بیرِسٹر محمّد علی جناح سے حضرت قائدِ اعظم محمّد علی جناح ؒ علیہ تک کا سفر
قائدِ اعظم انسان نہیں بلکہ فرشتہ تھے، وہ ایک اعلی‘ تعلیم یافتہ ماہرِ قانون ، اور ایک مہذّب شہری قطعی نہیں تھے بلکہ دیہات میں پلے بڑھے، دینی مدرسے سے درسِ نظامی کے فارغ التحصیل کٹ حجّتی ملّا تھے۔ قائدِ اعظم قانون کی نہیں بلکہ ڈنڈے کی حکم رانی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ دلیل سے زیادہ تشدّد کے قائل تھے۔ قائدِ اعظم نے کبھی کلین شیِو نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ شرعی ڈاڑھی رکھتے تھے۔ قائدِ اعظم کو انگریزی لباس اور بودوباش سے سخت نفرت تھی، زندگی بھر کبھی کوٹ ،پتلون نہیں پہنا، بلکہ ہمیشہ ٹخنے سے اونچا پاجامہ اور گھٹنوں سے نیچا کرتا پہنا کرتے تھے۔
قائدِ اعظم کبھی شام میں کلب نہیں جاتے تھے، بلکہ باقاعدگی کے ساتھ ہر شام بمبئی میں سمندر کے کنارے بابا حاجی علی کی درگاہ پر چلّہ کاٹنے تشریف لے جاتے تھے۔ قائدِکبھی پارٹیوں اور خِلوت میں شراب نوشی اور ڈانس نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ دہلی کے قدیمی ہمدرد دواخانے کا بنا ہوا شربت روحِ افزا پیتے تھے اور قوّالیوں میں حال کھیلا کرتے تھے۔ قائدِ اعظم کتّوں اور سِگار سے سخت نفرت کیا کرتے تھے، کبھی سوُر کے گوشت کے بنے ہوئے سینڈوِچ نہیں کھاتے تھے، جو کہ ان کی پارسی اہِلیہ محترمہ رتّی بائی بڑے اہتمام سے ان کے لئے بناتی تھیں۔انہیں سیدھا کچرہ دان میں پھینک دیا کرتے تھے اور اپنے ذاتی ملازم کے ہاتھ کی بنی ہوئی کدّو شریف کی ترکاری بڑی عقیدت اور احترام سے تناول فرماتے تھے۔
قائدِ اعظم پنج وقتہ نمازی اور تہجّد گزار تھے، کتّے پالنا یا کتّوں سے پیار کرنا تو درکنار، قائدِ اعظم کتّوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے، ہمیشہ اونٹ پالا اور اس ہی کی سواری کیا کرتے تھے، اور ان کی مہنگی کاریں ان کے ملازمین کے زیرِ استعمال رہتی تھیں۔ قائدِ اعظم گھوڑوں کی ریس کھیلنے کبھی بمبئی ریس کلب نہیں جاتے تھے، بلکہ کبڈّی کھیلنے کے لئے رستمِ ہند گاما پہلوان کے اکھاڑے میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔
قائدِ اعظم کی مذہبی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت وظیفہ اور نعتیں پڑھتے رہتے تھے، کبھی گراموفون کی چابی بھر کر فرینک سناترا اور جوڈی گارلینڈکے انگریزی گانوں کے ریکارڈ زاپنے ریسٹ روم میں نہیں سنتے تھے۔ قائدِ اعظم پیشاب ، پاخانے سے فارغ ہوکر کبھی بھی ٹوائلٹ پیپر یا پانی استعمال نہیں کرتے تھے،بلکہ ہمیشہ استنجے کا ڈھیلا ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ قائدِ اعظم کبھی فرانسیسی اور انگریزی پرفیوم استعمال نہیں کرتے تھے، بلکہ قنّوج لکھنئو کا بنا ہوا عطر مبارک استعمال کیا کرتے تھے۔ توٹھ پیسٹ اور ٹوتھ برش سے قائد کو سخت نفرت تھی، ہمیشہ پیلو کی مسواک استعمال کیا کرتے تھے۔ قائد سگار اور سگریٹ سے سخت نفرت کرتے تھے، صرف حقّہ اور بیڑی پیا کرتے تھے۔ قائدِ اعظم گوئٹے اور ولیم وارڈزورتھ کی شاعری سے سخت نفرت کرتے تھے، ہمیشہ اقبال کی بانگِ درا اور مولانا اشرف علی تھانوی کا بہشتی زیور پڑھا کرتے تھے۔
قائد میٹھے میں کبھی پڈنِگ نہیں کھاتے تھے، بلکہ چنے کی دال کا حلوہ ذوق و شوق سے تناول فرماتے تھے۔ قائد نے قیامِ لندن کے دوران کبھی سر پر انگریزی ہیٹ نہیں پہنا، بلکہ ہمیشہ جناح کیپ پہنا کرتے تھے۔ قائد قانون کی اعلی‘ تعلیم حاصل کرنے کے لئے کبھی لنکنز اِن انگلینڈ نہیں گئے ، بلکہ قائد نے انڈیا کے مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے درسِ نظامی میں درجہ تخصّص حاصل کیا تھا۔
قصّہ مختصرِ یہ ہے کہ قائدِ اعظم ایک قانون داں، عظیم مدبّر اور سیاسی رہنما قطعی نہیں تھے، بلکہ قائِد ایک دینی شخصیت اور اللہّ کے نیک ولی تھے، اور ان سے غلطیاں کبھی سرزرد نہیں ہوتی تھیں، ہمیشہ کرامات ہی سرزرد ہوتی تھیں۔ یہ پاکستان بھی قائد کی کرامت کی برکت ہے، تحریکِ پاکستان، اکابرینِ پاکستان، عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہے۔
بیرسٹر محمّد علی جناح اور حضرت مولانا قائدِ اعظم محمّد علی جناح رحمت اللہّ علیہ کی شخصیت کے فرق کو واضح کرنے اور تاریخ کی درستگی کے لئے درج بالا سطریں تحریر کی گئی ہیں۔ یہ ایک طرح کا علامتی طنز ہے جو کہ پاکستان کے قبضہ گیر مذہبی انتہا پسندوں پر کیا گیا ہے، جنہوں نے تاریخِ پاکستان کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔
بیرِسٹر محمّد علی جناح ، جنہیں ادب و احترام کے پیشِ نظر قائد اعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، کی زندگی اور لائف اسٹائل روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ مضمون نہ تو قائد کی تضحیک ہے، نہ ہی قائد پر کوئی طنز ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اس مضمون کو اس ہی تناظر میں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
قائدِ اعظم نے ایک پروقار زندگی گزاری ہے، قائد کی زندگی میں کوئی ایسا شرمناک پہلو نہیں ہے، جس پر قائد کو شرمسار کیا جائے۔قائدِ اعظم محمّد علی جناح ایک مہذّب، اعلی‘ تعلیم یافتہ، باشعور اور خدادداد صلاحیتوں کے مالک، عظیم انسان، مدبّر، سیاستداں اور رہنماء تھے۔ قائدِ اعظم مہذّب معاشرے کے رسم و رواج، اصولوں اور قوانین سے نہ صرف اچھّی طرح واقف تھے، بلکہ قائد کی زندگی تہذیب، شائستگی اور تمدّن کا ایک اعلی‘ نمونہ تھی۔ قائدِ اعظم محمّد علی جناح بمبئی کی اعلی‘ سوِل سوسائٹی کی ایک مقبول شخصیت، اور کامیاب قانون داں تھے۔
گذشتہ چند عشروں سے پاکستان کے قبضہ گیر مذہبی انتہا پسند اور ریاستی دانشور ایک منظّم منصوبے کے تحت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے قائدِ اعظم کے مہذّب اور سافٹ امیج کو مسخ کرکے انہیں ایک مذہبی پیشوا اور ولی اللہّ کے روپ میں پیش کرنے کی ناپاک کوششیں کررہے ہیں۔ مہذّب اور شائستہ بیرسٹر محمّد علی جناح کو آج حضرت مولانا قائدِ اعظم محمّد علی جناح رحمت اللہّ علیہ بنا کر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ کوئی دینی پیشوا اور اللہّ کے ولی تھے۔
واضح رہے کہ قائدِ اعظم مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے اور خود کو ہمیشہ مسٹر جناح کہلوانا پسند کرتے تھے۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند جس تیز رفتاری سے اسلامی انتہا پسندی کے سرپٹ گھوڑے پر بیٹھ کر پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور مسلم امّہ کی باگ ڈور سنبھالنے کے سراب کی طرف دوڑ رہے ہیں، اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو چند دہائیوں کے بعد وہ دن ہرگز دور نہیں جب آنے والی نسلیں قائدِ اعظم کو باریش تصویر میں ایک دینی عالم اور مذہبی پیشوا کے روپ میں دیکھیں گی۔
میں یہاں صرف مثال کے طور پر ایک ایسے ریاستی دانشور اور بنیاد پرست محقّق کے ایک مضمون کا حوالہ دونگا، جو جھوٹی تاریخ گھڑنے کے ماہر اور بنیاد پرستوں کے امام ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں، ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا نیا شوشہ۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے مضامین میں قائدِ اعظم محمّد علی جناح کو بطور ایک دینی پیشوا اور عبادت گزار کے روپ میں پیش کرنے کے بعد ان کو پہلےعربی میں قرآنِ پاک کے مطالعے کا عالم بنایا ، اور اب انہیں اردو اور فارسی کا عالم بھی بنا ڈالا۔ ڈاکٹر صفدر محمود کے اخباری کالم “منافرت فرمانے والوں سے ہوشیار رہو” سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
۔“قائدِ اعظم اقبال سے کتنا متاثّر تھے، اور ان کی خدمات کے کتنا معترف تھے، اس کا اندازہ قائدِ اعظم کے ان الفاظ سے لگائیے، جو انہوں نے علّامہ اقبال کی برسی کے موقع پر کہے، ان الفاظ میں پوشیدہ گہری عقیدت کو محسوس کیجئے۔ قائدِ اعظم جیسے ٹھنڈے ، قانونی اور ایماندار مزاج و شخصیت نے کہا کہ اگر مجھے پاکستان اور علّامہ اقبال کے کلام میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے ، تو میں اقبال کے کلام کو قبول کروں گا۔ پاکستان قائدِ اعظم کا عزیز ترین خواب تھا، پاکستان قائدِ اعظم کے دل کی دھڑکن تھی، لیکن وہ اس پر کلامِ اقبال کو ترجیح دیتے تھے“۔
لیکن ڈاکٹر صفدر محمود صاحب قوم کو یہاں پر یہ بتانا بھول گئے کہ قائدِ اعظم نہ تو اردو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی فارسی۔ واضح رہے کہ علّامہ اقبال کا بیشتر کلام فارسی زبان میں ہے، اور اردو کلام میں بھی فارسی الفاظ کی بھرمار ہے۔ جب کہ پوری دنیا کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ قائدِ اعظم اردو نہیں جانتے تھے، کچھّی گجراتی ان کی مادری زبان تھی، اور وہ زیادہ تر انگریزی زبان میں بات کرتے تھے۔ اگر کسی مجبوری کے سبب اردو بولنا پڑے تو اردو کو رومن انگریزی میں لکھ کر انگریزی لہجے میں بولتے تھے۔ اس ہی لئے تو کہا گیا ہے کہ
خِرد کا نام جنوں پڑگیا، جنوں کا خرِد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“