ہم گھر سے روانہ ہوئے تو ملگجی شام کا دھندلکا ہمیں الوداع کہہ رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی اور اداسی کی سی کیفیت تھی۔ پھیکے پھیکے تاروں نے دھیرے دھیرے شبِ تاریک کو منور کرنا شروع کر دیا تھا۔ آسمان پر دن بھر کے تھکے ہوئے پرندے انجان علاقوں کی لا محدود اڑانیں بھرنے کے بعد نا معلوم ٹھکانوں کی طرف محوِ پرواز تھے۔ کہیں کہیں کچے گھروندوں سے نحیف سا دودھیہ دھنواں اٹھتا محسوس ہوتا تھا۔ گڈریا دینو ابھی ابھی کمزور اور بیمار بکریوں اور طاقتور اور تندرست بھیڑوں کا ریوڑ لے کر قریبی جنگل سے گاؤں میں داخل ہوا ہے۔ ریوڑ جس گلی سے بھی گزرتا ہے جانوروں کے کھروں سے اڑتی ہوئی مٹی کھلے دروازوں میں سے اور چھوٹی چھوٹی دیواروں پر سے گھروں میں پھینکتا چلا جاتا ہے۔ لیکن آج سہ پہر کے وقت ہونے والی بارش نے گاؤں کی گلیوں کی مٹی کو جما دیا ہے۔
ہمارے چند کمروں پر مشتمل کچے پکے مکان کے کچے صحن اور پکی دیواروں سے مٹی کے سوندھی سوندھی سی خوشبو آ رہی ہے۔ اس گھر میں بابا، ماں جی ، میری ایک سالہ پرانی دلہن اور میں ایک بے کیف زندگی گزار رہے تھے۔ میں قریبی شہر میں منیاری کی دوکان کرتا تھا جس سے گھر کا خرچ چل رہا تھا۔ تھوڑی بہت بچت ہوئی تو قریبی بنک میں جمع کرا دی۔ اسی دوران رحیم داد جو میرا بچپن کا دوست تھا کئی سالوں کے بعد ساؤتھ افریقہ سے واپس آیا۔ وہ وہاں ایک سپر سٹور پر سیلز بوائے کا کام کرتا تھا۔ اس کی ملازمت معمولی نوعیت کی تھی لیکن گھر میں دولت کی ریل پیل سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ساؤتھ افریقہ کی سونے کی کانوں کا رخ سیدھا ہمارے گاؤں کی طرف ہو گیا ہے۔ رحیم داد نے اپنی کوششوں سے میری جگہ بھی بنا دی تھی۔ چنانچہ چند ہفتوں کی بھاگ دوڑ کے بعد میں نے اپنا اور بیگم کا پاس پورٹ بنوا کر ویزا لگوا دیا۔ رحیم داد پچھلے ماہ گاؤں کو مستقل طور پہر چھوڑ کر اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ اسلام آباد جا بسا تھا اور وہیں سے اس نے ساؤتھ افریقہ جانا تھا جبکہ ہم نے ایک ہفتہ بعد اپنے گاؤں سے روانہ ہونا تھا۔
شدید گرمیوں کی وجہ سے صحن میں حسبِ معمول چار چارپائیاں بچھی تھیں۔ دو چارپائیاں خالی تھیں جبکہ دو پر بوڑھے والدین اپنے بڑھاپے میں لپٹے چھوٹی موٹی بیماریوں کے ہمراہ لیٹے پڑے تھے۔ بابا کی آنکھیں تو کب کی بے نور ہو چکی تھیں، ماں بھی اب موٹی موٹی عینک کے اوپر جھریوں بھرے ہاتھ کا شیڈ بنا کر کسی دور کی چیز کو دیکھا کرتی۔ ماں جی کب سے دو خالی چارپائیوں کو تکے جا رہی تھی۔ یہ چارپائیاں آج رات سے خالی ہو جانے والی تھیں۔ مریم نے شام پڑتے ہی ان کو صحن میں بچھا تو دیا تھا جانے صبح ان کو کمروں کے اندر کس نے رکھنا تھا۔ بابا نابینا اور ماں جی بہت کمزور۔ ۔ ۔
چند ماہ سے باباکے سر کے دائیں طرف ایک چھوٹی سی رسولی سی نمودار ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں پھوڑا بن گئی۔ درد کی شدت کی وجہ سے بابا چند راتوں سے سو بھی نہیں سکتے تھے۔ قریبی شہر کے ڈاکٹر کو چیک کرایا تو اس نے بیس دن بعد آپریشن کا کہا۔ لیکن ہمری فلائٹ آپریشن سے پہلے تھی۔ میرے اکاؤنٹ میں پچاس ہزار روپے اپنی ضروریات سے زائد تھے۔ میں نے پچاس ہزار کا چیک ماں جی کو دے دیا کہ وہ وقت پڑنے پر کیش کرا لیں گی۔ مریم اور میں مطمئن تھے کے والدین کے لیئے مناسب رقم چھوڑ کر جا رہے تھے۔ جب بابا کو میں الوداع کرنے کے لیئے ان کے پاس گیا تو ان کا پھوڑا لال پیلا ہو رہا تھا۔ بابا کے پاس سے مختلف قسم کے تیل، دیسی کریموں اور جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ بوسیدگی کی بدبو آ رہی تھی۔ میں جلدی جلدی ان سے جد ا ہونا چاہتا تھا لیکن وہ میرا ہاتھ نہیں چھوڑ رہے تھے۔ میرے ہاتھ کو وہ عجیب انداز سے اپنی بے نور آنکھنوں، سینے اور آخر میں ہونٹوں سے مسلنے لگے۔ جب بوسہ لینے کے کوشش کی تو لعاب کی ایک کثیر مقدار نے میرے شفاف ہاتھ کو گندہ کر دیا۔ میں نے اس مرتبہ زور لگا کر اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو بابا ایک جھٹکے سے چارپائی پر پڑے لوٹے کے اوپر گر گئے۔ پھوڑا براہِ راست لوٹے کی ٹونٹی سے ٹکرایا تھا۔ تھوڑٰ ی دیر میں ہم جب دروازے سے نکل رہے تھے تو بابا کی نحیف ہائے ہائے کی آوازوں نے گاؤں کی خاموش چادر تو تار تار کر رکھا تھا۔ ماں کے ہاتھ میں کل اثاثہ پچاس ہزار کا چیک لپٹا پڑا تھا۔ جب طویل گلی کا آخری موڑ مڑے تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ماں اندھیری گلی میں دروازے کی چک اٹھائے ابھی تک ہمیں جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ اندھیرے کے باوجود ماں کا وجود روزِ روشن کی طرح میری آنکھوں کے سامنے واضح تھا۔ چارپائیاں وہ اٹھا نہیں سکتی تھیں لیکن گھسیٹ کر آہستہ آہستہ وہ ان کو کمروں میں ڈال سکتی تھیں۔ جب ہم بس میں بیٹھے تو میں چشمِ تصور میں افریقہ کی سونے کی نقرئی کانوں کی سیر کرنے لگا۔ کچھ عرصے بعد جب ہم لوٹیں گے تو میں اپنے ساتھ ڈھیروں مال و دلت لے کر آؤں گا جس سے نہ صرف میں، میرے بال بچے بلکہ میرے بوڑھے ولدین بھی بقایہ زندگی سکون اور عزت سے گزار لیں گے۔ میں چشمِ تصور سے اب ماں جی کو کھانا کھاتے اور بابا جی کے کھانا کھلواتے دیکھ را تھا۔ ارے وہ پانی کے گھڑے کا کیا بنے گا جو میں مسجد کے کنویں سے بھر کر لاتا تھا جو دن بھر ہم تمام کے پینے کے کام آتا تھا۔یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ ماں تھوڑا بہت تو چل ہی لیتی ہیں۔ گھڑا نہ اٹھا سکیں تو کٹوروں یا جگ میں ہی مسجد سے پانی لے آیا کریں گی۔
دو دنوں بعد ہم ساؤتھ افریقہ کے شہر پورٹ الزبتھ میں تھے۔ رحیم داد نے میری اور مریم کی ملازمت کا پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا۔ ہم دونوں کو ابتدائی طور پر مقامی کروڑ پتی حبشی کے گھر میں ملازمت ملی تھی۔ مریم ان کے کمروں کی صفائی کرتی تھی۔ ان کے بھاری بھرکم پلنگ بیچاری کو صبح شام اندر باہر گھسیٹنے پڑتے تھے۔ کھانا پکانا پڑتا اور دوسرے چھوٹے موٹے کام بھی کرنے پڑتے۔ میرے ذمہ گھر کے باہر کے کام تھے۔ وہاں پینے کا صاف پانی گھر گھر دستیاب نہ تھا۔ ہم محلے کے چوراہے کے ساتھ پانی کی ایک ٹینکی نصب تھی جہاں سے پینے کا پانی لایا جاتا۔ ایک روز میں حسبِ معمول ایک بڑا سا گیلن بھر کر لا رہا تھا جب تھکاوٹ کے شدید احساس کے ساتھ ماں جی کی یادیں جاگ اٹھیں۔ پتہ نہیں ماں جی اور بابا کے لیئے مسجد کے کنویں سے پانی کون لاتا ہوگا۔ جانے ان کی لکڑی اور بان سے بنی چارپائیاں کون اندر باہر رکھتا ہو گا۔ گھر کی صفائی، کھانا پکانا، برتن کی صفائی جیسے کام کیسے ہوتے ہوں گے۔
میں نے چوہدری فتح خان کے گھر فون کرنے کی کوشش کی لیکن جواب ملا کہ فون عدم ادائیگی بل کی وجہ سے عارضی طور پر بند ہے۔ چوہدری جی کا فون ہی والدین سے رابطہ کا واحد ذریعہ تھا جو اب موجود نہیں رہا تھا۔ پتہ نہیں بابا کا آپریشن ہوا یا نہیں۔ ۔ ۔ اب ان کی حالت کیا ہو گی۔ ۔ ۔ کیا چیک کیش کرانے کے بعد ماں جی باقی رقم کو سنبھال سکی ہوں گی۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو کہ انہوں نے فضول خرچی میں پیسے اڑا دیے ہوں اور پھر خستہ حال ہو گئے ہوں۔ میں کتنے ہی دن فون ملاتا رہا لیکن چوہدری جی نے نہ بل جمع کرایا اور نہ فون کا کنکشن بحال ہوا۔
دو اڑھائی سال گزرنے میں دیر نہ لگی۔ ہم نے ایک ماہ کی چھٹی لی اور اپنے دیس کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب گاؤں پہنچے تو سردیوں کا موسم عروج پر تھا۔ ابھی شام بھی نہیں ہوئی تھی اور شدید ٹھنڈ نے ہمارے اور ایک کپکپی سی طاری ہو گئی تھی۔ والدین کی خیریت کی دعائیں ہمارے لبوں پر تھیں۔ تانگہ شہر کے اڈے سے گاؤں کی طرف کچی سڑک پر لشٹم پشٹم چلا جا رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف میلوں تک
سرسوں کے پھول لہلہا رہے تھے۔گلابی جاڑے کا موسم اپنے عروج پر تھا۔ہم نے سالم تانگہ کرائے پر لیا تھا تاکہ جلد گھر پہنچ سکیں۔ راستہ طویل تھا اور سڑک خراب۔ راستے میں کئی مسافروں نے تانگے کو روکنے کی کوشش کی لیکن ہم نے کسی سواری کے سوار ہونے کی اجازت نہ دی۔ ایک جگہ تو مریم نے سیاہ چیتھڑوں میں ملبوس ایک بزرگ عورت کے تانگہ روکنے کی کوشش پر تانگہ روکنے کو کہا لیکن میں نے انکار کر دیا۔ وہ بیچاری ہاتھ کے اشاروں سے دیر تک منت کرتی رہی۔ اس کی ایک ٹانگ میں لنگراہٹ شاید اس کے چلنے میں رکاوٹ بن رہی تھی۔
تانگہ جب گاؤں کے قریب پہنچا تو میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ جانے میرے گھر، اور ماں باپ کی حالت کیا ہو گی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ سرد زمستانی ہوائیں چل رہی تھیں۔ دو تین جان پہچان کے آدمیوں نے مجھے حیرت سے دیکھا بھی سہی لیکن ساتھ عورت ہونے کی وجہ سے کسی نے نہ سلام دعا کی اور نہ کسی نے خیر خیریت پوچھی۔ جب ہم اپنی گلی سے ہوتے ہوئے اپنے گھر کے سامنے پہنچے تو باہر کنڈی چڑھی تھی۔ اس لمحے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔سردی کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ شمال کی طرف سے کالے کالے بادلوں کی فوج چڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ ہم نے تالے کے بغیر بند کنڈی کھولی اور اندر داخل ہو گئے۔ صحن اور کمروں کی ویرانی کو دیکھ کر یہ عمارت گھر کم اور ایک فرسودہ مکان بلکہ کھنڈرزیادہ لگ رہی تھی۔ باورچی خانے کو دیکھ یوں محسوس ہوا کہ یہاں مہینوں آگ نہیں جلائی گئی۔ گھر کی اکثر چارپائیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ایک قدرے محفوظ چارپائی پر ہم نے اپنے بیگ رکھے، گرم کوٹ نکالے اور اپنے جسموں کو سردی سے بچانے کی کوشش میں لگ گئے۔ بارش کی کن من میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ماں جی اور بابا کہاں چلے گئے اور کس گھر میں رہائش اختیار کر لی اس کا کچھ پتہ نہ تھا۔ ہمارے ہمسائے چاچا کریم نواز کو ہماری موجودگی کا پتہ چل چکا تھا۔ چاچا خود تھوڑی دیر میں گرم گرم چائے پکوڑوں کے ساتھ لے آیا۔ تسلی سے چائے پکوڑوں سے اپنے تھکے ہوئے اور سرد جسموں کو گرمانے کے بعد ہم نے چاچا سے اپنی ماں اور باپ کی بابت سوال کیا۔ چاچا حیران رہ گیا کہ ہم اپنے والدین سے متعلق بالکل انجان تھے۔ چاچے نے جو داستان سنائی وہ ناقابلِ یقین تھی۔ ان کے مطابق بابا ہمارے جانے کے ایک ماہ بعد انتقال کر گئے تھے۔ ان کا سر کی رسولی کا آپریشن نہ ہو سکا تھااور رسولی دو ہفتوں کے بعد کھوپڑی کے اندر کی طرف سے پھٹ گئی تھی۔ ہم جب گھر سے روانہ ہوئے تھے تو پچاس ہزار کا چیک جو میں نے ماں جی کو لکھ کر دیا تھاماں کے رات بھر رونے کی وجہ سے گیلا ہو کر ناقابلِ استعمال ہو گیا تھا۔ ماں جی کو جب بنک منیجر چیک یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ یہ پانی کی وجہ سے ہم نہیں لے سکتے تو سادگی کی تجسیم ماں جی نے دو دن کے لیئے اس چیک کو دھوپ میں رکھے رکھا بالکل ویسے جیسے وہ گرمیوں کے موسم میں کریلے کاٹ کر اس کا ہار بنا کر دھوپ میں سکھا کر محفوظ کیا کرتیں۔پھر بھی چیک کیش نہ ہو سکا۔ بابا کے آپریشن کی فیس کے لیئے اہلِ محلہ نے چندہ کیا لیکن وہ ناکافی تھا چنانچہ آپریشن تعطل کا شکا ر ہوتا رہا ۔ اسی تعطل کے دوران پھوڑا پھٹ گیا اور بابا کی موت کا باعث بن گیا۔ کریم نواز نے بتایا کہ بابا نے آخری دن انتہائی درد و کرب میں گزارے۔ شب و روز ہائے ہائے کرتے رہتے ، نہ خود سوتے نہ تمہاری ماں اور نہ ہمیں سونے دیتے۔ ہر وقت اور ہر کسی سے کہتے رہتے '' میرے علاج کے پیسے اکٹھے ہو گئے؟۔ ۔ ۔ تم سارے لوگ جاؤ بنک افسر کے پاس کہ میرے علاج کے پیسے دے دے۔۔۔۔ تھانے میں رپٹ لکھوا دو کہ بنک افسر میرے بیٹے کے پیسے نہیں دے رہا۔ ۔ ۔ میرے بیٹے کو چٹھی لکھو کہ جلد آ جائے مجھے بہت تکلیف ہے سر میں''۔ وہ ہر وقت ہاتھ پر دم کر کے ہاتھ سر کے پھوڑے پر پھیرتے رہتے۔ سوجن پھیلتے پھیلتے گردن کے اوپری حصے تک آن پہنچی تھی۔ درد کی شدت سے اکثر بابا کی بے نور آنکھوں میں پانی جاری رہتا۔ ماں نے جی نے دوا دارو کی مقدور بھر کوشش کی لیکن شاید اب بات ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔بابا اور ماں جی دو دنوں تک ڈاکٹر کے کلینک پر پڑے منتیں ترلے کرتے رہے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ آخر کار سوجے ہوئے سر والے نابینا بڈھے کی چارپائی کو گھر لے جایا گیا جہاں اس نے اگلے دن جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
چاچے کریم نواز کی رقت آمیز کہانی ہم دونوں نے انتہائی مایوسی کے ساتھ سنی۔ باہر بارش کی رفتار اور بڑھ گئی تھی۔ درختوں کے شور سے تیز طوفانِ بادوباراں کا گماں ہوتا تھا۔ ہم تینوں کے جسم سردی سے کبکبا رہے تھے۔ جب چاچا جانے لگا تو اچانک مجھے ماں جی کا خیال آیا۔ چاچا نے کہا کہ تاجو لوہار کا بیٹا عامر بنک میں ملازم ہوا ہے۔ اس نے ماں کو کہا تھا کہ تم بنک میں آنا میں تمہار مسئلہ کرانے کی کوشش کروں گا۔ آج تمہاری ماں شہر گئی ہوئی تھی۔ میں تھوڑا متفکر ہوا کہ رات ہو چکی ہے اب توماں کو آ جانا چاہئے تھا۔تھکاوٹ نے تھوڑٰ ی دیر میں ہمارے اوپر نیند طاری کردی اور صبح تک ہم بے خبر سوئے رہے۔
صبح سویرے چاچا کریم نواز کی اونچی آوازوں نے ہم کو بیدار کر دیا۔ چاچے نے روتے ہوئے بتایا کہ تمہاری ماں شہر اور گاؤں کی درمیانی سڑک پر رات کو مردہ پائی گئی ہے۔ چوہدری صاحب رات کو ساتھ والے گاؤں سے آ رہے تھے کہ راستے میں ان کو سیاہ کپڑوں میں ملبوس کوئی عورت لیٹی دکھائی دی۔ جب قریب سے معائنہ کیا تو وہ تمہاری ماں تھی جو شاید کرایہ ختم ہوجانے کے باعث واپسی پر پیدل ہی آ رہی تھی۔ راستے کی سردی اور بارش شاید اس کمزور عورت کی موت کا باعث بن گئے۔
تھوڑی دیر میں چوہدری صاحب کی گاڑٰی ہمارے دروازے پر تھی۔ماں جی کو بارش کے باعث کمرے کے اندر رکھا گیا تھا۔ کپڑے ٹھنڈے کیچڑ سے لت پت تھے۔ جب غسل سے پہلے کپڑے اتارے گئے تو دوپٹے کے کونے کے ساتھ کچھ بندھا ہوا تھا۔ جب اس ننھی سی گانٹھ کو کھولا گیا تو ایک بوسیدہ سا کاغز بارش کی نمی کے باعث چھوٹی سی گیند کی شکل اختیار کر گیا تھا۔گیند کو کھولا گیا تو وہ ایک پرانے چیک کی شکل اختیار کرگئی۔