جاڑا دروازہ کھول کر اندر جھانک رہا ہے۔ آپ نے گرم واسکٹ پہننا شروع کر دی ہے، کبھی کوٹ زیبِ تن کر لیتے ہیں، لباس آپ کو ٹھٹھرنے نہیں دیتا، حرارت بہم پہنچاتا ہے۔ پھر گرمیاں آ جائیں گی، آپ ململ کا خوبصورت، دیدہ زیب کرتا پہنیں گے۔ یہ پسینہ جذب کرے گا اور باعثِ آرام ثابت ہو گا۔
لیکن لباس صرف گرمی اور سری سے، یعنی عناصر کی سختیوں سے ہی نہیں بچاتا، یہ آپ کو ڈھانکتا بھی ہے! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ برہنہ شخص بدصورت لگتا ہے۔ جسم پر جابجا بال، لاغر ہے تو ہڈیاں نکلی ہوئی، بازو اور ٹانگیں مدقوق نما! موٹا ہے تو اسے دیکھ کر ہو سکتا ہے گینڈا یاد آ جائے، لیکن لباس اس بدنمائی کو چھپا دیتا ہے۔ اُسے باعزت کر دیتا ہے۔ بدن پر داغ ہیں یا چلنے کے نشان یا زخم کی باقیات، سب کچھ چھپ جاتا ہے۔ لباس کے ہم پر کتنے احسانات ہیں!
تو پھر یہ سمجھنا کون سا مشکل ہے کہ خلاقِ عالم نے ہماری بیویوں کو ہمارا لباس اور شوہروں کو بیویوں کا لباس قرار دیا ہے! آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو دیکھ کر جب کوئی بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ ماشاء اللہ کیا خوبصورت جوڑا ہے، تو وہ، دوسرے لفظوں میں، دو ملبوسات کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ بیوی کو شوہر کی شکل میں دیدہ زیب لباس ملا ہے اور شوہر کو بیوی کی شکل میں۔ جس طرح لباس ہمارے داغ، زخموں کے نشان، پسلی کی نکلی ہوئی ہڈیاں اور بازوئوں پر چڑھی ہوئی بے ہنگم چربی چھپا لیتا ہے، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریاں دنیا والوں سے چھپا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے تضحیک کا یا بے حرمتی کا یا حقارت کا باعث نہیں بنتے! یہی مطلب ہے لباس ہونے کا!
افسوس! عمران خان اس نکتے کو نہ سمجھ سکے۔ کاش انہیں کوئی بتاتا کہ ھُنَّ لِبَاسُ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ، لباس لَہُنَّ کا نسخہ کتنی بڑی نعمت ہے! یہ تو وہ نعمت ہے جو خدائے لم یزل نے اپنی کتاب میں انسانوں کو عطا کی۔ ایک حقیقت ہمارا کلچر بھی ہے جو کچھ ہماری سوسائٹی قبول کرتی ہے اور جو کچھ پرے پھینک دیتی ہے، اس سے ہم آخر کس طرح بے نیاز ہو سکتے ہیں! ہمارے کلچر کا تقاضا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات، میاں بیوی کے اختلافات اور میاں بیوی کے درمیان جو اتار چڑھائو پیش آتے ہیں وہ صرف اُنہی تک محدود رہیں۔ زیادہ سے زیادہ خاندان کے قریبی افراد مداخلت کریں۔ وہ بھی خوش نیتی کے ساتھ! فرمایا گیا کہ جھگڑا بڑھے ، حالات انتہا تک خراب ہو جائیں تو دونوں طرف سے ایک ایک مصالحت کنندہ، ثالث، درمیان میں پڑے اور معاملے کو آر یا پار کرنے میں مدد دے!
آج عمران خان کے انتہائی ذاتی، انتہائی ازدواجی اور انتہائی راز دارانہ معاملات لاکھوں کیا کروڑوں افراد کی زبان پر ہیں۔ بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا کا اور سوشل میڈیا کا کہ کوئی مشہور شخص کرۂ ارض کے ایک کنارے بیوی کا نام بھی بلند آواز سے لے لیتا ہے تو چند ثانیوں کے اندر اندر، یہ بلند آواز خلائوں سے ہوتی ہوئی دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت تین قسم کے گروہ ہیں جو عمران خان کی طلاق پر بحث کر رہے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو عمران خان کی مدافعت کر رہا ہے۔ دوسرا طائفہ وہ ہے جو مطلقہ کے حق میں دلائل پیش کر رہا ہے۔ تیسرا گروہ جو کثیر تعداد میں ہے، صرف مزے لے رہا ہے اور چسکے لے رہا ہے۔ وہ ہر وقت اس طاق میں ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر یا سوشل میڈیا پر کوئی نئی بات اچھالی جا رہی ہے یا نہیں! جیسے ہی کوئی نئی ’’اطلاع‘‘ اس کے ہاتھ آتی ہے، وہ اسے لے اڑتا ہے۔ دوستوں میں یا سہیلیوں میں مزے لے لے کر سناتا ہے یا سناتی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسے اپنے حلقۂ احباب تک پہنچاتا ہے۔
جو لوگ عمران خان کا یا ان کے سابقہ بیوی کا دفاع کرتے پھرتے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ کیا وہ اپنے ازدواجی معاملات کو زبان زدِ خاص و عام کرنا پسند کریں گے؟ اگر ان کی بیٹی یا بہن کو طلاق ہو جائے تو کیا وہ پسند کریں گے کہ ایک ایک تفصیل دنیا والوں کو بتائی جائے؟ اور وہ منہ چھپاتے پھریں!
عمران خان اور مطلقہ خاتون کو کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ دونوں کی اولاد ہے۔ دونوں کے بچے دودھ پیتی عمر میں نہیں، بلکہ سمجھدار ہیں اور ازدواجی باریکیوں کو سمجھتے ہیں! اُن پر کیا گزر رہی ہو گی؟ وہ اپنے دوستوں کے سامنے ان معاملات کو کس طرح لیتے ہوں گے؟ ان کی آئندہ زندگیوں پر میڈیا میں اٹھنے والے اس طوفان کے کیا اثرات پڑیں گے اور وہ ان سے کس طرح نمٹیں گے؟ طوفان! طوفان سا طوفان! اس طوفانِ بدتمیزی کا اندازہ لگائیے، کوئی بتا رہا ہے بیوی نے میاں پر ہاتھ اٹھایا، کوئی کہہ رہا ہے کہ زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی! کوئی خبر لاتا ہے کہ دروازے کے پیچھے چھپ کر عمران خان کی باتیں سُن رہی تھیں۔ پھر سامنے آ کر برس پڑیں! کوئی چھ کروڑ کی دہائی دے رہا ہے اور کوئی آٹھ کروڑ کی، جیسے علیحدگی نہ ہو، تجارتی سودا بازی ہو! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو، اے آنکھوں والو!
اس دلیل میں بہت وزن ہے کہ جب شادی کی خبر آپ ٹویٹ کرتے پھریں، بیگم کی سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں، یہاں تک کے ایک صحافی کے بقول خیبر پختونخوا کی ٹاپ بیورو کریسی بنی گالہ آ کر بی بی صاحبہ کو بریف کرتی رہے، تو اب آپ کس منہ سے شکوہ کر سکتے ہیں کہ نجی زندگی میں دخل اندازی ہو رہی ہے! آپ نے جو بیج بویا تھا اسی کی تو فصل بڑی ہوئی ہے جو کاٹنا پڑ رہی ہے! اب صبر کے ساتھ اور تحمل کے ساتھ کاٹیے! اور آئندہ کے لیے سبق حاصل کیجیے کہ مذہب اور معاشرہ، دونوں، جن معاملات کو پردے میں رکھنا چاہتے ہیں، وہ پردے ہی میں رہنے چاہئیں!
کچھ بزرجمہر مغربی ملکوں کے سیاست دانوں کی مثالیں دے رہے ہیں کہ فلاں کا طلاق کامعاملہ اور فلاں کا معاشقے کا معاملہ اور فلاں کا فلاں معاملہ پبلک میں زیر بحث رہا۔ ان مثالوں سے یہ دلیل نکالی جاتی ہے کہ لیڈر کی ذاتی زندگی بھی عوام کی پراپرٹی ہوتی ہے! تو پھر یہ بھی تو بتائیے کہ آسٹریلیا کی سابق وزیر اعظم جولیا گلیئرڈ شوہر کے ساتھ نہیں بلکہ بوائے فرینڈ( کامن لا پارٹنر) کے ساتھ رہتی تھی! فرانس کے صدر کی سابقہ گرل فرینڈ کی کتاب ابھی ابھی منظرِ عام پر آئی ہے جس میں وہ ساری تفصیلات مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کی گئی ہیں جو ناگفتہ بہ ہیں! مثالیں دینی ہیں تو پھر بدرجۂ اُتم دیجیے!
شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ وہ محاورہ جو ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے، اصل میں نظامی کے ایک شعر کا تقریباً لفظی ترجمہ ہے۔ نظامی نے سکندر نامہ میں کہا ہے ؎
کلاغی تگِ کبک را گوش کرد
تگِ خویشتن را فراموش کرد
کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھول گیا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“