پرچون کی دکان پر زیادہ تیزی سے گاہکوں کو کیسے بھگتایا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوال تھا جو 1948 میں جوزف وڈ لینڈ کو حل کرنے کے لئے ملا۔ وڈ لینڈ ذہین نوجوان تھے جو جنگِ عظیم میں ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ پر بھی کام کر چکے تھے۔ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کی سوچ میں غرق میامی کے ساحل پر بے خیالی سے ریت سے کھیل رہے تھے۔ ریت میں اتار اور چڑھاوٗ بنے دیکھ کر انہیں ایک خیال کوندا۔ جس طرح مورس کوڈ سے پیغام بھیجا جا سکتا ہے، کیا مصنوعات کو پہچاننے کے لئے بھی اس طرح کا کوڈ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زیبرا کی دھاریوں کی طرح سیاہ اور سفید کا بنا ہوا دائرہ جس کو مشین پڑھ سکے۔
یہ اچھا خیال تھا لیکن اس وقت ایسی ٹیکنالوجی مہنگی تھی جو اسے استعمال کر سکے۔ لیکن جب کمپیوٹر بہتر ہوئے اور لیزر ایجاد ہوئی تو یہ قابلِ عمل ہو گیا۔ یہ والا سسٹم اگلے برسوں میں کئی بار دوبارہ دریافت اور بہتر کیا گیا۔ ڈیوڈ کولنز نے ریلوے کے ڈبوں پر موٹی اور پتلی لکیریں لگائیں جن کو ایک سکینر سے پڑھا جا سکے۔ 1970 کی دہائی میں آئی بی ایم کے انجینیر جارج لارر نے دریافت کیا کہ اس کو دائرے کے بجائے مستطیل میں ہانا چاہیے اور انہوں نے لیزر اور کمپیوٹر کا سسٹم دریافت کیا جو اس کو سکین کر سکے۔ جوزف وڈلینڈ کی ساحلی ریت پر لگائی گئی لکیریں حقیقت بن گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنسناٹی میں دو تنظیموں کی میٹنگ ہوئی ایک طرف مصنوعات بنانے والوں کی تنظیم تھی اور دوسری طرف پرچون فروشوں کی۔ مصنوعات بنانے والے اس میں گیارہ ہندسوں کا کوڈ چاہتے تھے جبکہ پرچون فروش سات ہندسوں کا (تا کہ کم خرچ والے سسٹم لگائے جا سکیں)۔ یہ تنازعہ کئی برس چلتا رہا۔ کمیٹیاں بنیں، سب کمیٹیاں بنیں اور ان کمیٹیوں کے اوپر کمیٹیاں بنیں۔ بالآخر بحث کے بعد 1974 میں اتفاق ہو گیا اور یونیورسل پراڈکٹ کوڈ (UPC) وجود میں آیا۔
جون 1974 میں اوہائیو میں مارش سپرمارکیٹ میں اکتیس سالہ اسسٹنٹ نے چیونگم کا ایک پیکٹ لیزر سکینر سے گزارا۔ خود بخود اس کی قیمت 67 سینٹ ریکارڈ ہو گئی۔ چیونگم بِک گئی۔ بار کوڈ سسٹم کی باقاعدہ پیدائش ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بار کوڈ خریدوفروخت کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ سپرمارکیٹ کو اپنا بزنس زیادہ ایفی شنسی سے کرنا ممکن کرتا ہے اور کاروباری لاگت میں کمی لاتا ہے۔ لیکن یہ اکیلا کام نہیں کر سکتا۔ تمام سسٹم ملکر چلیں تو پھر ہی یہ کارآمد ہوتا ہے۔
اس کے آگے بڑھنے کے لئے اسے بڑی تعداد میں اپنائے جانا تھا۔ سکینر ہر جگہ پر لگائے جانے کی قیمت ہے۔ ڈبوں پر بار کوڈ کو پرنٹ کرنے کی قیمت ہے۔ کئی مینوفیکچرر ایسے تھے جن کے پاس بہت پرانے پرنٹنگ سسٹم تھے۔ پرچون فروش اس وقت تک سکینر نہیں لگائیں گے جب تک مینوفیکچرر مصنوعات پر کوڈ نہیں لگاتے۔ اور مینوفیکچرر کو ان پر کوڈ لگانے کا فائدہ نہیں جب تک بیچنے والوں کے پاس اچھی تعداد میں سکینر نہ ہوں۔ یہ انڈے اور مرغی کا مسئلہ تھا۔
وقت کے ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ بار کوڈ کھیل کا میدان بدل رہا ہے۔ لیکن کسی خاص قسم کے ریٹیلر کے حق میں۔ چھوٹی دکان کے لئے یہ مہنگا حل تھا۔ لیکن بڑی سپرمارکیٹ اس کی قیمت ادا کر کے اپنی فروخت کا والیوم زیادہ کر کے آسانی سے فائدہ اٹھا سکتی تھیں۔ چیک آوٹ تیزی سے ہو سکتے تھے۔ قطار چھوٹی ہو سکتی تھی۔ مینوئل سسٹم سے چیک آوٹ کرنے والا سہواً یا عمداً غلطی کر سکتا تھا۔ ایسے سسٹم پر چیک رکھنا زیادہ مشکل تھا۔ بارکوڈ آنے سے چوری پکڑنا آسان ہو گیا۔ سپرمارکیٹ کے لئے قیمت بدلنا آسان ہو گیا۔ ایک پراڈکٹ کی ایک جگہ پر قیمت بدل دیں اور سسٹم کو معلوم ہو جائے گا۔
اس سے آٹومیشن آئی۔ اپنی سامان کا ریکارڈ رکھنا آسان ہوا۔ سپلائی چین سسٹم بہتر ہوئے۔ بڑے ریٹیلر کو اس سب سے فائدہ اٹھانا سب سے آسان تھا۔ اور یہ اتفاق نہیں تھا کہ جس جگہ پر بارکوڈ اپنا جاتا رہا، وہاں پر بڑی سپرمارکیٹ اور ان کی چین کی آمد ہونے لگی۔ کسٹمر کے loyalty card اور دوسری جدتیں آنے لگیں۔ انونٹری لیول درست رکھنے جانے لگے۔ ایک ہی دکان پر الیکٹرانکس، خوراک، روزمرہ کا سامان، کاسمیٹکس بیچنا ممکن ہوا۔ بڑے لاجسٹکس سسٹم بننے لگے۔
جس نے جلد ٹیکنالوجی اپنا لی اور وہ اس دوڑ میں جیت گیا۔ امریکہ میں وال مارٹ، برطانیہ میں ٹیسکو اور دنیا کے بڑے سٹورز کا یہی عروج پانے کا دور تھا۔ چین میں مینوفیکچرر اور امریکہ میں فروخت کے سسٹم آپس میں جوڑ دئے گئے۔ سپلائی کی عالمی زنجیر بننے لگی۔
جوزف وڈلینڈ کے ریت پر نشان اور آئی بی ایم کے لارر کی محنت سے خردوفروخت کا نظام آسان ہوا۔ بزنس زیادہ ایفی شنٹ ہوئے۔ دوسری طرف، اس نے بارکوڈ نے بڑے اور چھوٹے دکاندار میں تفریق نمایاں کر دی۔
سفید اور سیاہ لکیریں انجینیرنگ کی خوبصورت ایجاد ہیں۔ اور اس خوبصورت ایجاد نے عالمی معیشت کے ٹکڑے جوڑنے کا طریقہ بھی تبدیل کر دیا ہے۔