الزائمر اور پارکنسن بوڑھے ہوتے دماغ کی بیماریاں ہیں۔ کیا ان پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ اچھی خبر یہ ہے کہ جس طرح ماحول اور ہمارا اپنا رویہ دماغ کو کم عمری میں شکل دیتا ہے، ویسا ہی زیادہ عمر میں بھی۔
امریکہ میں ایک منفرد تجربہ ریلیجس آرڈرز سٹڈی کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس میں 1100 پریسٹ، نن اور برادر حصہ لے رہے ہیں۔ یہ جاننے کے لئے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ دماغ پر کیا فرق پڑتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ افراد اس سے کس طریقے سے متاثر ہوتے ہیں۔
اس گروپ کو منتخب کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے لائف سٹائل کے حوالے سے بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ غذا، تعلیم اور معیارِ زندگی ایک طرح کا ہے۔ اس کی وجہ سے دوسرے فیکٹرز کو کم رکھنے میں آسانی ہے۔
یہ تجربہ 1994 سے شروع ہوا تھا۔ اب تک شکاگو کی رش یونیورسٹی میں ڈاکٹر ڈیوڈ بینٹ کی ٹیم نے بہت احتیاط کے ساتھ ان کا ریکارڈ اکٹھا کیا ہے اور اس کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ہر سال ان پر نفسیاتی، فزیکل، کوگنیٹو اور جینیاتی ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔
جب اس ٹیم نے اپنا کام شروع کیا تو ان کا خیال تھا کہ ان کو دماغی انحطاط اور تین عام بیماریوں، الزائمر، سٹروک اور پارکنسن کے درمیان براہِ راست تعلق ملے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایسے لوگ جن کا دماغی ٹشو الزائمر کی بیاری سے کھایا گیا ہوتا تھا، اس کا لازمی مطلب یہ نہیں تھا کہ ان کو دماغی مسائل کا سامنا تھا۔ کئی لوگ اپنی تمام عمر الزائمر پیتھالوجی کا شکار رہتے ہوئے بھی کسی قسم کے ذہنی انحطاط کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔
ٹیم نے واپس اس ڈیٹا سیٹ میں سے سراغ ڈھونڈنا شروع کئے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کا تعلق دماغ کو مصروف رکھنے سے تھا۔ ایسی مشقیں زیادہ کرنے والے جن میں اس کو نیا کرنا پڑے۔ معمے حل کرنا، کتاب پڑھنا، نئی مہارتیں سیکھنا، ذمہ داری لینا اس کی حفاظت کرتا تھا۔ اسی طرح معاشرتی ایکٹویٹی جیسا کہ دوسروں سے زیادہ میل جول، سوشل نیٹورک اور پھر فزیکل ایکٹیویٹی ذہن کو انحطاط سے بچاتی تھی۔
اس کے مقابلے میں جو عوامل منفی کردار ادا کرتے تھے، ان میں تنہائی، بے چینی اور ذہنی دباوٗ تھے جو جلد ذہنی آوٗٹ پُٹ خراب کر دیتے ہیں۔
مثبت عوامل میں فرض شناسی، زندگی میں مقصد کا ہونا اور مصروفیت شامل تھے۔
وہ لوگ جن کے نیورل ٹشو میں بیماری تھی لیکن اس کے آوٗٹ پٹ پر اثرات نہیں تھے، وہ لوگ تھے جو “کوگنیٹو ریزرو” بنا چکے تھے۔ یعنی دماغ کے کچھ حصے میں بیماری تھی لیکن دوسرے حصے اچھی ورزش کے باعث زیادہ صحت مند تھے اور انہوں نے یہ فنکشن اپنے ذمے لے لئے تھے۔ ہم ذہن کو جتنا فٹ رکھتے ہیں، اس کو مشکل اور چیلنج والے کام دے کر، دوسرے سے معاشرتی روابط کے ذریعے، اس کے ایک پوائنٹ سے دوسرے پوانٹ تک نیورل نیٹ ورک میں نئی شاہراہیں کھلتی جاتی ہیں۔
یہاں پر دماغ کو ایک ٹول بکس سمجھ لیں۔ اگر کوئی سکریو کھولنا ہے تو پلاس سے کھول لے گا۔ اگر پلاس نہیں ملا تو پانے سے، پانا نہیں ملا تو کوئی اور آلہ نکال لے گا۔ بیمار دماغ جس کے پاس بیک اپ ہو گا، وہ بھی ایک اچھی آوٗٹ پُٹ دینے کے قابل ہو گا۔
ان پادریوں اور نن کے دماغ یہ دکھاتے ہیں کہ دماغ کی دیر تک حفاظت کرنا ممکن ہے۔ ہم اس کا بڑھاپا روک تو نہیں سکتے لیکن اپنے اس ٹول بکس میں نئے نئے آلات بھر کر اس دنیا کے پیچ کھولنے کے طریقے زیادہ دیر تک اپنے پاس رکھنے کا امکان بڑھا سکتے ہیں۔