ڈاکٹر احمد علی برقی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ موصوف 1977 سے تا حال دہلی میں مقیم ہیں۔ ان کا تعلق ہندوستان کی مردم خیز سرزمین اعظم گڑھ شہر کے محلہ باز بہادر کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔ شاعری کا ذوق و شوق انہیں ورثے میں ملا ہے۔ موصوف کے والد ماجد رحمت الٰہی برق اعظمی مرحوم ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر رحمت علی اکمل، ڈاکٹر شوکت علی شوکت اعظمی اور برکت علی برکت اعظمی بھی شعر و سخن سے شغف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر برقی نے اعظم گڑھ سے ابتدائی تعلیم اور شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد دہلی میں جواہر لال نہرو یونورسٹی سے1996 میں فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی میں ملازت اختیار کرلی۔
ڈاکٹر احمد علی برقی کی شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے- ایک طرف ان کی شاعری میں موضوعات کا تنوع قارئین و ناظرین کو متوجہ کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی شعری خصوصیات اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا لیتی ہیں۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کے جذبوں کی صداقت، کلام کی شیرینی و ملاحت اور عرض ہنر میں دیدہ و دل کی بصارت جگہ جگہ جلوہ افروز نظر آتی ہے۔ وہ نہ تو مافوق العادت اوہام و تخیلات کے اسیر ہیں اور نہ ہی ماورائیت کے دلدادہ بلکہ زمین پر ننگے پاؤں چل کر زمینی حقیقتوں کا بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے بے باکانہ آنکھیں ملا کر باتیں کرتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات میں قدامت یا باسی پن کا کوئی احساس نہیں ہوتا، تازہ کاری ان کا وصف خاص ہے۔ وہ عصر حاضر کے بیحد ترقی یافتہ سماج میں کلبلاتے درد سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ امن و سکون کو غارت کرنے والی جنگوں سے اجتناب کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن زندگی کی جنگ علم و حکمت سے جیتنے کی وکالت بھی کرتے ہیں احمد علی برقی کی شاعری میں اپنائیت لئے آفاقی احساسات کچھ اس انداز میں جلوہ گر ہوتے ہیں کہ قاری انہیں اپنے دل سے بہت قریب پاتا ہے۔
برقی اعظمی کی شاعری میں وسعت، زبان و بیان کی دلکشی، لہجہ اور طرز ادا کی شیرینی، انداز بیان کی شگفتگی اور فکر و خیال کی رعنائی کے علاوہ لکھنے والوں کے لئے اس میں بہت کچھ ہے،خصوصاً موضوعات کا تنوع محققین کو راغب کرنے کے لئے کافی ہے- ان کی شخصیت کی عبقریت پر بہت سے دلائل شاہد عد ل ہیں کیونکہ انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کا اردو ادب کی آبیاری میں بہت بڑا کردار ہے۔ ان کا قلم بے تکان لکھتا ہے، خوب لکھتا ہے اور بہت تفصیل سے لکھتا ہے ان کا اپنا رنگ ہے اپنا زاویہ نگاہ اور الگ شناخت ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات پر کچھ لکھناسورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ تسلسل، تغزل، انداز بیان، روانی الفاظ وترکیبات کی جیسے ایک جوئے شیریں رواں دواں نظر آتی ہے۔
وہ انتہائی زود گو، خوش گو، بسیار گو شخصیت کے مالک ہیں۔ فکر و فن کی باریکیاں ان کے آگے طفل مکتب نظر آتی ہیں بلا شبہ برقی اعظمی ایک عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی مجموعی شاعری سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مخصوص دھارے میں بندھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنوع ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ان کی غزلیں تغزل سے بھر پور اور فنکارانہ حسن کاری سے مزین ہوتی ہیں۔ تراکیب کی خوبصورتی، تشبیہات کی ندرت، الفاظ کا جادوئی دروبست، نرم وخوشنما قافیوں کے موتی، مشکل اضافتوں کے باوجود مصرعوں کی روانی اور ان سب پر مستزاد آپ کی کسر نفسی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی غزلیں نہایت خوبصورت ردیفوں میں طرز ادا کی خوشنمائی کے ساتھ ساتھ انفرادی طر زِفکر اور جدت پسندی کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ تجربات کی دلکشی کو کلام کی روح میں سموکر احساس کی خوشبو جگاتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ کومتاثر کر کے جمالیاتی شعور کی آبیاری کرتے ہیں۔ ان کی سخنوری، طبیعت کی موزونیت اور روانی ہمیشہ ہی قائل کرتی ہے۔ ان کے ان اوصاف کا ہر شخص مداح ہے۔
برقی اعظمی کی موضوعاتی اور فی البدیہہ شاعری:
شعر گوئی ایک بہت خوبصورت فن ہے۔ ایک اچھا شعر یا ایک خوبصورت غزل کہنے کے بعد شاعر کو روحانی فرحت و انبساط اور قلبی راحت و طمانیت کا احساس ہوتا ہے تاہم فی البدیہہ شاعری اکثر شعراء کے لئے مشکل اور ایک بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ در اصل شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو ”فطری شاعر“ اور دوسرے وہ لوگ جو فن شعر و شاعری سے استفادے کے بعد بالقصد یعنی ارادتاً شاعری کرتے ہیں۔ فطری شاعر پیدائشی شاعر ہوتے ہیں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی کمسن یا بالغ شخص نے کہ جس نے فن عروض یا شعر و شاعری کے بارے میں کبھی نہ کچھ پڑھا اور نہ ہی کسی سے سنا لیکن اس کی زبان سے منظوم کلام جاری ہوگیا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے شعراءکا نام محفوظ ہے جنہوں نے فن عروض سے استفادے کے بغیر لاجواب شاعری کی اور عصر حاضر میں بھی ایسے بہت سے شعراء موجود ہیں جو فطری شاعرہیں یعنی وہ بہ تکلف شاعری نہیں کرتے بلکہ شعر خود بخود ان کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے تاہم عہد حاضر میں شعراء کی ایک تیسری قسم بھی پائی جاتی ہے جو نہ فطری شاعر ہیں اور نہ ہی ارادی شاعر ہیں ہم انہیں ”متشاعر“ کے نام سے جانتے ہیں جو بہ تکلف بھی شاعری پر قدرت نہیں رکھتے نتیجتاً انہیں کئی مواقع پر منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
برقی اعظمی کی بداہت گوئی ان کی موضوعاتی شاعری میں بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔ وہ شاعری جو کسی خاص عنوان یا موضوع کے تحت کی جائے اسے موضوعاتی شاعری کہتے ہیں۔ ادبی شخصیات سے متعلق تعارفی تحریروں میں برقی صاحب نے اپنے ذاتی تاثرات کے علاوہ ان کی خصوصیات، کارناموں اور اختصار کے ساتھ ان کی “حیات و خدمات” پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے جو بلاشبہ ان کی قابل قدر خدمت ہے- ہماری اہم ترین ادبی شخصیات سے نوجوان نسل کو متعارف کرانے کا یہ نہایت خوبصورت اور دلپذیر انداز ہے جس کی ہند وپاک کے ادبی حلقوں میں پذیرائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے بے شمار موضوعات پر شاعری کی ہے- آج ہماری نئی نسل میں فلم، ٹی وی، موبائل اور انٹرنیٹ کے تئیں بڑھتے کریز کی وجہ سے کتابوں کی طرف سے رجحان بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے جو علماء اور دانشوروں کے لئے لمحہ فکریہ اور پورے معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی موضوعاتی شاعری سے متعلق ڈاکٹر غلام شبیر رانا رقمطراز ہیں ”اردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی تک اردو میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال پرور اور فکر انگیز شاعری سے بے پناہ تقویت ملی۔ آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد کی مساعی سے اردو میں موضوعاتی شاعری کو ایک اہم مقام ملا۔ اس کے بعد یہ روایت مسلسل پروان چڑھتی رہی۔ عالمی شہرت کے حامل نامور شاعر محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ “موضوعاتی شاعری ” کے نام سے آج سے پندرہ برس پہلے شائع ہو چکا ہے۔ اس سے یہ صداقت معلوم ہو تی ہے کہ روشن خیال ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں نے موضوعاتی شاعری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ممتاز ادیب،شاعر،دانشور،نقاد اور محقق ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے اردو کی موضوعاتی شاعری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ان کی شاعری کے متعدد نمونے میرے سامنے ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے لا زوال بنا دیتے ہیں۔ ان کا اختصاص یہ ہے کہ وہ عظیم تخلیق کاروں کو منظوم خراج تحسین پیش کر کے ان کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پرواں چڑھانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ اس میدان میں ان کی مساعی اپنی مثال آپ ہیں۔ جس انداز میں وہ اپنے موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہیں اوروں سے وہ تقلیدی طورپر بھی ممکن نہیں۔ اس لا زوال اور ابد آشنا شاعری میں کوئی ان کا شریک اور سہیم دکھائی نہیں دیتا۔ مرزا اسداللہ خان غالب،میر تقی میر،احمد فراز،پروین شاکر،فیض احمد فیض،سید صادقین نقوی،مظفر وارثی اور متعدد عظیم تخلیق کاروں کو ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جس خلوص اور دردمندی سے خراج تحسین پیش کیا وہ نہ صرف ان کی عظمت فکر کی دلیل ہے بلکہ اس طرح ان کا نام جریدہ عالم پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے۔ وہ انسانی ہمدردی کے بلند ترین منصب پر فائز ہیں۔ کسی کا دکھ درد دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے ہیں اور فی البدیہہ موضوعاتی شاعری کے ذریعے وہ تزکیہ نفس کی متنوع صورتیں تلاش کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق کسی ایک فرد،علاقے یا نظریے سے ہرگز نہیں ان کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کی نوعیت آفاقی ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ روحانی وابستگی اور قلبی انس کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کے بار احسان سے اردو داں طبقے کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو اشعارکے قالب میں ڈھال کر وہ معرکہ آرا کارنام انجام دیا ہے جو تاریخ ادب میں آب زرسے لکھا جائے گا“
یادِرفتگاں کے عنوان سے مرحوم ادباء، شعراء و دیگر مختلف ادبی، مذہبی، سیاسی، سماجی، فلمی اوراسپورٹس سے وابستہ شخصیات پر فی البدیہہ شاعری کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے غالب، میر، نظیر اکبر آبادی،شاد عظیم آبادی، شکیل بدایونی، محمد رفیع، مجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی، ناصر کاظمی، پروین شاکر کے علاوہ شبلی نعمانی، سرسید، سجاد حیدر یلدرم، رحمت الٰہی برق اعظمی، اسرار الحق مجاز، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، عبدالعزیز یاس چاند پوری،امتیاز علی تاج، ابن صفی، وزیر آغا، ابن انشاء،پروفیسر امیر حسن عابدی،ڈاکٹر قمر رئیس، مقبول فدا حسین اور نواب پٹودی جیسی تمام اہم میدانوں کی قد آور شخصیات پر انہوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
موصوف کی موضوعاتی نظمیں گلوبل وارمنگ، ماحولیات پولیو، ایڈز، سائنس اور مختلف عالمی دنوں جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔
اس قبیل کی اب تک تحریر کردہ ان کی کاوشوں سے کئی ضخیم مجموعے تیار ہو سکتے ہیں اور یہ گرمیّ تحریر تا دم تحریر جاری ہے۔
موضوعاتی شاعری کے تحت ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے ماحولیات، سائنس، بین الاقوامی دنوں، اور آفات ارضی و سماوی وغیرہ پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ جس کا علاحدہ مجموعہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ 2010 میں جناب اعجاز عبید نے موصوف کی 50 موضوعاتی نظموں کا انتخاب ”برقی شعائیں “ کے نام سے برقی کتاب کی شکل میں شائع کیا تھا۔ موصوف برقی اعظمی نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ “سائنس” میں 6 سال تک ہر ماہ مسلسل موضوعاتی نظمیں لکھی ہیں- مزید برآں ڈاکٹر برقی اعظمی آج بھی کئی ویب سائٹوں جیسے اردو انجمن، اردو جہاں، اردو گلبن، اردو بندھن، شام سخن، اردو دنیا، آبجو، شعر وسخن وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ آج بھی ان کی بداہت گوئی کا یہ عالم ہے کہ وہ فیس بک، اردو لٹریری فورم، محاسن ادب، انحراف ادبی گروپ، فن اور فنکار،جدید ادبی تنقید، محمد معز خان صاحب کی محفل مشاعرہ و دیگر ویب سائٹوں اور ادبی فورموں کی ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہانہ اور سہ ماہی نشستوں میں اپنی فی البدیہہ طرحی، غیر طرحی اور عام تخلیقات شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فی البدیہہ منظوم تبصرے بھی رقم فرماتے ہیں۔ وہ آج بھی فیس بک پر اور دنیا بھر کی کئی ویب سائٹوں پرفی البدیہ طرحی اور عام مشاعروں میں پابندی سے شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے درجنوں کتب پر بھی اپنے تاثرات اور تبصروں کو منظوم شکل میں پیش کیا ہے۔ موصوف نے اپنے زیر ترتیب شعری مجموعے ” روحِ سخن“ پر اپنا منظوم پیش لفظ بھی تحریر فرمایا ہے۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی فی البدیہہ شاعری اس وقت اپنے شباب پر ہے۔ فی الحال وہ کئی ویب سائٹوں، انٹر نیٹ کے فورموں اور بلاگوں کے لئے فی البدیہہ لکھ رہے ہیں۔ بداہت گوئی کے لحاظ سے ڈاکٹر برقی اعظمی کا فیس بک پر روز شائع ہونے والا کلام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ کبھی کسی انگریزی نظم کا اردو میں فی البدیہہ ترجمہ پیش کردیتے ہیں، کبھی کسی مشہور و معروف شخصیت کے انتقال پر ملال پر منظوم تعزیتی پیغام اپ لوڈ کر دیتے ہیں، کبھی کسی صاحب ہنر کو اعزاز و اکرام سے نوازے جانے پر اس کی زندگی کی حصولیابیوں پر فی البدیہہ مختصر سوانح اور کارناموں پر مشتمل پرزور نظم پیش کردیتے ہیں۔ الغرض سارا دار مدار اپیلنگ پر ہے جو چیز ان کو اپیل کرتی ہے اس کے بارے میں اپنے تاثرات، خیالات، تجزیات فی الفور منظوم صورت میں حاضر کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ رسمی طور پر فیس بک پراحباب اپنی مختلف تخلیقات میں برقی صاحب کو ٹیگ کرتے ہیں جن پر اپنا مختصر تبصرہ بھی وہ اکثر اشعار کی صورت میں پیش کرتے ہیں جوان کی فی البدیہہ شاعری کی ایک بہت بڑی دلیل اور جیتی جاگتی مثال ہے۔
ان سب کے باوجودان کی گمنامی کی سب سے بڑی وجوہات میں کچھ ان کی گوناں گوں مصروفیات اور کچھ مخصوص اداروں کی بے توجہی کار فرما رہی۔ جس کی وجہ سے وہ زمینی سطح پر بہت کم آمیز واقع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر برقی اعظمی تقریبا 28 سالوں سے آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے منسلک ہیں۔ اتنے طاقتور سوشل میڈیا سے طویل وابستگی کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اس کا استعمال اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہیں کیا۔ حالانکہ فن شاعری میں ان کے اعلی مقام کے پیش نظر اگر وہ چاہتے تو آج پوری اردو دنیا میں برقی اعظمی کا طوطی بولتا مگر اپنی خودداری، قناعت پسندی اور عزلت پسندی کے پیش نظر وہ گوشۂ گمنامی میں قید رہے اس تلخ حقیقت کے درد کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا
اسی کرب کو ایک جگہ وہ یوں بیان کرتے ہیں
ویب سائٹوں پر لوگ ہیں خوش فہمی کا شکار
نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے
ایک جگہ یوں فرماتے ہیں
فصیل شہر سے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یوں ہی مر گئے چپ چاپ
یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نمائش سے قطع نظر عزلت پسندی اور گوشہ گیری کو ترجیح دی
حالانکہ وہ چاہتے تو آل انڈیا ریڈیو کی ”اردو سروس“ اور” ارددو مجلس“ کی ماہانہ نشستوں میں شریک ہوکر اپنے کلام کے جوہر دکھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اتنے پاور فل میڈیا سے وابستگی کے باوجود انہوں نے خود کو پروجیکٹ کرنے سے گریز کیا اور وہ آج بھی اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔ اب وقت آگیا ہے اور یہ ہماری صحافتی برادری کی اب مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ”حق بحق دار رسد “ کے تحت اردو ادب میں ڈاکٹر برقی اعظمی کے مقام کا تعین کیا جائے اور ان کی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا جائے۔
میدان شعروسخن میں وہ آج بھی سرگرم سفر ہیں- دہلی کی مقامی ادبی نشستوں میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں- فیس پر موجود ان کے البم میں ایک ہزار سے زائد غزلیں اور نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں علاوہ ازیں ان کی تخلیقات دیگر ویب سائٹوں، رسائل و اخبارات مثلا بزم سہارا، راشٹریہ سہارا، نئی دنیا، گواہ حیدر آباد، اردو لنک شکاگو، لمس کی خوشبو حیدر آباد وغیرہ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ برقی اعظمی کی شاعرانہ خصوصیات و محاسن کا احاطہ اس مختصر مضمون میں نہایت دشوار ہے میں بس اسی پر اکتفا کروں گا کہ
دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسن تو بسیار
“