تحریر:اشعر عالم عماد
پیشکش:سلیم خان
آج 5 دسمبر کی صبح احمد علی برقی اعظمی صاحب کی رحلت کی خبر سنی دل اداس و ملول ہوا کیونکہ برقی صاحب تھے ہی اتنی پیاری شخصیت گو کہ وہ اپنے شاگردوں کے روحانی باپ تھے مگر اپنی شفقت اور محبت کے باعث ہمیشہ حقیقی باپ کی طرح پیش آتے تھے جیسے بچپن میں باپ اپنی اولاد کو ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے اسی طرح برقی صاحب اپنے شاگردوں کو شعروں کی اصلاح کرنا سکھاتے تھے۔
میری ان سے کئی بار واٹس اپ پر بات ہوئی ان کا لہجہ ان انداز ان کی شفقت اسقدر ہوتی تھی کہ لگتا تھا گویا کسی درخت کی گھنی چھاوں میں بیٹھ کر کوئی مقدس کلمات سن رہا ہوں
برقی صاحب اب ہم میں نہیں رہے اور میں آج ادبی روایات کی طرح ان پر کچھ لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ ہم اپنے لیجنڈز کو ان کی زندگی میں کب ان کا حقیقی مقام دینا شروع کریں گے
کل رات میری اپنے درینہ دوست سلیم خان صاحب سے اسی سلسلے میں بات ہو رہی جب میں آرٹس کونسل سے سخت ملول واپس آیا تھا جہاں میں نے بڑے بڑے شعراء و ادیبوں کی بے قدری محسوس کی *میری سلیم بھائی سے اسی موضوع پر بات ہوتی رہی تھی کہ ہم کب تک کسی شاعر یا ادیب کو لیجنڈ بنانے کے لیئے اس کے بڑھاپے کا انتظار یا اس کی موت کا انتظار کرتے رہیں گے۔ہم ان کی زندگی میں ہی انہیں ان کا مقام کیوں نہیں دیتے؟ بہرحال یہ ایک تلخ حقیت ہے جس کا ادراک شاید کسی کو بھی نہیں۔
میں نے احمد علی برقی صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیئے ان کے بارے میں کچھ معلومات اکھٹی کی ہیں جو احباب میں اس امید سے پیش کر رہا ہوں کے کم ازکم ہم میں سے کچھ احباب ان کے لیئے دعا ہی کر سکیں۔
اشعر عالم عماد
تعارف احمد علی برقی
احمد علی برقی اعظمی 25 دسمبر 1954 کواعظم گڑھ، یوپی، انڈیا میں پیدا ہوئے آپ بھارت کے مشہور شاعر و ادیب تھے۔ ان کے والد رحمت الٰہی برق اعظمی دبستان داغ دہلوی سے تعلق رکھتے تھے اور ایک استاد شاعر تھےاحمد علی برقی اعظمی کی ابتدائی تعلیم شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ میں ہوئی۔ 1977 میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہو گئے ۔ انہوں نے جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے فارسی میں ایم۔ اے ۔ کرنے کے بعد 1996 میں اسی یونیورسٹی سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
برقی اعظمی صاحب کو 15 سال کی عمر سے شعر گوئی کا ذوق و شوق رہا ہے۔ ان کی دلچسپی جدید سائنس میں انٹرنیٹ اور خاص طور پر اردو کی ویب سائٹس سے جنون کی حد تک رہی۔ وہ اردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہتے تھے۔ فی لبدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں وہ مہارت رکھتے تھے۔ برقی آل انڈیا ریڈیو میں شعبہ فارسی کے انچارج کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے بحیثیت ترجمہ کار اور اناؤنسر خدمت انجام دی اور آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے وظیفہ یاب ہوئے اور دہلی میں مقیم رہے۔
برقی نے ادبی خدمات کے واسطے کئی اعزازات پائے جن میں اردو اکیڈمی، نئی دہلی ایوارڈ، فخرِ اردو ایوارڈ – 2014۔اردو گلڈ، جموں و کشمیر اورمحمد علی جوہر محمدایوارڈ -اکرم میموریل پبلک سوسائٹی نجیب آباد ،بجنور شامل ہیں۔
برقی اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ روح سخن ہے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ محشر خیال 2020 میں شائع ہوا۔
آج 5 دسمبر 2022ء کو علم و ادب کی ایک اہم شخصیت جونپور،اتر پردیش میں 67 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کے گھریلو زرائع سے فل حال جنازہ و تدفین کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوسکی ہیں
آج ہم اردو ادب کی ایک نامور شخصیت اور انتہائی نفیس اور سادہ انسان سے محروم ہوگئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے
تحقیقی حوالہ وکیپیڈیا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...