بارسلونا میں گم، جہاں گرد
بھلا کون آئے بار بار، بارسلونا۔ میری فرانسیسی ہمسفر کیتھرین میری جہاں گردی کی صلاحیتوں کی اب گرویدہ ہوچکی تھی۔ بارسلونا پہنچتے پہنچتے جب میں راستے میں ہسپانوی دیہات میں کار کی رفتار کم کرنے کو کہتا اور پرانی عمارتوں کو دیکھنے لگتا تو وہ حیران ہوتی اور پوچھنے لگتی کہ تم ان قدیم عمارتوں میں کیا تلاش کررہے ہو۔ میں کہتا، بتاتا ہوں، بتاتا ہوں بلکہ کہو تو دکھا دوں۔ اس طرح ایک قدیم ہسپانوی قصبہ سیلم (Salim) آیا تو میں نے کہا، رفتار آہستہ نہیں کرو بلکہ گائوں کے اندر گاڑی لے چلو۔ گائوں کے وسط میں گاڑی پہنچی تو ایک گرجا گھر کے قریب پہنچ کر میں نے کہا کہ رک جائو۔ کیتھرین رکی اور حیرت سے میری طرف تکتے ہوئے کہنے لگی، کیا گم گیا ہے تمہارا فرخ؟
بتاتا ہوں۔ میں نے اپنی فرانسیسی اشتراکی دوست سے کہا۔ غور سے دیکھو۔ وہ کہنے لگی، ہاں یہ گرجا ہے۔ لیکن مجھے گرجا گھر نہیں جانا۔ میں نے کہا، مجھے کون سا جانا ہے۔ بس دیکھو ، میں کیا تلاش کررہا تھا۔ کہنے لگی، ہاں بتائو، کیاہے اس کے اندر۔ گرجا گھر ہے۔ ہسپانوی لوگ بڑے مذہبی ہوتے ہیں۔ یہ ابھی تک اس جھنجھٹ میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے انقلابِ فرانس کے بعد بادشاہت سمیت تمام استحصالی زنجیروں کو توڑ ڈالا۔ میرا جواب تھا، نہیں میں تو تمہیں تاریخ اور صرف تاریخ دکھلانا چاہتا ہوں۔ وہ میرا جواب سن کر حیران رہ گئی۔ تاریخ اندر تاریخ۔ میں نے کہا، غور سے دیکھو، یہ گرجا گھر کبھی مسجد تھا۔ اور مسجد کو گرجا میں بدلا گیا ہے۔اُس کا جواب تھا، ہاں ممکن ہے، کافی قدیم تعمیر ہے۔ پھر مسکرا کر کہنے لگی، پہلے یہاں مسلمان عبادت کرتے رہے اور اب مسیحی، خدا کی تلاش میں ہیں۔
میں نے کہا، تو دیکھا، میں تاریخ کے اندر تاریخ تلاش کررہا ہوں۔ پھر میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے اقتدار اور حکمرانی کے زوال پر دو منٹ میں خطاب کر ڈالا۔ کیتھرین غور سے سنتی رہی اور پھر سر جھٹک کر بولی، تم تو پورے طالبان ہو۔ میرا جواب تھا، نہیں میں طالب علم ہوں۔ تاریخ کا طالبانِ علم۔ میرے جواب پر اُس نے قہقہہ لگایا تو میں نے کہا، طالبان لفظ کا مطلب بھی طالب علم ہی ہے۔ مگر وہ کسی اور مہم جوئی میں لگ گئے۔ عالمی سامراجی کھیل جو مجاہدین سے شروع ہوا ، طالبان تک آپہنچا۔ پھر وہ کہنے لگی، تم واقعی بنیاد پرست ہو۔ میرا جواب تھا، تاریخ کی تلاش اور جستجو میں بھلا کیا بنیاد پرستی ہے۔ مگر وہ خوش تھی کہ میرے ساتھ وہ ایک مختلف ہسپانیہ کو دیکھ رہی تھی۔
بارسلونا کے ساحل سمندر پر غوطہ خوری اور سستانے کے بعد اب ہمیں بارسلونا دیکھنا تھا۔ گلیاں، بازار، محلے، محلات، لوگ اور تعمیرات۔ اپنی کیمپنگ کے نقشے کی مدد سے شہر کے وسط یعنی سٹی سینٹرم کی طرف رواں دواں ہوئے۔ بارسلونا کی زندگی یورپ کے شہروں کی طرح سرد نہیں بلکہ گرما گرم پائی۔ لوگ فٹ پاتھوں، بازاروں میں اور غول درغول دنیا بھر کے سیاح جن میں ایک بڑی تعداد خلیجی عربوں کی تھی۔ دلچسپ بات جو میں نے غور طلب پائی، متعدد خلیجی خواتین سیاہ برقعوں میں اپنے بچوں کے ہمراہ آئس کریمیں کھاتی عام نظر آئیں۔ کیتھرین کو بتایا کہ نوٹ کرو، ان کے ہمراہ کوئی مرد کیوں نہیں۔ وہ میرے اس سوال پر چونکی۔ بھلا یہ کیا سوال ہوا۔ مرد نہیں، یقینا وہ اکیلی آئی ہوں گی۔ میں نے کہا، نہیں، یہ آئی تو اپنے مردوں کے ہمراہ ہیں۔ مگر میری جہاں گردی کے تجربات اور مشاہدات نے اس راز کو ایک دن کھول لیا۔ خلیجی مرد اپنے خاندان کے ہمراہ جب یورپ اور استنبول کی سیاحت کو آتے ہیں تو اپنی خواتین کو شاپنگ کے لیے وقت اور نقدی دے کر بڑے شاپنگ مالز اور دکانوں کے حوالے کرکے خود ’’خاص کام‘‘ کی خاطر نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ کیتھرین میری اس آبزرویشن پر حیران بھی ہوئی اور متاثر بھی۔ اور اتفاق دیکھیں کہ بارسلونا کے بعد میڈرڈ میں ایسے ہی ایک عرب خاتون جو برقعے میں ایک سڑک پر کھڑی تھی، میری گندمی رنگت دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں پاکستانی ہوں۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلایا کہ اردگرد بے ہودہ ہسپانوی لڑکے اس پر ہوٹنگ کررہے تھے۔ کہنے لگی، میرا گھر والا کچھ دیر کے لیے کہہ کر گیا تھا کہ میں آتا ہوں لیکن اب تین گھنٹے گزر چکے ہیں، اور میں یہاں اکیلی کھڑی ہوں۔ آوارہ لڑکے مجھے تنگ کرنے لگے ہیں۔ آپ پر خدا کی رحمت ہو، میرے پاس کھڑے ہوجائو۔ میں نے اسے بہن کہہ کر کیتھرین کے ساتھ ایک بنچ پر بٹھا دیا۔ اس کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک موٹا، ہٹا کٹا ، بازو جھلاتا میرا ایک مسلمان بھائی چلتا ہوا نظر آیا تو میری اس مسلمان خلیجی بہن کے چہرے پر اطمینان دکھائی دیا۔ میرے عرب بھائی نے میرا شکریہ ادا کیا۔ تب کیتھرین نے کہا، ہاں تم ٹھیک ہی کہتے تھے، اب میں بات سمجھ گئی۔
بارسلونا کو ہم نے ایک دن میں بس ایسے ہی دیکھنا تھا جیسے بچپن میں ’’سیربین‘‘ میں بارہ من کی دھوبن، تاج محل اور دو سروں والی بکری دیکھا کرتے تھے۔ جہاں گردی میں اس ایک ڈیڑھ دن میں کوئی بڑا شہر بس اتنا ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ عمارات، پارک، بازار، محلات اور محلے۔ چوںکہ ہسپانیہ میں ہمارا اصل ہدف تو غرناطہ، قرطبہ اور دیگر تاریخی شہروں میں کھلے میدانوں میں پھیلے ہسپانوی آثارات تھے۔
بارسلونا کیٹالونین شہر ہے، اس لیے اس کی قدیم وجدید عمارات میں کتلانی اور رومن اثرات نمایاں پائے۔ گاڑی کو کیمپنگ سائٹ میں چھوڑ آئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ تو خود شہری سیاحت کا بڑا سودمند ذریعہ ہوتا ہے۔ کیمپنگ سائٹ سے نکلتے ساتھ ہی ہم Les Corts پہنچے۔ انیسویں صدی کا یہ شاہکار علاقہ کبھی سبزیوں کی کاشت کاری کے لیے مخصوص تھا۔ اور یہیں ہسپانیہ کی ملکہ اور بادشاہ قیام کرتے تھے جب وہ کبھی بارسلونا آتے۔ یہاں جو قابل دید ہسپانوی شاہکار ہے، وہ انتونی گائوڈی کا ڈریگن گیٹ ہے۔ یورپ میں گوتھک فن تعمیر کی Pedralbes Monastery بھی اسی علاقے میں ہے۔ چودھویں صدی کا فن تعمیر مسلم سپین کے بعد پروان چڑھنے والے فن تعمیر کا ایسا شاہکار جو کسی بھی تاریخ وتہذیب میں دلچسپی رکھنے والے جہاںگرد کو اپنی طرف کھینچ لے۔
سیاحوں کے غول رواں دواں تھے۔ میری فرانسیسی ہمسفر مجھے مسیحی آثارات میں یوں دلچسپی لیتے دیکھ کر اپنی یہ رائے بدلنے لگی کہ میں بنیاد پرست ہوں۔اب وہ سمجھنے لگی، تاریخ کو تلاش کرنے اور تاریخ میں الجھے رہنے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔
پیڈرالبز مونیسٹری کو جیمزدوئم آرگون اور اس کی ملکہ ایلینڈا ڈی مونٹکاڈا نے 1326ء میں تعمیر کروایا۔ سینٹ میخائل گرجا اس کے ایک حصے میں واقع ہے۔ یہاں ملکہ نے گرجا گھر میں راہبائوں اور دیگر اشرافیہ کی رہائش کے لیے کمرے بھی بنوائے۔ اس کے بعد اس خانقاہ میں شاہی محل کا بھی ایک حصہ بنا دیا گیا۔1640ء میں کتلانیہ میں انقلاب کے بعد راہبائوں کو یہاں سے نکا ل دیا گیا۔ 1991ء میں اس گوتھک مونیسٹری کو قدیم عجائب گھر قرار دے دیا گیا۔
یورپ کی اس مشہور گوتھک خانقاہ کے برآمدوں میں قدم رکھا تو یوں لگا جیسے غرناطہ محل کے برآمدوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ دروازوں کی وہی آرچ جنہیں ہم اسلامی محرابیں کہتے ہیں۔ میں نے بحیثیت جہاں گرد ہمیشہ تاریخی عمارات، آثارات کو جب بھی دیکھا، وہاں میں نے تہذیبوں کے مابین تصادم کی بجائے تہذیبوں کا ملاپ پایا۔ یہ ملاپ تعمیرات سے لے کر رہن سہن، بودوباش، کھانوں، زبانوں، حتیٰ کہ عقائد کے اندر رچے بسے تصورات تک موجود ہیں۔ میرے لیے یہ گوتھک فن تعمیر بھی تھا اور مسلم ہسپانوی فن تعمیر بھی جو ابھی تک میں نے رنگین کتابوں اور فلموں ہی میں دیکھ رکھا تھا۔ اور اب اس سفر میں اُن کو اپنی نگاہوں سے دیکھنے جا رہا تھا۔
خانقاہ میں یورپی سیاحوں کا تانتا بندھا ہو اتھا۔ مجھے شاید ہی کبھی کوئی پاکستانی سیاح ایسے مقامات میں ملا ہے۔ خانقاہ سے نکلے تو کیتھرین نے پنجابی اور فرانسیسی ملاکر پوچھا، ’’اوئے، کدھر جانا اے؟‘‘ میں نے بارسلونا کا نقشہ اس کے سامنے رکھا اور بڑا سا نشان لگا کر کہا، ’’الحمبرا سٹریٹ۔‘‘
الحمبرا سٹریٹ، بارسلونا کا دل ہے۔ جو بارسلونا آیا اور الحمبرا سٹریٹ نہ گیا تو سمجھیں وہ بارسلونا ہی نہیں آیا۔ شام ڈھلے الحمبرا سٹریٹ میں یورپ اور دنیا بھر سے آئے لوگ جوق در جوق ایک سے دوسری طرف بڑھے چلے جاتے ہیں۔سڑک کی دونوں جانب دکانوں میں عرب دنیا کے سیاح بھرے ہوئے تھے۔ خلیجی عربوں کی سیاحت شاپنگ سے شروع ہوکر شاپنگ ہی پر ختم ہوجاتی ہے۔ سڑک کنارے عوامی فنکار مختلف آلاتِ موسیقی سے لوگوں کو محظوظ کررہے ہوتے ہیں۔ بہروپیے اور ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر اور رنگوں سے پینٹ شدہ نیم برہنہ بدن لیے، ہرکوئی اپنے فن کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے۔ مصور راہگیروں کو اپنے فن پاروں اور موقع پر موجود سیاحوں کی تصاویر میں رنگ بھر کر دوسرے راہگیروں کو متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ شاہراہ کے بیچوں بیچ گلیوں میں، عالیشان محلات، ہسپانیہ کے عروج کے آئینہ دار ہیں۔ یہ اُن دنوں کے عظیم الشان محلات ہیں جب ہسپانیوں نے سمندری راستوں کی تلاش کے بعد مختلف براعظموں تک رسائی حاصل کی۔
الحمبرا سٹریٹ جانے کے لیے میرے اندر کا جہاں گرد تو بے تاب تھا ہی، میری ہمسفر مجھ سے کہیں زیادہ بے تاب ہونے لگی۔
“