میں اچھلتا ہوا ماموں کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسی وقت دولہا بھائی صاحب سنیما دیکھ کر اپنے دوست نمو سائیکل والے کے کندھوں پے سوار گلی میں داخل ہوئے مغرب کا وقت تھا شام کا اندھیرا بڑھ گیا تھا۔ یہ لوگ دیکھ نہیں پائے کتا ان کے آگے آگے ہے۔ ادھر ماموں نے جو کتے کو آتے دیکھا تو وہ اس کو مارنے کے چکر میں اس کو پکارنے لگے آؤ آؤ۔۔۔۔۔ اور انھوں جو لٹھیا اٹھائ تو کتا پیچھے تیزی سے گھوما ادھر نمو یہ سمجھے ماموں کو پتا چل گیا کہ ہم لوگ فلم دیکھ کر آرہے ہیں۔ نمو نے دولہا بھائی صاحب کو پانی میں پھینک دیا۔ کتے نے جو یہ آفت ناگہانی پانی میں چھپاک سے گرتے دیکھی تو وہ اور گھبرا گیا اور کیاؤں کیاؤں کرتا ہوا کود کر لینٹر پر جو چڑھا تو ٹیپو گھبرا گئے اور ہٹ ہٹ کرتے ہوئے وہ بھی پانی گر پڑے۔ بھائی صاحب نمو کو پکارتے رہے نمو ڈر کے مارے ایسے بھاگے کہ سڑک پر سائیکل والے سے ٹکرا گئے خود بھی گرے اور سائیکل والا بھی۔ ادھر ٹیپو چونکہ بھائی صاحب کے پاس گرے تھے تو انکا گدھے پے بس نہیں چلا گدھیا کے کان امیٹھے والی بات۔ اب ٹیپو گڑگڑاتے رہے الے بھائ بھائی وہ کتے نے گلا دیا میں تھولی گلا اپنے آپ پوری گلی ہنس رہی اس بھگدڑ میں سارے ہی گر گئے تھے۔ ایک عجب منظر تھا۔ آج بھی دولہا بھائی صاحب نمو کی حرکت پر خوب غصہ کرتے ہیں۔