حالیہ بارشوں نے جہاں ملک کے ہر حصے میں تباہی مچائی ہے وہاں سکھر کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ باقی شہروں کے مقابلے یہاں بارش کا زور اتنا نہیں رہا لیکن بد قسمتی سے سکھر کا سیوریج سسٹم اور سڑکیں سکھر کی عمومی بارشوں کو سہنے کی بھی متحمل نہیں ہیں جو پچھلی کم از کم بیس سال سے مون سون کے موسم میں بمشکل چند بار رات میں برس کے رہ جاتی ہیں اور صبح تک دوبارہ چلچلاتی دھوپ نکلی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود گٹر ابل جاتے ہیں سڑکوں پہ پانی بھر جاتا ہے اور کئی دنوں تک یاد دلاتا رہتا ہے کہ سکھر والو تمہیں بھی بارش جھلک دکھانے آئی تھی۔
سکھر کی چند اہم شاہراہیں جولائی کی چند بارشوں میں ہی کہیں سے ٹوٹ گئی تھیں اور کہیں سے دھنس گئی تھیں۔
جب بھی اس قسم کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کب اور کہاں انتظامیہ کی غلطی ہے اور احتجاج کرنا چاہیے اور کہاں انتظامیہ کے ساتھ مل کے مسئلے کے حل پہ کام کرنا چاہیے۔
سکھر کسی قدر خشک موسم رکھنے والا شہر ہے جیسا کہ اوپر بتایا کہ یہاں مون سون کے سیزن میں بھی اکثر زیادہ سے زیادہ آدھا ایک گھنٹہ تیز بارش ہوتی ہے، وہ بھی رات میں۔ بادل بھی زیادہ دن نہیں ٹھہرتے کیوں کہ میدانی علاقہ ہے تو برستے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اگر ہوا نہ ہو تو بارش ذرا لمبی ہوجاتی ہے لیکن اس کا دورانیہ بہرحال زیادہ نہیں ہوتا۔ چوں کہ یہاں بارشیں زیادہ نہیں ہوتیں اسی لیے یہاں کے مکان خاص طور سے چھتیں بہت زیادہ بارش برداشت کرنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔
اس خشک موسم کی ہی وجہ سے آپ کو پرانا سکھر، نئے سکھر کے کچھ علاقے اور روہڑی میں پرانے طرز کے مکان زیادہ نظر آئیں گے۔ ان کے مکین بہت زیادہ مرمت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ان پرانے طرز کے بڑے بڑے گھروں میں ایک طرف ان کے جذبات جڑے ہیں تو دوسری طرف خاندانی جھگڑے ہیں۔ پاکستان بنتے وقت جو گھر ایک فیملی کو ملا تھا اب وہاں پانچ سے دس فیملیز بچوں سمیت موجود ہیں اور سب کا ہی اس مکان پہ حق ہے۔ لیکن کوئی اس پہ پیسہ لگانا نہیں چاہتا ورنہ پیسہ زیادہ لگے گا حق کم ملے گا۔
لیکن ساتھ ہی پرانے چھوٹے گھر بھی کثرت سے ہیں۔ جہاں مسائل اس لیے دگنے ہیں کیوں کہ ایک تو یہ گھر کمزور ہیں دوسرے وہ جس گلی محلے میں رہتے ہیں وہاں کئی کئی سالوں بعد گلی یا سڑک بنائی جاتی ہے اور ہر دفعہ وہ گلی مکان سے اونچی کردی جاتی ہے۔ اکثر گھروں میں بارش کے بعد سیوریج کا پانی ٹوائلیٹس کے ذریعے بھرنا شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ گلی ان کے گھر سے اونچی ہے اور سیوریج لائنز میں ذرا سا بھی پانی بڑھنے پہ اس کی سطح گھر کے ٹوائلٹس سے اونچی ہوجاتی ہے اور پانی الٹا بہنے لگتا ہے۔ شہر کے کچھ علاقے چھوڑ کے اکثر گلی محلوں کا حال کسی گاؤں کے علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔
اصولاً ہر شہر میں پرانی عمارتوں کا ہر کچھ عرصے بعد معائنہ کیا جانا چاہیے تاکہ بروقت اس کی مرمت یا نئے سرے سے تعمیر ہو سکے اور کسی کو جانی و مالی نقصان نہ ہو۔ بد قسمتی سے سکھر اور اس جیسے دوسرے شہروں میں حال یہ ہے کہ عام عمارتوں کی بات تو دور کی ہے سرکاری عمارتیں جس میں اسکول کالج اور اسپتال وغیرہ شامل ہیں ان کا ہی حال برا ہے۔ فی الحال سکھر میں جن اسکولوں اور کالجز میں سیلاب متاثرین کو رہنے کی جگہ دی گئی ہے ان میں سے اکثر کا اپنا کھڑا رہنا مشکل ہو رہا ہے۔
سکھر میں سیوریج لائنز کے نظام کا الگ مسئلہ ہے۔ یہی سیوریج لائنز بارشوں کے درمیان سب سے زیادہ اہم ہوجاتی ہیں لیکن کئی اہم علاقوں میں سیوریج لائنز نہ صرف بہت پرانی ہیں بلکہ بارش نہ ہونے کے باوجود بھی اکثر بند ہوجاتی ہیں اور سیوریج کا پانی سڑک پہ بھر جاتا ہے۔ جہاں سیوریج لائن کی مرمت ہوتی ہے وہاں کچھ یہ صورت حال ہوتی ہے کہ لائن کی مرمت کی گئی اور گٹر اونچا کر کے بنایا گیا کہ اب یہاں سڑک بنے گی تو گٹر لیول پہ آ جائے گا لیکن وہ سڑک بن نہیں پاتی اور گٹر سڑک سے اونچا رہ جاتا ہے اور بارش میں پانی اس کے اردگرد جمع رہتا ہے۔
یا پھر اور اعلیٰ کام ہوتا ہے ریت اور ڈامر گٹر کے اوپر بھی اچھی طرح ڈال کے گٹر کو محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ سڑک بننے کا طریقہ یہ ہے کہ الیکشنز سے دو ماہ پہلے اہم شاہراہوں پہ ایک موٹے پتھروں کی تہہ اس پہ باریک بجری کی تہہ اور ڈامر ڈال کے سڑک بنا دی جاتی ہے جو الیکشن اور اگلی بارشوں تک شہر کی شکل ذرا بہتر کر دیتی ہے۔
یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ وہ حالات ہیں جن سے سکھر کے شہری عمومی طور پہ نبرد آزما رہتے ہیں۔ یہ کسی ایک دفعہ کی انتظامیہ کی غلطی نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے سکھر کو اسی طرح برتا جا رہا ہے۔ کچھ سکھر کا موسم خشک کچھ انتظامیہ کی لاپرواہی کچھ سکھر کے شہریوں کے ذاتی مسائل سب نے مل ملا کے حالیہ بارشوں میں کہیں زیادہ تباہی کردی۔
پہلا نکتہ جو سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہے وہ یہ کہ یہ بارشیں سکھر کی سکت سے بہت زیادہ تھیں۔ دس سے پندرہ دن مسلسل ہلکی اور تیز بارش ہوتی رہی۔ جس درمیان سکھر والوں نے سورج کی شکل نہیں دیکھی۔ کیا کچا گھر کیا بنگلہ ہر کسی کی چھتیں ٹپکی ہیں کیوں کہ چھت بھی ہر علاقے کے موسم کے حساب سے ہی بنائی جاتی ہیں۔ سکھر کے گھروں کی روایتی ساخت گرمی کی شدت کو جھیلنے حساب سے موزوں تھی۔ ائر کنڈیشنرز آنے کے بعد سے اب اس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور گھروں کی ساخت بہت کمزور رکھی جانے لگی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر لوگوں کی جیب میں معیاری گھر بنانے کی طاقت پہلے سے بھی گھٹ گئی ہے۔ اور زیادہ لوگوں کی جیب تو پرانے گھر کو مرمت کروا سکنے کا بوجھ بھی نہیں سہار سکتی۔ یعنی ہم مجموعی حالات سمجھنے کی کوشش کریں تو بنیادی طور پہ حالیہ بارشوں میں سکھر کی تباہی کی جہاں ایک وجہ سیوریج کا خراب نظام ہے وہیں سکھر کی آبادی کی غربت بھی ہے۔ اگر سیوریج کا نظام بہتر کر بھی لیا جائے لیکن آبادی کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے حوالے سے اقدامات نہ ہوئے تو ہر بار ایسی آفات میں پہلے سے زیادہ افراد متاثر ہوں گے۔ کیوں کہ سوچیے کہ جو پہلے ہی غریب ہو اس کے گھر بھی تباہ ہو جائے روزگار کے مواقع ختم ہوجائیں وہ اگلی بار ایسی آفت میں کن حالوں میں ہو گا۔
اس وقت جہاں جہاں امدادی کارروائیاں جاری ہیں ان کا بنیادی فوکس موجود حالات میں سیلاب متاثرین کو زندہ رکھنا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ انہیں اپنے اسی ٹوٹے گھر میں جانا ہے بغیر کسی سرمائے کے روزگار شروع کرنا ہے۔ بہہ جانے والی فصلیں، مال مویشی اکٹھا کرنے ہیں۔ موسمی تبدیلیاں جس تیزی سے رونما ہو رہی ہیں اور ہم ان سے نمٹنے کے لیے جس اپروچ کا سہارا لے رہے ہیں ایسے رویے سے ہمارے پاس ہر دفعہ بارشوں سیلابوں اور گرمیوں میں لو کے شدید لہر کے بعد غریبوں اور غربت میں اضافہ ہو گا۔
اور یہ مسئلہ تب تک چلے گا جب تک ایک طرف تو ہم آئندہ آنے والے موسم کی شدت کے حساب سے پہلے سے اقدامات نہ کریں، موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی نہ کریں اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہاں ساری ذمہ داری کسی ایک شہر کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ یہاں پورے ملک بلکہ پوری دنیا کی ماحولیات کی طرف سے لاپرواہی ہے جو اس وقت پاکستانی بھگت رہے ہیں لیکن اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آہستہ آہستہ ہر ملک میں ان قدرتی آفات کی شدت اتنی بڑھتی چلی جائے گی کہ ان کے جدید ترین حفاظتی نظام بھی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...