بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو۔
یاں سے کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو۔
جب میر تقی میر کےاس شعر کے مصداق اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کو کچھ کرتے ہوئے بےلوث پاتا ہوں توایک گونا خوشی کا احساس توانا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم جس طرح کی معاشرت میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اس میں دوسروں کے لیے کم ہی ارتباط اور احساس جھلکتا ہے اگر کوئی اپنے علاوہ دوسروں کے لیے بہتر کرنے کا جزبہ رکھتا ہے۔اور ایک برتر معاشرےکی تشکیل میں اپنا آپ دے کر بہتری کے زاویے بُننے میں منہمک رہتے ہوں۔ تو اس تناظر میں ایک طرح سے امکانی در وا ہوا کرتے ہیں۔اور اس سلسلے میں نئی پود کے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو بڑی گہری وابستگی کو اپنا شعار بناتے ہوئے انسانیت کی بقا کے لیے برسرِ پیکار رہتے ہیں۔تاکہ زندگی میں موجود بے چہرہ کرداروں سے ہٹ کر معاشرے کو برتر چہرہ دینے کی سعی کریں۔اور یہی احساس لیے عزیزِمن انجینئر ذاکر نور کو جب بچوں کے ساتھ دیکھتا ہوں تو من شانت رہتا ہےکہ ابھی اس چوہا دوڑ اور بے ہنگم شور زدہ آبادی میں چند ایک نفوس ایسے ہیں جو اپنی آنکھوں میں خواب لیے پھرتے ہیں۔
اسی لگن اور احساس کے جِلو میں جب خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی سے اپنا تعلیم مکمل کیا اور پھر اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کرنے کےساتھ ہی اس بیچ اسکالر شپ پر چین مزید تعلیم کے لیے Hoai university Nanjing China گئے۔ اور یہی لگن چین میں بھی اپنی یونیورسٹی سے جب فرصت ملی تو وہاں کےاسکول کےبچوں کے ساتھ سرگرمیوں میں وقت گزارتےہیں اوراگر گوادر آنا ہوا تو تعلیم سے متعلق مختلف نوعیت کے پروگرام ترتیب دے رہے ہوتےاور ساتھ ہی مستحق طلباء و طالبات کےلیےکتابیں، کاپیاں، بیگ اور پنسل ضرور دے رہے ہوتے ۔ شاید ہی کوئی ملازمت پیشہ ہماری زندگی میں اپنے تنخواہ سے یہ سب کر رہا ہو۔لیکن ذاکر نور ایسےدوست کی لگن دیکھنے لائق ہے۔اور یہی طرزِ فکر ہماری معاشرت اور بلوچ قوم کے اندر توانا ہوناچاہیئے۔محض گھر سے گھر تک کا تصور کافی نہیں اس سے آگے کا سفر ناگزیر رہتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔