ناہید نواز کے شعر کا ایک مصرعہ ہے
"بارود جواب آئے گا بارود کی بو کا"
ناہید نواز نے یہ شعر تو کسی اور صورت حال کے لیے لکھا تھا مگر کچھ عرصہ پہلے ہی کراچی کی گلیاں، سڑکیں۔ چوک، بس سٹاپ کراچی کی ساری فضا ہی بارود کی بو سے بھر پڑی تھی۔ شہر میں گولی کی اواز اور ایدھی کے ایمبولینس کے ہارن کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔دروازوں پہ نفرت کے وزنی تالے تھے اور اندر حامہ عورتوں سمیت جسم جل رہے تھے ۔
ایسے میں ایک شخص تھا تو جو بارود کی بو کا مقابلہ کر رہا تھا ۔پوری دنیا سے الفاظ کو کراچی اکٹھا کر کے الفاظ کی خوشبو کو کراچی کی گلی کوچوں میں پھیلا رہا تھا اور اس نے بارود کی بو کو کراچی سے نکال باہر کیا۔ وہ شخص تھا کراچی آرٹس کونسل کا صدر
احمد شاہ نے ،احمد شاہ جی نے جس طرح بارود کی بو کا مقابلہ کر کے اسے کراچی سے نکالا تھا ۔ اس سال اس نے اسی طرح اس وبا کا مقابلہ کیا، ایسی وبا کا جس میں انسانوں کا سانس لینا مشکل ہو رہا ہے اس نے پھر الفاظ کو اکٹھا کیا اور لفظوں کی سانسوں سے کراچی کو زندہ رکھ رہا ہے۔
سندھ سے میرا ایک خاص پیار ، تعلق ہے مجھے یہاں سے بہت محبتیں ملی ہیں ۔سیاسی ، ادبی اور ذاتی۔
میرے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کی میری نئی نظموں کی کتاب "بارش بھرا تھیلا" کو احمد شاہ جی نے " عالمی اردو کی تیرھیویں کانفرنس "میں کتابوں کی تقریب رونمائی کے سیشن میں جگہ دی ۔
ریحانہ روحی صاحبہ نے مختصر وقت میں جس میری نظموں کا تجزیہ کیا یہ ان کی محبت ہے ۔
میری کتاب کی اس تقریب کو خوبصورت اور کامیاب بنانے میں جن احباب حصہ لیا میں تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں۔