“فلم دیکھی رات کو؟”
“ ہاں تھوڑی سی دیکھی، پر سمجھ نہیں آئی”
“ کیا سمجھ نہیں آیا”
“ ویسے تو پوری فلم سمجھ نہیں آئی لیکن اس سے پہلے بھی دو تین ہندی فلموں میں دیکھا کہ بارش ہوتے ہی ہیروئن بے قابو ہوکر بارش میں ناچنے لگتی ہے” پیٹر نے بات مکمل کی۔
“ یہ تم جیسے دھوپ کے متلاشی کی سمجھ میں نہیں آۓ گا”
پیٹر کارڈف کا رہنے والا تھا۔ اس گورے کو ہندی بالکل نہیں آتی تھی نہ ہندی فلموں کا اسے کوئی شوق تھا۔ دراصل ان دنوں دوبئی میں ایک ہی انگریزی چینل تھا جہاں جمعرات کی شب انڈین فلم دکھائی جاتی تھی اور چاہے گورے ہوں یا کالے، ویک اینڈ پر کوئی اور مصروفیت نہ ہو تو ہندی فلم سے ہی دل بہلاتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ سنجیدہ ترین اور ماردھاڑ سے بھر پور فلم بھی ان گوروں کومزاحیہ لگتی۔
پیٹر برطانیہ میں جہاں رہتا تھا وہاں والے بارش کے ہاتھوں دُکھی رہتے تھے۔ اس کی اسکاٹ کھوپڑی میں یہ بات نہیں سماتی تھی کہ بارش میں ایسی کیا چیز ہے کہ اچھے بھلے لوگ بے قابو ہوجاتے ہیں۔
“ یار دراصل بارش ہمیں جذباتی کردیتی ہے۔ تم جیسے گیلے اور تر بہ تر شہروں میں رہنے والے کبھی رم جھم کے اس ترانے کو نہیں سمجھ سکتے جو چلچلاتی دھوپ اور لو کے تھپیروں کے بعد ساون کی ہواؤں اور سرمئی بادلوں کو سایہ کے لئے تر سے ہوئے ہمارے دلوں اور ہماری روحوں کو آکر گدگدا جاتا ہے۔ یہ برکھا رت، یہ پروائیاں، یہ بوندوں کی رم جھم ہمارے لیے زندگی کا پیغام ہوتی ہیں۔کھیت کھلیان لہلہا اٹھتے ہیں ، کسان اپنی محنت کا پھل پاتے ہیں ، سوکھے دھانوں میں پانی پڑجاتا ہے، دُکھی اور مغموم چہرے کھل اٹھتے ہیں۔
بارش کا پہلا قطرہ پڑتے ہی پکوان چڑھائے جاتے ہیں، تلہن تلے جاتے ہیں۔ گھر آنگن اور باغوں میں جھولے پڑجاتے ہیں، کنواریاں بالیاں امنگوں بھرے گیت گاتی ہوئی پینگیں لیتی ہیں تو برہا کی ماریاں کسی کی یاد میں مدہوش ہونے لگتی ہیں۔ لونڈے لپاڑے گلیوں اور سڑکوں پر بارش میں نہاتے ، یہاں وہاں رپٹتے ، شور مچاتے پھرتے ہیں۔ ہر دل خوشی سے جھومتا گنگناتا ہے”
پیٹر کو یہ ساری کتھا سناتے سناتے میں ساون رت کے خیال میں مدہوش ، کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا تھا۔ پیٹر منہ پھاڑے میری شکل دیکھ رہا تھا۔ اسے صرف اتنی بات سمجھ آئی کہ ہم دیسیوں کی زندگیوں کا دارومدار کھیتی باڑی پر ہوتا ہے اور بارشیں ہماری زراعت کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھلا ناچنے گانے کی کیا ضرورت تھی ؟ میری شاعرانہ نقشہ کشی نے اسے بالکل متاثر نہیں کیا تھا۔
یہ سب کچھ شاید گاؤں دیہات میں ایسا ہی ہوتا ہو تب ہی تو شاعروں نے کاری بدر یا، رم جھم، ساون رت، برکھا،،، رنگیلا سہانا موسم اور اسی قسم کی چیزوں پر گیت لکھ لکھ کر دیوان نہ بھرے ہوتے۔ شہروں میں بھی ایسا ہوتا ہوگا لیکن ان شہر وں میں جہاں بارشیں باقاعدگی سے برستی ہیں اور جہاں بارش کا پانی جمع کرنے، استعمال کرنے اور نکاسی کا انتظام ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی شہروں میں تقریباً ہرروز ہی بارش ہوتی ہے۔ ملائشیا، انڈونیشیا، مشرق بعید کے کئی ملک، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں شاید ہی کوئی بارش کے لیے اس قدر اتاؤلا ہوتا ہو۔
میرا شہر ، اور اس جیسے دوسرے شہر بارش کے لیے نہایت واہیات اور نامعقول شہر ہیں۔ کراچی والے بارش کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ پہلے چند گھنٹوں میں وہی کچھ ہوتا ہے یعنی، پکوان، جھولے، اور برسات کی بہاریں وغیرہ۔ اگر ایک یا دو گھنٹے مسلسل بارش ہوجائے تو ڈھائی تین کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں، جو دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک ہے، زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلی خوشخبری بجلی غائب ہونے کی ملتی ہے۔ اب تو موبائل فون آگئے ہیں ورنہ آپ اگر بجلی کے دفتر فون کرنا چاہیں تو ٹیلیفون لائن کو مردہ پائیں گے۔ سڑکوں اور گلیوں میں ٹخنوں سے ہوتے ہوئے، گھٹنوں اور پھر کمر کمر تک پانی پہہنچ جائے گا۔ آپ سمجھ نہیں پائیں گے کہ سڑک پر آپ کے پڑوس میں جو شخص دونوں ہاتھ نیچے کئے جو کچھ گھسیٹ رہا ہے وہ سائیکل ہے یا موٹر سائیکل۔ دنیا کے دوسرے شہروں میں بارش رکتے ہی پانچ منٹ میں پانی غائب ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں سڑک ہی غائب ہوجاتی ہے۔ بسیں، رکشہ ، ٹیکسیاں چلنابند ہوجاتی ہیں اور جو بند نہیں ہوتیں وہ جگہ جگہ پانی میں کھڑی نظر آتی ہیں اور لڑکے بالے اور مسافر انہیں دھکا دیتے نظر آتے ہیں۔ اور جو چل رہی ہوتی ہیں وہ منہ مانگا کرایہ لیتی ہیں۔ایسے میں خدانخواستہ کوئی ہنگامی صورتحال ہوجائے تو ایمبولینس اور فائر بریگئڈ کہیں بھی نہیں پہنچ سکتے۔ بارش اور گٹر کا پانی “ من تو شدم، تو من شدی “ کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یقین جانئیے ایسی بے بسی اور بدانتظامی دنیا میں کہیں نہیں نظر آتی۔ ساون رت، رم جھم جیسے الفاظ زہر لگنے لگتے ہیں اور راہ چلتے مسافر گھر پہنچنے اور گھر والے اپنے پیاروں کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔ جو راستہ روز آدھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے آج چار گھنٹوں میں بھی طے ہوجائے اور ساتھ خیریت کے گھر پہنچ جائیں تو غنیمت ہے۔
اور کراچی ہی کا نہیں، ہر اس شہر میں جہاں بارشیں باقاعدگی سے نہیں ہوتیں یہی حال ہوتا ہے۔ اسی دوبئی شارجہ کو لے لیں جن کے میں گن گاتا رہتا ہوں۔ کل یہاں بھی بارش کی وجہ سے اسکول بند رہیں گے۔
یاد آیا کہ آج سے چند سال پہلے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور یہاں زیر تعمیر دنیا کی سب سے اونچی عمارت کا معائنہ کیا۔ اسی شام بش واپس بھی چلا گیا۔ اس کے اگلے ہی دن ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ میں اپنے دفتر سے جو دوبئی میں تھا ، شارجہ ، جہاں میری رہائش تھی، ساڑھے پانچ گھنٹوں میں پہنچا تھا۔ ان دنوں میرے دفتر سے گھر کا فاصلہ عام حالات میں بمشکل پچیس منٹ کا ہوتا تھا۔ دودن قبل ہی میں نے شوروم سے نئی گاڑی نکلوائی تھی اور ایک موقعہ پر میں شارجہ کی ایک ایسی سڑک پر تھا کہ کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر سڑک پر بہتے ہوئے دریا کو چھو سکتا تھا۔ نئی گاڑی، نیا انجن تھا تو یہ کٹھنا جھیل گیا ورنہ پورے راستے میں گاڑیاں بند نظر آرہی تھیں۔
پھریہی کہانی اب سے چار سال پہلے دوہرائی گئی۔ اب میرا دفتر دوبئی کے آخری کونے یعنی جبل علی میں تھا اور صرف ایک دن پہلے میرے بیٹے نے بڑے چاؤ سے میرے لیے نئی “ فور وہیل “ گاڑی نکلوائی تھی۔ میں نے اس سے پہلے فور وہیل نہیں چلائی تھی اور پہلے ہی دن بادل ایسا ٹوٹ کے برسا کہ الامان الحفیظ۔ دفتر کے احاطے سے نکل کر مرکزی شاہراہ تک یوں لگا کہ گہرے سمندر میں کشتی کھے رہا ہوں۔ اس دن بھی نئی گاڑی ہونے کی وجہ سے کچھ بچت ہوگئی۔ اس کے باوجود گھر تقریباً چھ گھنٹے میں پہنچا۔ بہر حال یہ سبق ضرور مل گیا کہ نئی گاڑی خریدنے سے پہلے موسم کی پیشگوئی ضرور دیکھ لی جائے۔
یہاں ایک اور مسئلہ ہے۔ ذرا بھی بوند ٹپک جائے ، ٹریفک یوں رینگ رینگ کر چلتا ہے جیسے دولہا بارات میں۔ اناڑی ڈرائیور تک گھبراہٹ کے مارے آہستہ چلاتے ہیں۔ یہ مشاق کھلاڑی ہوتے ہیں جو اس پھسلواں سڑک پر بھی ریس لگانے سے باز نہیں آتے اور نتیجتا دوسروں کو ٹکریں مارتے پھرتے اور جگہ جگہ ٹریفک جام کا باعث بنتے ہیں۔
اس بارش نے کئی بار شرمندہ کیا۔ اکثر یہ ہوا کہ رات بھر شدید بارش ہوتی رہی اور دل نے فیصلہ کرلیا کہ صبح ایسی حالت نہیں ہوگی کہ دفتر جایا جائے، چنانچہ رات کو اس خیال سے دیر سے سوئے کہ کل دفتر تو جانا نہیں ہے۔ لیکن صبح جب آنکھ کھلی تو چمکتا، جگمگاتا سورج سر پر نظر آیا۔ نہ صرف یہ بلکہ سڑک پر پانی بھی غائب ہوچکا ہوتا ہے۔ لیکن اگر دفتر جانے کا ارادہ ہے تو گھر سے نکلتے ہی ایسی بارش ملتی ہے کہ کیا بتائیں۔ اور کئی بار یوں بھی ہوا کہ شارجہ میں بارش کے پانی اور ٹریفک سے لڑتے ہوئے اندازہ ہوا کہ آج دفتر پہنچنے میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دیر ضرور ہوگی۔ احتیاطا باس کو پیغام بھیج دیا کہ شدید ٹریفک جام ہے، آج دیر ہوجائے گی، لیکن دوبئی کی حدود میں داخل ہوتے ہی ساری سڑکیں بالکل خشک نظر آتی ہیں اور لگتا ہے یہاں ایک بوند بھی نہیں برسی۔ واضح رہے کہ شارجہ اور دوبئی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ شرمندگی ایک نہیں کئی بار ہوئی۔ باس کو یقین دلانا مشکل ہوتا ہے کہ شارجہ میں کتنی دھواں دار بارش ہورہی تھی۔
ان گوروں کے بھی اپنے ہی ٹوٹکے ہوتے ہیں، ایک دن کالے گھنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ دیکھا کہ پیٹر ایک ہاتھ میں چھتری لیے چلا آرہا ہے۔ دوبئی میں کبھی کبھی نازک اندام عورتوں کی ہاتھ میں دھوپ سے بچنے کے لیے چھتری تو نظر آتی ہے لیکن بارش کے لیے چھتری شاید ہی کبھی کسی نے خریدی ہو۔
میں نے چھتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں پیٹر کی طرف اشارہ کیا کہ یہ کیا ہے؟
“ یہ بارش کو دور رکھنے کے لیے ہے” پیٹر نے بتایا کہ چھتری ساتھ رکھو تو بارش نہیں ہوتی لیکن گھر بھول آؤ تو ضرور ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کرکٹ میچ میں ہم کبھی کبھار جو فتح کے قریب ہوتے ہیں تو بارش ضرور ہوتی ہے۔ لیکن جب شکست سے بچنے کے لیے بارش کی دعا کرتے ہیں تو چاہے کتنے ہے کالے بادل ہوں بارش برس کر نہیں دیتی۔
اس وقت بھی یعنی آدھی رات کے وقت باہر بجلی کڑک رہی ہے اور بادل گرج رہے ہیں۔ پہلے کبھی رات کی بارش رت جگے کا پیغام ہوا کرتی تھی۔ کراچی میں بچپن میں ایسے گھروں میں بھی رہے جہاں نالی دار جستی چھتوں پر بارش کی موسیقی رات بھر سونے نہ دیتی یا پھر چھتوں سے ٹپکتے پانی کے نیچے بالٹیاں اور برتن رکھتے اور چارپائی کو یہاں سے وہاں کرتے رات بیت جاتی۔ وہ جو اپنے مرزا نوشہ نے کہیں لکھا تھا کہ بارش دوگھنٹے برسی اور چھت ساری رات برسی۔
لیکن اس کے باوجود صبح کو جب باہر نکلتے تو زمین و آسمان نکھرے نکھرے نظر آتے۔ فضا میں بھیگی بھیگی سی ، سوندھی سی مست خوشبو پھیلی ہوتی۔ میدانوں میں سر سبز جھاڑیوں کے پاس کچی زمین پر بیر بہوٹیاں رینگتی نظر آتیں اور بقول یوسفی صاحب بہو بیٹیاں انہیں دیکھنے نکلنے پڑتیں۔
اب نہ بیر بہوٹیاں ہوتی ہیں اور رہیں بہو بیٹیاں تو اب خود بہو بیٹیوں والے ہوگئے۔ اب اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں۔ صبح دیکھیں گے کہ کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...