یہ ہال سرکلر روڈ پر بلمقابل موچی دروازہ واقع ہے. اس ہال کا نام انجمن اسلامیہ کے بانی خان بہادر برکت علی کے نام پر ہے. اکثر نام کی مماثلت کے باعث اسکو ملک برکت علی سے منسوب کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ قابل احترام تاریخ دان ڈاکڑ اشتیاق احمد نے ۲٤ اپریل ۲۰١٤ء کو اپنے ایک مضمون میں اسکو ملک برکت علی سے منسوب کردیا بعد ازاں دوستوں کی نشاندہی پر انہوں نے ڈیلی ٹمائز میں ٥ مئی کو ایک وضاحتی کالم لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جتنے مضامین بھی اس ہال کے بارے میں پڑھے ان میں اسکا بانی ملک برکت علی کو بتایا گیا جس کے باعث انکو بھی غلطی ہوئی. اسی طرح دی نیشن میں اپنے مضمون میں برگیڈیئر (ر) انعام الحق نے اسکو ملک برکت علی سے منسوب کیا دیگر کئی مصنفین, بلاگرز اور اخبار نویس یہ غلطی دہرا چکے ہیں بلکہ اب تو یہ بات غلط العام ہے. جبکہ ملک برکت علی کا اس ہال سے فقط اتنا تعلق ہے کہ انہوں نے بھی دیگر کئی راہنماوں کی طرح یہاں کئی تقاریر کیں جن کی تفصیل محمد رفیق افضل کی تحریر کردہ سوانح عمری" ملک برکت علی ہز لائف اینڈ رائیٹنگز " میں مل جاتی ہے. جب اس ہال کو خان بہادر برکت علی کا نام دیا گیا تب ملک برکت علی کوئی معروف رہنما نہیں بلکہ ایم اے کے طالب علم تھے.
خان بہادر برکت علی لاہور کی معروف شحصیات میں سے ہیں سید لطیف نے آپ کا تعارف یوں کروایا ہے " آپ کے آباو اجداد, خلیل پٹھان تھے جو کہ افغانستان سے ہجرت کرکے آے. (آپ ١۸۲١ء میں پیدا ہوے) پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بطور پولیس آفیسر کیا. شاہ پور, حاجی پور, اور امرتسر میں تعینات رہے. جنوری ١۸٦۰ء میں برکت علی کو ضلع لاہور میں چونیاں کا تحصیلدار مقرر کیا گیا. سر رابرٹ ایجرٹن نے آپ کے متعلق کہا جن لوگوں پر انہیں مقرر کیا گیا ہے ان کے انتظام و بندوبست کے لیے ان میں بہترین صلاحیت پائی جاتی ہے. ١۸٦۸ء وائسراے اور گورنر جنرل لارڈ لارنس نے حکومت کے لیے بہترین خدمات کے عوض آپ کو خان بہادر کے خطاب سے سرفراز کیا. بخارہ اور یارکند کے سفارتی عملے میں بھی شامل رہے. لاہور آنے والے مقامی شہزادوں اور غیر ملکی سفارتکاروں کا انتظام آپ کے سپرد تھا. مسلمانوں میں آپ کا بہت اثر ورسوخ تھا. لاہور کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہونے کی حیثیت سے آپ نے بے شمار سرکاری اور انتظامی فرائض سر انجام دیے اور بے شمار مرتبہ حکومت اور اعلی حکام سے داد و تحسین ملی. جنوری ١۸۸۲ء کو ریٹائر ہوے. محمد برکت علی نے عوامی فلاح و بہبود, تعلیمی, سماجی یا صفائی کے لیے کیے جانے والے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا…." بادشاہی مسجد کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے برکت علی نے انجمن اسلامیہ قائم کی. اس انمجن کا لاہور گزٹئیر ١۸۹٣-١۸۹٤ء کے مرتبین نے یوں ذکر کیا ہے" یہ انجمن ١۸٦۹ء میں قائم کی گئی اور مسلم کمیونٹی پر اثرانداز ہونے والے تمام معاملات میں دلچسپی رکھتی ہے. اس کے مرکزی اہداف مسلمانوں پر اثر انداز ہونے سرکاری اقدامات کو عوامی سطح پر مقبول بنانا اور اس کمیونٹی کے خیالات کو حکومت کے سامنے پیش کرنا ہے." مکتوبات سرسید کے مرتب شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے آپ کے ذکر میں لکھا ہے" آپ نے اپنی تمام سرگرمیاں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور انکی تعلیمی و معاشرتی اور اخلاقی حالت کو بہتر بنانے میں وقف کردیں. انجمن اسلامیہ نے لاہور کی شاہی مسجد, کشمیری بازار کی سنہری مسجد, مسجد گمٹی بازار اور مسجد ٹکسالی دروازہ کی ملحقہ دوکانوں کو ١۸٥٧ء کے ہنگامہ کے بعد اپنی ان تھک کوششوں سے واگذار کروایا." نقوش لاہور نمبر میں آپ کا تذکرہ "ادیب اور مصنف" کے عنوان کے تحت کیا گیا ہے مگر آپ کسی تصنیف یا تحریر کا ذکر کہیں نہیں ملا. نقوش میں درج ہے" آپ کا اصل وطن شہجہانپور یوپی تھا. آپ لاہور میونسپلٹی کے نائب صدر, پنجاب یونیورسٹی کے فیلو, علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی تھے. سرسید کے بڑے زبردست معاونوں اور مدگاروں میں سے تھے.لوگ انھیں "پنجاب کا سرسید" کہا کرتے تھے."
سرسید نے اپنے خطوط میں آپ کو پنجاب میں اپنا سب سے قدیم شفیق و عنایت فرما لکھا ہے. ١۸۸٤ء میں سرسید جب لاہور آے تو سب انتظامات آپ نے ہی کیے جس کی تفصیل مولوی سید اقبال علی نے اپنی کتاب" سید احمد خان کا سفرنامہ پنجاب" میں درج کی ہے. کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید کو روکنے کے لیے مخالفین نے مختلف قسم کے حربے استعمال کیے جیسا کہ سرسید کو اطلاع دی گئی کے انکے ساتھی برکت علی خان پر حملہ کرکے انکا برا حال کردیا گیا ہے اور وہ آے تو انکا اس سے بھی برا حال کیا جاے گے جبکہ یہ خبر جھوٹی تھی. مولوی اقبال نے برکت علی کے عنوان کے تحت لکھا ہے" خان صاحب(برکت علی)کی ایک قدیم سپاہیانہ وضع ہے. وہ پٹھانی لمبی نوک کی ٹوپی پہنتے ہیں اور اس پر مختصر و خوبصورت عمامہ باندھتے ہیں…آپ نے پنجاب یونیورسٹی کے قائم ہونے میں بہت کوشش کی اور مدرستہ العلوم علی گڑھ بھی آپ کی فیاضیوں کا کچھ کم ممنون نہیں.. آپ سر سید کے میزبان ہوے اور نہایت فیاضی سے سے تمام مہمانوں کی مہمان نوازی میں بے دریغ روپیہ خرچ کیا, نقد بھی دیا اور فراہمی چندہ میں کوشش فرمائی." ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے اپنی کتاب " یادگار سرسید" میں سرسید کی وفات پر لاہور میں برکت علی کی جانب سے جلسہ ماتم منعقد کروانے کی روداد لکھی ہے. مولانا الطاف حسین حالی نے "حیات جاوید" میں لکھا ہے" خان بہادر برکت علی خان کی نسبت اُن (سرسید) کی اخیر دم تک یہ تمنا رہی کہ کالج میں ایک ممتاز مکان انکی یادگار میں تعمیر کروائیں." بعدازاں ١۸۹٤ء میں علی گڑھ کالج میں ان کے نام پر ایک کمرہ بنایا گیا.
اس ہال کا پہلے نام " محمڈن اسلامیہ ہال" تھا. اس ہال کی تعمیر کا آغاز ١۸۸۸ء میں ہوا جس کی تعمیر کے خرچ کا ذکر انجمن اسلامیہ کی رپوٹ میں ملتا ہے. پروفیسر احمد سعید نے اپنی کتاب " مسلمانان پنجاب کی سماجی اور فلاحی انجمنیں" میں انجمن اسلامیہ کی خدمات کے ساتھ ایک اور تنظیم بنام محمڈن یونین کلب جس کا انمجن سے گہرا تعلق تھا کا تذکرہ کیا ہے. پروفیسر صاحب لکھتے ہیں" ١۸۸٥ء کے لگ بھگ لاہور کے چند تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ایک تنظیم محمڈن یونین کلب قائم کی…اس کلب کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انجمن اسلامیہ پنجاب کو اس طرف توجہ دلائی کہ لاہور میں مسلمانوں کے اجتماعات کے لیے کوئی ایسی جگہ یا ہال موجود نہیں جہاں وہ قومی اجتماعات کا انعقاد کرسکیں. انجمن نے مسلمانوں کی اس تکلیف کا احساس کرتے ہوے کلب کی اس تجویز کو بہت پسند کیا اور ایک ہال کی تعمیر کے لیے زمین خریدی. بعد میں اس ہال کو انجمن اسلامیہ کے بانی محمد برکت علی خان کی نسبت سے برکت علی محمڈن ہال کے نام سے موسوم کردیا." ہال کے باہر ایک تحتی لگی ہے جس پر نام کے ساتھ سن ١۹۰٥ء درج ہے اس سے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہال شاید ١۹۰٥ء میں تعمیر ہوا. ١۹۰٥ء میں برکت علی خان کی وفات ہوئی اور اس پر انجمن نے فیصلہ کیا کہ انکے بناے ہوے اس ہال کا نام " برکت علی اسلامیہ ہال" رکھ دیا جاے باہر لگی تحتی بھی شاید تبھی لگائی گئی ہوگی. ١۹١۲ء میں اس ہال میں ایک ریڈنگ روم کھولا گیا جس میں اردو, انگریزی اخبارات و رسائل منگواے جاتے تھے. لاہور میں تقریبا ١۹١۲ء سے ١۹١٤ء میں بجلی آئی کمیاب ہونے کے باوجود برکت علی ہال میں برقی روشنی کا انتظام کیا گیا. برکت علی ہال کے قریب ہی ایک گھاٹی ہے وہاں پر آگے کبھی برکت علی کی کوٹھی ہوتی تھی خیر اب وہاں ایک پلازہ ہے. برکت علی ہال میں تقریباً ہر بڑے رہنماء نے خطاب کیا. قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے اجتماعات ہوے, یہیں الگ مسلم لیگ کا بھی اجتماع ہوا جو سر محمد شفیع نے قائم کی تھی, اور بہت سے اہم واقعات میں ہمیں اس ہال کا ذکر ملتا ہے. پیر سیّد غلام معین الحق گیلانی نے اپنے کالم میں لکھا ہے" ۲٤ اگست ١۹۰۰ء میں جب پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف سے لاہور مرزا غلام احمد قادیانی سے مناظرے کے لیے روانہ ہوئے تو لاہور میں آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ برکت علی محمڈن ہال بیرون موچی دروازہ میں قیام فرمایا." جب غازی علم الدین کو پھانسی دی گی تو علامہ اقبال کی زیر صدارت یہیں جلسے کا پروگرام بنا. حضرت اقبال کی وفات پر مولانا ظفر علی خان کے زیر صدارت اہلیان لاہور کا جلسہ اسی ہال میں ہوا. بقول علامہ صدیق ہزاروی علامہ قاضی عبدالنبی نے احمد رضا خاں بریلوی کی یاد میں برکت علی اسلامیہ ہال میں ہی یوم رضا کا پہلا ملک گیر اجتماع منعقد کیا. اسی ہال میں پیر سید جماعت علی شاہ نے مشائخ کانفرنس کی صدارت کرتے ہوے قائداعظم کے متعلق اپنا مشہور خواب سنایا. مہاتماگاندھی سے مذاکرات کرنے کے لیے مشاورتی اجلاس قائداعظم نے اسی ہال میں بلایا. قیام پاکستان کے بعد تحریک تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس برکت علی محمڈن ہال میں ہی منعقد ہوئی. لاہور کی تقریباً ہر اہم واقعے کا اس ہال سے تعلق ہے. مختار مسعود نے بطور ڈپٹی کمشنر لاہور اس ہال کی مرمت کروائی.١۹٦۸ء میں جب اس ہال کی مرمت ہوئی تو شاید یہ آخری موقع تھا جب اس ہال کو قابل توجہ سمجھا گیا. جب میں ماضی کی اس عظیم الشان عمارت پر پہنچا تو دروازے پر قفل پڑا تھا اور یہ شاندار عمارت بے رونق تھی. لوگوں نے اسکو پارکنگ اسٹینڈ بنا رکھا تھا ارد گرد کوئی اس ہال کے بنانے والے اور اس ہال کی تاریخ سے واقف نہ ملا. ممتاز ارشد نے تو اپنی کتاب " لاہور نئے پرانے رنگ" میں اس ہال کو ١۹۹۰ء میں ہی فنا کردیا دیگر کئی مضامین میں بھی یہ بات پڑھی. حیرت ہے مضامین لکھنے والے احباب جانے تک کی زحمت نہیں کرتے. اس ہال کا نوحہ منیر احمد منیر اور مستنصر حسین تارڑر نے لکھا ہے. مستنصر جی لاہور آورگی میں لکھتے ہیں" ہم کچھ دیر کے لیے موچی دروازے کے سامنے ویران اور فراموش شدہ برکت علی محمڈن ہال کی ابھی تک خوش نظر, لکڑی کی بوسیدہ ہوتی گیلیریوں اور محراب دار مقفل دروازوں والی اجڑی عمارت کے سامنے رُکے کوئی ویرانی سی ویرانی تھی…" بقول منیر صاحب جس عمارت کے باعث اِس علاقے میں بجلی کی نعمت آئی آج اُس کے سواے سب عمارتیں روشن ہیں ..!
برکت علی محمڈن ہال کا ہماری تاریخ سے گہرا تعلق ہے کاش کے ہم تاریخ کی اہمیت کو سمجھیں اور تاریخی عمارتوں کی بھی. خیر ہم تو فقط لکھ ہی سکتے ہیں اس امید پر کہ ایک دن ہمارا سویا ہوا محکمہ آثار قدیمہ جاگے گا اور معجزانہ طور پر ہمارے تاریخی ورثے کی بحالی کا کام ہوگا. حکومت سے گزارش ہے کے نئے عجائب گھر بنائیں ضرور بنائیں مگر پہلے تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کا کام تو شروع کریں کاش تحریک پاکستان کے حوالے سے اس ہال میں مواد رکھ کر اسکی تزئین و آرائش کرکے اس کو عام عوام کے لیے کھول دیا جاے یا کم از کم یہاں ایک معلوماتی بورڈ ہی لگا دیں کہ گزرنے والے اک لمحے کو ٹھہر کر جب اس شاندار عمارت پر نظر ڈالیں اور اسکی پرشکوہ تاریخ سے واقفیت حاصل کریں تو شاید اس عمارت کی ویرانی و اُداسی کم ہوجاے…..
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...