بڑی پریشانی ہے
چند روز پہلے لاہور میں قتل کر دیے گئے تین بچوں کی تصویر دیکھ کر میں ملول رہا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ ماں اپنے بچوں کے قتل کا الزام اپنے آشنا پر عائد کر رہی ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کا دماغی توازن درست نہیں اور اس نے خود اپنے بچوں کو گردن گھونٹ کر مارا ہے۔ دس سال کا لڑکا، چھ سال کی بچی اور تین سال کا بچہ، درمیانے طبقے کے بچوں کے مناسب ملبوس میں ایک دوسرے سے جڑ کر لیٹے یا لٹائے ہوئے مردہ بچوں کیتصویر بڑی دلدوز تھی۔ کیا یوں مار دیے جانا ان بچوں کا مقدر تھا؟
اگلے ہی روز ایک اور خبر تھی کہ سفّاک باپ نے کلہاڑی کے وار کرکے اپنے چار بچے مار دیے۔ اس خبر میں بھی یہی بتایا گیا تھا کہ اس شخص کا دماغی توازن خراب تھا۔ دو روز بعد اخبار میں ایک اور خبر تھی کہ فلاں مقام کے ایک شخص کے تین بچے پراسرار طور پر ہلاک۔ رات کو انہوں نے دودھ چاول کھائے اور گھنٹے بعد الٹیاں کرنا شروع کر دیں۔ پاکستان کے اخبار میں یہ واقعات گژشتہ چار روز میں درج ہوئے۔
کچھ دن پہلے روس کے علاقے سائبیریا کے شہر کیمیروو کے ایک مال میںہوئی آتشزدگی سے باقی لوگوں کے ساتھ چالیس سے زیادہ بچے بھی لقمہ اجل بن گئے۔ ابتدائی طور پر شبہ ظاہر کیا گیا کہ فوم کے ٹکڑوں سے بھرے ہوئے اس گڑھے میں جس میں بچے چھلانگیں لگا لگا لگا کر کھیلتے ہیں، کسی بچے نے گھر سے لایا سگریٹ لائیٹر جلایا تو فوم کے ٹکڑوں نے آگ پکڑ لی جو تیزی کے ساتھ وسیع و عریض شاپنگ و ری کری ایشن مال میں پھیل گئی۔ یہ ایک حادثہ تھا جس میں بہت سی انسانی غفلتیں اور مال کی تعمیر و انتظام میں کئی طرح کی بدعنوانیاں شامل ہونگی مگر بچوں کی اموات سے متعلق پاکستان کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں، ان پر بہت زیادہ تشویش ہے۔
دماغی توازن درست نہ ہونا یا پراسرار اموات بچوں کی اموات کا نہ تو بہانہ ہیں اور نہ جواز۔ کسی کا دماغی توازن خراب ہو تو اسے کیسے بچوں پر چاہے اس کے اپنے ہی بچے کیوں نہ ہوں اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے؟ جو والدین بچوں کی زہر خورانی سے حفاظت نہ کر پائیں انہیں والدین کیسے مانا جائے؟
معاشی ناانصافی، بیروزگاری، وسائل کا فقدان، کثیر العیال ہونا انتہائی ذہنی تناو کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر انسان زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو، حالات کے خراب ہونے کا مناسب تجزیہ نہ کر پائے یا پھر دونوں اوصاف ہوں بھی مگر بچے بھوک سے بلکتے ہوں تو وہ پہلے خود کو اس دنیا سےآزاد کرنے کا سوچے گا پھر یہ سوچ کر کہ اس کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد اس کے بچوں کا کیا ہوگا، اپنے سے پہلے اپنے بچوں کو قتل کرنے کا سوچے گا۔ اگر بہت ہی مایوس ہوا تو آخری اقدام کے طور پر بچوں کی زندگی تمام کرنے کی کوشش کرے گا۔ کوئی گلا گھونٹ کر، کوئی کلہاڑی کے وار کرکے اور کوئی زہر دے کر۔
جیسی پاکستان میں حکومت ہے اور جس نوع کا ریاستی نظام اس سےکسی فلاح کی توقع رکھنا یا حکومت کو ایسی کوئی تجویز دینا جو عوام کی بھلائی سے متعلق ہو، خلاء میں سیٹی بجانے کی مانند ہے مگر چپ رہا نہیں جا سکتا۔
متمدن ملکوں میں عام لوگوں کو تو خیال رکھا ہی جاتا ہے مگر بچوں کا خیال کہیں زیادہ رکھا جاتا ہے کیونکہ ایک تو وہ مجبور و معصوم ہوتے ہیں دوسرے ان سے مستقبل کی آس جڑی ہوتی ہے۔ حادثات و واقعات کو ہونے سے روکنے کے لیے اصول و ضوابط بنائے جاتے ہیں اور ان پر سختی سے عمل کروایا جاتا ہے۔ جہاں روس کی طرح رشوت ستانی کا دور دورہ ہو وہاں واقعات و حوادث کو روکے جانا دشوار ہو جاتا ہے لیکن روس جیسے ملک میں بھی جو مغرب سے ابھی خاصا پیچھے ہے، بچوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔
لوگوں کی طبی نگہداشت کے لیے ہمارے ایس ایچ او کی طرح ڈاکٹر مقرر ہیں۔ پولیس کے متعین کردہ ایس ایچ او بھی نگاہ رکھتے ہیں کہ نشئی، شرابی یا ذہنی طور پر غیر متوازن والدین کہاں کہاں اور کون کون ہیں؟ نشاندہی پر متعینہ ڈاکٹر ان کو علاج کی جانب راغب کرتے ہیں جب کہ پولیس کی نگرانی میں ایک اور محکمہ ایسے غیر محفوظ بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے اور جب تک والدین کا علاج نہ ہو جائے اور وہ متوازن ہونا ثابت نہ کر دیں انہیں بچے نہیں لوٹائے جاتے۔
تاجکستان وسطی ایشیا کے غریب ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہاں کی 60 فیصد آبادی تارکین وطن کے طور پر روس میں کام کرتی ہے۔ جب میں نے پاکستان کی مندرجہ بالا خبروں کا ذکر ایک تاجک شناسا سے کیا تو اس نے مجھے یہ کہہ کر شرمسار کر دیا کہ آپ ہمارے ملک کو چاہے جتنا پسماندہ اور غریب کہہ لیں لیکن وہاں والدین اپنے بچوں کو قتل نہیں کرتے۔ ہمارے لوگ روس میں آ کر محنت مزدوری کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں بچوں کے لیے دو دو منزلہ مکانات تعمیر کرواتے ہیں۔ میں اس کی اس بات کو یہ کہہ کر جھٹلا سکتا تھا کہ تمہارے ہاں آبادی ہمارے ملک سے کہیں کم ہے، تمہارے لوگ اپنے ملک میں بیروزگار ہوں تو وہ بلا ویزا روس پہنچ کر اور نہیں تو خاکروب لگ جاتے ہیں۔ روس میں خاکروب کی تنخواہ اچھی خاصی ہوتی ہے مگر میں کیسے کہتا کیونکہ بات تو بچوں کو قتل کرنے کی تھی۔
ہمارے ہاں اصل مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے وسائل کم پڑتے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری وسائل کم ہونے کے سبب بڑھتی ہے۔ بیروزگاری ہو تو تفریح ایک ہی رہ جاتی ہے اپنی بیویوں کو حاملہ کرنا۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جتنے زیادہ بچے ہونگے اتنے زیادہ ہاتھ کمانے کو ہونگے۔ مگر جب بچے سارے ہی چھوٹے چھوٹے ہوں، درمیانہ طبقہ سکڑ رہا ہو، ملازم درکار نہ ہوں۔ کارگاہیں بچوں کو مزدوری نہ دیں تو بچے مزید عذاب بن جاتے ہیں۔ بچوں کو عذاب کہنا کتنا مذموم ہے مگر جب ان کو دینے کو کچھ ہو ہی نہ تو پھر اور کیا کہا جائے۔
لوگوں کو آگاہی دینا، آبادی کے بم کو پھٹنے سے روکنا، غیر محفوظ بچوں کا خیال رکھنا، بیروزگاری سے نمٹنا، تفریح کی سہولتیں مہیا کرنا، دیہاتوں سے لوگوں کی شہروں کی جانب نقل مکانی کم کرنا یہ سب کام حکومت کو کرنے ہوتے ہیں مگر جہاں حکومت ہو ہی ایک انتہائی قلیل طبقے کے باوسائل افراد کو مزید آسائشیں اور سہولتیں بہم کرنے کی خاطر وہاں بھلا کیا امید رکھی جائے۔
پاکستان میں تو روس کی طرح " لاوارث بچوں کے گھر" بھی نہیں ہیں جہاں حکومت نادار افراد کے بچوں، بیکار لوگوں کے بچوں اور یتیم بچوں کے لیے گھروں کا سا ماحول مہیا کرتی ہے۔ بچوں کو پالا پوسا جاتا ہے، تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بڑے ہونے پر گھر فراہم کیے جاتے ہیں، ملازمتیں دی جاتی ہیں۔
خدارا اپنی آئندہ نسلوں کی حفاظت کرنے کا کوئی چارہ کرو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“