تھوڑا سا ہوش سنبھالا تو والد مرحوم چار سو روپیہ ماہانہ کے سرکاری افسر تھے _
اس چار سو میں ہم آٹھ بہن بھائی پل کر بڑے ہوئے _ دو بہنوں کی شادیاں کیں _ مکان بنایا _ یاد ہے کے تب ایک روپیہ میں پاؤ گوشت آتا تھا _ اماں مٹی کے تیل والے چولہے پر ہانڈی روٹی بناتیں ٫ ہم آٹھوں بہن بھائی اماں کو گھیرا ڈال کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے اور رج رج کر کھاتے _ روٹی پر گھی زیادہ لگوانے کیلئے اماں سے لڑائی بھی ہوتی _
پاؤ , آدھا سیر یا بقدر ضرورت کبھی ایک سیر دودھ بھی لیا جاتا جو پورے کنبے کے لئے کافی ہو جاتا _ اس وقت ہماری ملکیت میں سواری کے نام پر ایک سائیکل تھا جو والد صاحب نے بیالیس روپے میں خریدا _ تب رزق گنتی میں کم لیکن اسکی تاثیر زیادہ تھی _
اس سب کے ساتھ ساتھ گھر میں سکھ , سکون اور صبر شکر وافر تھا _ ایسے کام بہت کم تھے کہ جو اس دو جہانوں کے مالک کی ناراضگی کو دعوت دیں _ جو بھی کیا جاتا اللہ کو حاظر ناظر جان کر کیا جاتا اور بدلے میں اللہ پاک بے حد و حساب دلی سکون اور مادی دولت دیتے _ اتنی کہ بندہ اندر سے مطمئن ہو جاتا _ تب ہمارے رزق میں پھول کے جیسی خوشبو ہوتی تھی _
یہ برکت تھی _تب اکثریت کے اعمال نیک اور اللہ پاک ہم سے راضی تھا _
۔
آج میں چھ فگر کا پنشنر ہوں _ بزنس بھی اچھا جا رہا _ صرف چار افراد کا کنبہ _ گھر میں پانچ کلو دودھ روز کا آتا _ تین چار کلو سے کم کبھی گوشت نہیں آیا _ دو فرج کھانے پینے کی چیزوں سے بھرے رہتے _ پلیٹیں اٹھا کر بچوں پیچھے بھاگتا رہتا ہوں کہ کھاؤ پر وہ کھاتے ہی نہیں _ بیالیس روپے والے سائیکل کی جگہ پندرہ لاکھ کی کار نے لے لی _ اگلے سال بھر کا خشک راشن گھر میں ہے _ مدتیں ہوئیں وہ لڑکا کہیں گم ہو گیا جو ماں سے روٹی پر گھی زیادہ لگوانے اور دو آنے کی گیند لینے کے لئے لڑا کرتا تھا _
اس سب فراوانی کے باوجود ہماری کثرت کے گھروں سے سکون ختم ہو گیا _ اللہ پاک کو جواب دہی والی سوچ کم ہو گئی _ دھوکہ فریب اور چکر بازیاں عام ہو گئیں _ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی فالتو کی چخ پخ , بے سکونی اور ہر وقت کی ٹھاں پھاں _
اب ہمیں ڈنڈہ نزدیک اور اللہ پاک دور نظر آتا ہے _ رزق کی گنتی زیادہ لیکن تاثیر کم ہو گئی _ رزق میں جو پھول کے جیسی خوشبو تھی وہ نا رہی _ ہماری اجتماعی بداعمالیوں نے پھولوں سے خوشبو بھی چھین لی _۔
اس کا نام بے برکتی ہے _ ہماری اکثریتی بداعمالیوں کی سزا اور اللہ پاک کی ناراضگی _۔