برھمن ' کشتری ' ویش اور شودر
انسانوں میں ذات پات اور درجات کا نظام ہمیشہ مروج رہا ہے۔ بھلے ہی نام بدل گئے ہوں۔ مقام بدل گئے ہوں۔ تفصیلات میں فرق پڑ گیا ہو لیکن انسانوں میں برتری اور کمتری کا نظام آج تک چل رہا ہے اور کوئی اسے مٹا نہیں پایا۔ چاہے ان درجات کے نام کچھ بھی رہے ہوں لیکن ’’کام اور مقام‘‘ وہی ہے جو ہندی روایت کے مطابق ’’منو مہاراج‘‘ نے اپنی مشہور کتاب منوسمرتی میں دیا ہے۔ منو مہاراج ہندی اساطیر کے مطابق پہلا انسان یا جد امجد ہے بلکہ صحیح معنوں میں اگر اسے سامی روایت کے مطابق ’’نوح‘‘ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ سیلاب اور طوفان کی مشہور کہانی چار اقوام میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ موجود ہے۔
منو مہاراج کے مطابق چار ذات ہیں۔ ایک برھمن جو مذہبی معاملات چلاتے ہیں۔ کشتری جو حکومت کرتے ہیں۔ ویش جو کماتے ہیں اور شودر جو خدمت کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ طبقے تین بھی ہو جاتے ہیں۔ جیسے ابتداء میں برھمن نہیں تھے صرف کشتری۔ ویش اور شودر تھے۔ لیکن جب انسانوں میں شعور پیدا ہوا اور انسانوں کو صرف تلوار سے محکوم بنانا مشکل ہو گیا تو ان کے ذہن کو قابو میں کرنے کے لیے برھمن اور پروہت بھی شامل کیے گئے۔ کوئی کیسی بھی تشریح اور تعریف کرے بات وہی ہے جو روز ازل سے چلی آرہی ہے کہ مذہب اور تلوار کی ساجھے داری میں حاکمیت چلتی ہے اور ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ باقی کے دو طبقے ویش اور شودر مجبور و محکوم ہو کر کماتے اور خدمت کرتے رہیں اور یہ دونوں مفت خور طبقے بغیر کچھ کیے صرف ’’باتیں‘‘ بنا کر اور "جبر " کرکے سب کچھ ہڑپ کرتے رہیں۔
ویش کا کماؤ طبقہ وشنو بھگوان سے منسوب ہے جو ہندی تری مورتی کا ایک رکن ہے۔ ہندی تری مورتی میں برھما (خالق)۔ وشنو (پالن ہار) اور شیو (قہار) شامل ہیں چنانچہ زندگی اور انسانوں کا نصیبہ وشنو کے ہاتھ میں ہے۔ اسی وشنو کا نام ’’ویش‘‘ طبقے کو بھی دیا گیا۔ جس میں وہ تمام کاشت کار ' ہنر مند اور محنت کش لوگ شامل ہیں جن کی محنت سے معاشرہ پلتا ہے۔
ویش طبقے میں تاجر ' معمار اور پیشہ ور بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اصل میں عارضی یا وقتی وشنو ہوتے ہیں اور ھمہ وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اوپر اٹھ کر حکمران برھمن یا کشتری کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھی تاجروں ' معماروں اور پیشہ وروں میں سرمایہ دار پیدا ہو جاتے ہیں جو ویش کے زمرے میں سے نکل کر برھمن اور کشتری طبقے کا حصہ بن جاتے ہیں اور حکمرانی کے پندرہ فیصد طبقے میں رل مل جاتے ہیں۔
برھمن مذہب کے نام پر مفت کی کھاتا ہے۔ کشتری تلوار کے زور پر لوٹتا ہے۔ یہ سب مل کر معاشرے کا پندرہ فیصد حصہ ہوتے ہیں۔ یہ پندرہ فیصد طبقہ مختلف حیلوں ' بہانوں ' قانون اور ہتھکنڈوں سے پچاسی فیصد کی محنت اور کمائی کو چھین لیتا ہے اور اصل کمانے والوں کو صرف پندرہ فیصد نصیب ہوتا ہے۔ وہ بھی اگر نظام ’’اچھا‘‘ ہو ورنہ اکثر تو ان کے پاس اتنا بھی نہیں رہتا کہ دو وقت کی روکھی سوکھی۔ پھٹے پرانے کپڑے اور سر چھپانے کا آسرا نصیب ہو۔ ہمارے ملک میں چونکہ حکمرانی اور معاشرے کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے اس لیے ’’ویش‘‘ کا یہ کماؤ طبقہ جو کاشت کاروں ' ہنر مندوں اور محنت کشوں پر مشتمل ہے سب سے زیادہ محکوم سب سے زیادہ مظلوم سب سے زیادہ مجبور اور استحصال کا شکار ہے۔
شودروں کا اس سے بھی برا حال ہے جو مزدوروں ' نچلے طبقے کے ملازموں اور بے یقین روزگار والا ہے۔ لیکن ایک عجیب تبدیلی اس نظام میں یہ ہو گئی ہے کہ شودروں کا طبقہ بھی کچھ نہ کچھ وقعت کا مالک ہو چکا ہے کیوں کہ یہ دور زراعت کے بجائے ’’صنعت‘‘ کی طرف زیادہ مائل ہے۔ اصل مسئلہ ’’ویش‘‘ طبقے کے کسان کا ہے۔ جسے آہستہ آہستہ مسلسل استحصال اور ناانصافی کے باعث شودر بنایا جارہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں تو انسان انگشت بدندان رہ جاتا ہے کہ جو لوگ انسانوں ' حیوانوں ' چرند پرند ' حشرات سب کا پیٹ بھرتے ہیں۔ خود اس کا پیٹ خالی ہے۔ اس کی محنت اور ہنر کو چاروں طرف سے محصور کر کے کچھ ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ اس کی حالت پرانے ہندی نظام کے شودر سے بھی زیادہ بری ہو گئی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں "ویش‘‘ طبقے کا کاشت کار واحد فرد ہے جس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے مسلسل محنت نے اس کے ہاتھ کی لکیریں ہی مٹا ڈالی ہوں۔ ’’ویش‘‘ طبقے کا ہنر مند لوہار ' معمار ' حجام اور محنت کش مزدور ' حتیٰ کہ پالش کرنے والا بھی اپنا معاوضہ مہنگائی کے مطابق بڑھا سکتا ہے۔ لیکن کسان واحد فرد ہے جو اگر خریدتا ہے ' بیچنے والے کی مرضی پر خریدتا ہے لیکن جب خون پسینہ ایک کر کے بیچتا ہے تو اختیار الٹ کر خریدنے والے کے پاس چلا جاتا ہے۔ دوسرا ہر کوئی یہ اختیار رکھتا ہے کہ اس پر اتنا خرچہ آیا ہے اس لیے اتنے میں بیچوں گا لیکن کسان کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی فصل پر آنے والی لاگت کا ذکر تک کرے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔