زندگی کی کوئی محرومی نہیں یاد آٸی
جب تلک ہم تھے ترے قرب کی آساٸش میں
گزرے وقتوں میں ایک ہوا کرتا تھا برگد کا پیڑ ،جس کی چھاٶں بہت گھنی ہوتی تھی اور گرمی کے موسم میں اردگرد کے سب لوگ دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیۓ اس درخت تلے اکٹھے ہوجاتے تھے ،اس گھینری چھاٶں میں بیٹھ کر سارے دکھ درد بھول جایا کرتے اور زندگی بہتر گزر جاتی ،
برگد کے پیڑ کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوتی ہیں اور اس پیڑ کو ختم کرنا آسان کام نہیں ،ہمارے ارد گرد بھی بہت سے رشتے برگد جیسی چھاٶں لیۓ ہمیں موسموں کی شدت سے محفوظ رکھتے ہیں۔
ماں بھی ایسا ہی ایک گھنیرا درخت ہے جب تک زندہ رہتی ہے ساری گرمی ،سردی آندھی ،طوفان خود پر سہہ کر محض خاموش رہتی ہے اور بچوں پر کسی دکھ کی پرچھاٸیں تک نہیں آنے دیتی اوربچوں کو دنیا ایک کھیل سے زیادہ کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا،ہر طرح کی جگتیں مذاق اور بے فکری چھاٸ رہتی ہے،انسان کبھی سوچ ہی نہیں سکتا کہ اس پیڑ کا تنا کمزور ہو کر اچانک کسی دن ڈھ جاۓ گا جس کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہیں مگر پھر بھی موسموں کی سختیاں برداشت کرتا یہ پیڑ کسیے اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے پتہ ہی نہیں لگتا ۔اس چھاٶں میں کسی گاٶں کے چوپال کا سا منظر ہوتا ہے رشتے دار ہوں یا محلے دار،عیدوں تہواروں پر اکٹھے ہوتے ہیں اورزندگی کسی فلم کی کہانی لگتی ہے مگر جب ماں جیسے برگد کی چھاٶں مٹی اوڑھ کر سو جاتی ہے تب لو کے تھپیڑے انسان کی روح کو جھلسا دیتے ہیں اور خون جما دینے والے سرد ہواٸیں جسم کو شل کر دیتی ہیں تو دینا کی اصل حقیقت سمجھ آتی ہے،کوئی کتنا حقیقت پسند ہو یا دانشور،ماں کے دنیا سے رخصت کا تصور نہیں کر سکتا،کم از کم میں نہیں جانتی تھی کہ میری ماں رخصت ہو جاۓ گی،یوں لگتا تھا کہ ساری دنیا بھی ختم ہو گٸ تب بھی ماں کی چھاٶں ایسے ہی قاٸم و داٸم رہے گی،مگر یہ محض تصوراتی دنیا تھی جو آج بھی نیند کی وادی میں جاتے ہی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے ،برسوں بیت گۓ اس جداٸ کو مگر آج بھی یہی لگتا ہے کہ وہ یہیں کہیں ہے اور ابھی مجھے ڈانٹتے ہوۓ کہیں گی ”تم نے میرا پرس کیوں کھولا“
میں ہمیشہ سے حساب کے مضموں میں نکمی رہی ،کسی چیز کا حساب رکھنا نہ آیا مگر برگدجیسی چھاٶں کے جاتے ہی حساب کے سارے سوالوں کے جواب ازبر ہوگۓ” بس وہ آواز کہیں کھو“ گٸ ہے ہمارے ہاتھ سے ایسے نازک تعلق مٹھی میں بھری ریت کی طرح نکل جاتے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں ہو پاتی ، جب ایسا کوئی دل میں اترا ہوا رشتہ اپنے ہاتھوں مٹی کے سپرد کر کے خالی ہاتھ گھر کو لوٹنا پڑے تو وہ رات کیسے کٹتی ہے یہ صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو اس کرب سے گزرے ہیں، گھر میں پھیلی سرخ گلابوں کی خوشبو کیسے چبھتی ہے یہ بھی سب نہیں جان سکتے۔