اونچی عمارات بننا شروع ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ پہلے ایلیویٹر آئے۔ ابتدائی ماڈل بھاپ یا ہائیڈرالک پاور سے چلتے تھے۔ سست، مہنگے، خطرناک اور جلد خراب ہونے والے۔ بجلی عام ہونا شروع ہوئی۔ جرمن موجد فرینک سپراگ کو موقع نظر آیا۔ بجلی سے چلنی والی لفٹ کا۔ اس سے پہلے ایک جرمن موجد یہ کر کے دکھا چکے تھے لیکن سپراگ اس کو کمرشل بنیاد پر عمارتوں میں استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی کی تلاش میں تھے۔ اگلے چند برسوں میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر انہوں نے یہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ پیٹنٹ حاصل کئے۔ اس کے ذرریعے مسافر اونچی عمارات میں اوپر نیچے آ جا سکیں۔
اب بڑا چیلنج درپیش تھا۔ کوئی اس کا پہلا گاہک بننے کو تیار نہ تھا۔ اس کاروبار پر ایک کمپنی کی مونوپولی تھی۔ نئی عمارت تعمیر کرنے والا کوئی اس نئی ٹیکنالوجی کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا۔ آخر نیویارک کی ڈاک کی چودہ منزلہ عمارت کے ساتھ ان کی ڈیل اس شرط پر ہوئی کہ وہ چھ ایلیویٹر اپنے خرچے پر نصب کریں گے اور صرف کامیابی ہر پیسے لیں گے اور ناکامی کی صورت میں اپنی جیب سے ہائیڈرالک ایلیویٹر سے ان کو تبدیل کر دیں گے۔
یہ مشکل کام تھا۔ ان کو بنانے میں ان کی کمپنی کا سارا پیسہ لگ گیا اور اپنی جیب سے بھی۔ پہلی برقی لفٹ کی تنصیب مکمل ہوئی۔ تہہ خانے پر سپراگ اور ساتھی اس میں سوار ہوئے۔ اس نے اوپر جانا شروع کیا۔ پہلی، دوسری، تیسری منزل اور آگے۔ اوپر کی منزل پر پہنچتے سپراگ کو احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ یہ آہستہ نہیں ہو رہا تھا۔ مستقل کی اس ایجاد پر سوار سپراگ ساتھیوں سمیت تیزی سے چھت کی طرف بڑھ رہے تھے۔
سپراگ کی زندگی خطرے مول لینے کی کہانیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ سال پہلے انہوں نے دنیا کی پہلی برقی ٹرین کے ڈبے دکھانے کا مظاہرہ کیا تھا جس میں موٹر ڈبے کے اندر نہ ہو۔ پہلی کوشش میں موٹر سے شعلے نکلنا شروع ہوئے تھے۔ سرمایہ کاری کرنے والے اس کو دیکھ کر بھاگ گئے تھے لیکن ایک شخص نے سب کو بھاگتا دیکھ کر اپنی شرائط پر فنڈنگ کر کے آگے بڑھنا ممکن کیا تھا۔ اس سے بارہ میل کی پٹڑی اور چالیس ڈبے بنے تھے۔ سپراگ کو کوئی بھی پیسہ صرف کامیابی کی صورت میں ملنا تھا۔ سپراگ کو اس سب میں بڑی مشکلات آئیں تھیں۔ ڈیڈلائن پوری نہیں ہوئی تھی۔ موٹر کا پہلا ڈیزائن ٹھیک نہیں تھا۔ اس سب کے دوران وہ لوگوں کے مقروض ہو گئے تھے۔ جب یہ سب کو دکھانا تھا، اس وقت اس نے کامیابی سے بارہ میل کر لئے۔ خرابیاں سپراگ نے ٹھیک کر لیں۔ چند ہی سالوں میں ان کی برقی ٹرین پر ہر ہفتے چالیس ہزار لوگ سفر کرتے تھے۔ ان کی کمپنی کی یہ ایک اور بڑی کامیابی تھی۔
اس لفٹ پر سوار سپراگ کے اپنے الفاظ میں ان کو اپنی آخری رسومات یاد آ رہی تھیں لیکن ان کے ایک ساتھی جو تہہ خانے میں تھے، انہوں نے ماسٹر سوئچ دبا کر بے قابو لفٹ کو فوری طور پر روک دیا۔ سپراگ نے فیل سیف سوئچ انسٹال کئے۔ لیکن بڑھتے رہے۔ اپنے اوپر چڑھتے قرضے کے باوجود انہوں نے بالآخر کامیابی حاصل کر لی۔
ہر نئی ایجاد میں، ہر اگلے قدم میں کامیابی کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ لیکن ناکامیاں قبول کئے بغیر آگے بڑھا نہیں جا سکتا۔ مستقبل گہری دھند میں ہے۔ اس کا سفر ٹکریں مارے بغیر نہیں ہوتا۔ لیکن سب سے بڑا خطرہ اپنی جگہ پر کھڑے رہنے والے کو ہے۔ جہاں پر ناکامی کو قبول کیا جائے، وہاں آگے کا سفر تیزی سے ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کامیابیوں کے راستے ناکام سٹارٹ اپ، ناکام پراڈکٹس، ناکام خیالات کے قبرستانوں سے گزرتے ہیں۔