انسانی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور صحرا مسلسل آگے کو بڑھ رہے ہیں۔ کیا اس بگڑتی صورتحال میں کہیں امید بھی نظر آتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں۔ اس سے پہلے یہ کہ مسئلہ ہے کیا۔
ساتھ لگی تصویر ہماری دنیا کی جس کے رنگوں سے واضح ہے کہ دنیا میں سبزہ اور صحرا اس وقت کہاں پر ہیں۔ اس میں سبز حصے میں زمین کے بنجر ہونے کا مسئلہ نہیں۔ صحرا ننگی رہ جانے والی زمین پر بنتا ہے۔ جہاں نمی اور بارش تمام سال رہتی ہے۔ وہاں کچھ بھی کر لیا جائے سبزہ زمین کو فورا ڈھک دیتا ہے اور زمین ننگی نہیں رہتی لیکن بہت سی دوسری ایسی جگہیں ہیں جہاں پر سال کا کچھ حصہ بارش ہوتی ہے اور کچھ حصہ خشک رہتا ہے، یہاں پر سبزہ غائب ہو رہا ہے۔
کیوں؟ اس کے لئے دوسری تصویر۔ یہ یمن کے صحرا کی ہے جس میں ایک روز زبردست بارش اور پھر دوسرے دن پانی نہیں ہے۔ پانی بخارات کی صورت میں اڑ گیا۔ مسئلہ پانی کے بہہ جانے کا نہیں بلکہ اڑ جانے کا ہے۔ پانی کا نہ ٹھہرنا سبزہ نہ ہونے کا سبب ہے اور پھر سبزہ نہ ہونے کی وجہ پانی کا نہ ٹھہرنا ہے۔ لیکن پانی کو کیسے روکا جائے؟ اس کا علاج ڈھونڈنے پر ایلن سیورے نے بکمنسٹر فُلر چیلنج 2010 میں جیتا اور اس کا علاج تھا مویشی۔
قدرت میں زمین کی تر و تازگی کا طریقہ چرنے والے جانور اور ان کے شکاری ہیں۔ شکاریوں سے ڈر کر چرنے والے جانور ریوڑ کی صورت میں رہتے ہیں۔ یہ ریوڑ ایک جگہ پر سبزہ چرتا ہے اور اسی جگہ پر فضلہ چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ جہاں سبزہ کم ہے، وہاں پر یہ جانور نہ صرف گوڈی کا کام کرتے ہیں، ان کا چھوڑا ہوا نامیاتی مادہ اگلی زندگی ہے اور یہ پھر پانی کو بھی سنبھالنے میں مدد کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کو شکاریوں کے ڈر کی وجہ سے حرکت بھی کرتے رہنا پڑتا ہے جس سے کسی ایک جگہ پر یہ ضرورت سے زیادہ گھاس نہیں چر جاتے۔ ان کے اس طریقے سے نہ زمین پر الجی جمع ہوتی ہے، نہ گھاس ضرورت سے زیادہ بڑھتی ہے، نامیاتی مادہ بھی ملتا رہتا ہے اور بڑے پیمانے پر توازن سے یہ ایکوسسٹم چلتا رہتا ہے، چراگاہیں ہری بھری رہتی ہیں اور زمین بنجر نہیں ہوتی۔
انسانوں کے زیرِ استعمال عام پریکٹس چراگاہوں اور فصلوں کے خشک موسم میں زمین کو آگ لگا دینے کی ہے اور پاکستان سمیت دنیا میں اربوں ایکڑ پر یہ ہوتا ہے۔ یہ عمل زمین کی خشک باقیات کو صاف کرنے کا ہے تا کہ نئی نباتات ٹھیک طرح اُگ سکیں لیکن ایک ایکڑ کو آگ لگانے سے ہونے والی آلودگی اتنی ہے جتنی پندرہ ہزار گاڑیوں کے دھویں کی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ آگ نہ لگائی جائے تو اگلی فصل ٹھیک پیدا نہیں ہو گی۔ یہ اس وقت ماحول کی تبدیلی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے (اس کی بات بہت کم کی جاتی ہے)۔
ایلن سیورے نے اس کا حل قدرت کے حل سے تلاش کیا۔ مویشیوں کے ریوڑوں کو اسی طریقے سے استعمال کیا جائے جیسا کہ چرنے والے جنگلی جانوروں کے ریوڑ کرتے ہیں۔ طریقے کی پوری تفصیل دئے گئے لنک سے۔
اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے تجربے زمبابوے سے شروع کئے گئے اور اب پانچ برِاعظموں میں اس طریقے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ تیسری اور چوتھی تصویر افریقہ سے جہاں پر تیس برس سے بنجر ہوتی زمین واپس ہری بھری ہو چکی ہے۔ پانچویں تصویر میکسیکو کی جہاں انتہائی حیرت انگیز فرق نمایاں ہے۔
ایلن سیورے کے مویشی چرانے کے طریقے پر تجربات جاری ہیں۔ ایک چیز واضح ہے۔ اگر فوسل فیولز کا استعمال مکمل طور پر ختم بھی ہو جائے تو بھی دنیا میں گلوبل وارمنگ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس کا علاج ماحولیات کی سائنس میں ہے اور ہم صرف اس سائنس کے ذریعے سے اپنے سیارے کی حفاظت کر سکتے ہیں اور اسے رہنے کے قابل رکھ سکیں گے۔ اس کا ایک تجرباتی پراجیکٹ اب پاکستان میں بھی شروع ہوا ہے۔
چرانے کے اس طریقے کی مکمل معلومات اور کہاں پر پراجیکٹس جاری ہیں۔