"بارش" کی رسید؛
میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ سعود عثمانی بلند قامت شاعر ہے اس سے میرا تعلق عرصہء وقت کے اعتبار سے اتنا دراز نہیں مگر فکری اعتبار سے ہمارے درمیان بہت کم مسافت ہے. ملاقاتوں کا سلسلہ بھی مختصر ہے لیکن اس کی شاعری نے اس اختصار اور اجمال کو تفسیری رنگ دے رکھا ہے، پچھلے دنوں اضافی مہربانی سے کام لیتے ہوئے سعود عثمانی نے اپنے دو مجموعہ ہائے کلام "بارش" اور "جل پری "ارسال کئے، فی الحال میرے سامنے بارش ہے، اس کتاب کو کئی ایوارڈ بشمول احمد ندیم قاسمی ایوارڈ 2007 مل چکے ہیں،اور بہت سے مشاہیر شعر وادب نے اسکی تحسین کر رکھی ہے، کتاب اتنی دیدہ زیب ہے کہ اسے دیکھتے ہی حس جمالیات پھڑک اٹھتی ہے. اس کی قراءت سے مضراب دل بجنے لگتے نہایت مختصر انتخاب پیش کر رہا ہوں، آئیں کچھ دیر کو بارش میں بھگتے ہیں،
ترے حضور مجھے لے کے آن پہنچا ہے،
یہ سجدہ مجھ میں مسلسل قیام کرتے ہوئے،،
کسی نے اسم محمد پڑھا تو ایسا لگا،
کہ جیسے کوئی پرندہ اڑا ہو سینے سے،،
ہوائے شب تجھے آئندگاں سے ملنا ہے،
سو تیرے پاس امانت ہے گفتگو میری،،
ابھی یہ بیج کی مانند پھوٹتا ہوا دکھ ہے،
بہت دنوں میں کوئی شکل اختیار کرے گا،،
نہیں قبول حجابات جس طرح کے بھی ہوں،
دھواں حریف مرا آندھیاں عدو میری،،
پتھر ہے مگر پھول کے پیکر سے بنا ہے،
کیا خواب ہے جو سنگ منور سے بنا ہے،،
اس خواب نے تو مجھ میں پلک تک نہیں جھپکی،
یہ خواب تو آنکھوں کے مقدر سے بنا ہے،،
ورنہ یوں کون چمک سکتا ہے دل کی صورت،
آئنے! تجھ پہ کوئی خاص عطا ہو گئی ہے،،
تو جانتا نہیں مٹی کی برکتیں کہ یہیں،
خدا بھی ملتا ہے، خلق خدا بھی ملتی ہے،،
سورج کہ دن میں اہل زمیں کا کفیل تھا،
شب میں بھی چراغ جلاتا تھا دھوپ سے،،
یہ کیسے لوگ ہیں مٹی کی لاٹھیوں کی طرح،
نہ خود بنے نہ کسی اور کا سہارا بنے،،
یہیں نہیں ہیں محلے مرے عزیزوں کے،
ادھر بھی ایک جہان عدم لگا ہوا ہے،،
ہمارا عشق ہے درویش پیڑ کی صورت،
کہ زہر پیتا ہے اور زندگی بکھیرتا،،
اس آنکھ سے بس آنکھ ملانے کی دیر تھی،
پھر جیسے چل پڑی مری تنہائی میرے ساتھ،،
اس محفل خوش رنگ میں یہ سوچ رہا ہوں،
تنہا وہ کہیں حلقہء احباب میں ہو گا،،
وہ دن گزر گئے وہ کیفیت گزرتی نہیں،
عجیب دھوپ ہے دیوار سے اترتی نہیں،
اک پھول تلے چٹخ رہا ہے،
یہ شیشہء سخت جان میرا ،،
کچھ اور اکیلے ہوئے ہم گھر سے نکل کر،
یہ لہر کہاں جائے سمندر سے نکل کر،،
عالم میں کئی اور بھی عالم تھے، سو میں،
دیکھا انہیں اس مرکز و محور سے نکل کر،،
جو کٹ گئی ہے اسے اتنا سرسری نہ سمجھ،
میاں یہ عمر گزرتی نہیں گزارے سے،
بڑا حجاب ہے حد سے زیادہ قرب سعود،
کہ نقش چھپتے ہیں نزدیک کے نظارے سے،،
میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتا ہوں،
کسی کے خواب سے کرتا ہے استفادہ کوئی،
ہوائے تند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو،
یہیں کہیں تھا چراغوں کا خانوادہ کوئی،،
چیخیں سنی تھیں ساتھ کے خیمے سے پھر بھی لوگ،
نکلے نہیں تھے گوشہء امن وامان سے،،
اپنا گریہ کس کے کانوں تک جاتا ہے،
گاہے گاہے اپنی جانب شک جاتا ہے،،
پکا رستہ، کچی سڑک اورپھر پگڈنڈی،
جیسے کوئی چلتے چلتے تھک جاتا ہے،،
جنون عشق کی تسکین گھر میں کیسے ہو،
میاں! نماز سفر ہے حضر میں کیسے ہو،،
تمہیں تو پل کی جدائی بھی مار ڈالتی تھی،
تو یہ بتاؤ کہ اب اپنے گھر میں کیسے ہو،،
میں صرف محبت کا طلبگار تھا لیکن،
اس میں تو بہت کام اضافی نکل آئے،
یہ قریہء بے نور ذرا ٹھیک سے دیکھو،
ممکن ہے کوئی جاگتی کھڑکی نکل آئے،،
پلٹا ہوں تو یادوں پہ بہت گرد پڑی تھی،
شائد کوئی دروازہ کھلا چھوڑ گیا میں،،
سورج کے افق ہوتے ہیں منزل نہیں ہوتی،
سو ڈھلتا رہا، جلتا رہا، چلتا رہا میں،،
یہی سب کچھ نہیں ہے "بارش" کا ہر قطرہ باعثِ نموئے جہان سخن ہے پوری کتاب ایک انتخاب ہے ہر مصرعےاور شعرکی بنت میں سعود عثمانی کی فنی چابکدستی نظر آتی ہے، اللہ کرے قلم اور زیادہ،،،،،،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔