بڑا شعر ہر دور میں بڑا ہوتا ہے جدید تر شعر ہر دور میں جدید تر ہوتا ہے. ناقدین جو کہ کتابی و نصابی ہی ہوتے ہیں کی طرح خشک بحث میں الجھنے کے بجائے سوچتا ہوں .کچھ عمدہ اشعار کی مثالیں پیش کردوں کہ حقیقی شعرا اپنے ماحول سے کس طرح استعارہ سازی کرتے ہیں اور شعر میں بڑے معنی بھر کر اسے زندہ جاوید بنادیتے ہیں…
پہلا نام میرے ذہن میں بیدل کا آرہا ہے…
پرانے زمانے میں دروازوں پر گول کُنڈا لگا دیتے تھے جسے آجکل ہم ہینڈل یا ہتھی کہتے انسان جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو اسکی کمر جھک جاتی ہے وہ بھی اس حلقۂ در سے کچھ مشابہت رکھتی ہے شاعر بیدل نے اسے مد نظر رکھتے ہوئے کتنا عمدہ شعر کہا ہے… کئی صدیوں کے گزرجانے کے بعد بھی اس شعر کی مہک و رنگ ویسے کا ویسا تازہ معلوم ہوتا ہے ..
پہلی مثال
شعر
به هزار کوچه دویده ام، به تسلی نرسیده ام
ز قد خمیده شنیده ام، که چو حلقه شد به دری رسد
یعنی
میں نے ہزار کوچوں کی سیر کی ہے لیکن دل کو تسلی نہیں ہوئی
میں نے کسی جھکی ہوئی کمر والے مراد بوڑھے تجربہ کار شخص سے یہ سنا ہے کہ
کسی در کی رسائی یا اس سے باریاب ہونے سے پہلے "کڑا" بننا پڑتا ہے.
یہاں کڑے یا کنڈے کا استعارہ نہت خوبصورت ہوا ہے
طول تجربہ، ریاضت شاقہ پر ایک شعر یاد آرہا ہے…لیکن یہ پانچ شرطیں آپ سمجھ سکتے ہیں
أَخي لَن تَنالَ العِلمَ إِلّا بِسِتَّةٍ
سَأُنبيكَ عَن تَفصيلِها بِبَيانِ
ذَكاءٌ وَحِرصٌ وَاِجتِهادٌ وَبُلغَةٌ
وَصُحبَةُ أُستاذٍ وَطولُ زَمانِ
اسی طرح کی ایک رباعی …..
سرمد نے کیا ہی خوب کہا ہے:
سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند
سوزِ دلِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند
اے سرمد، غمِ عشق کی یہ دولت کسی ہوس پرست کو نہیں دی جاتی۔ پروانے کے دل کا سوز کسی دستر خوان کی مکھی کو نہیں دیا جاتا۔
بلکہ عمریں کھپ جاتی ہیں تب کہیں جا کر محبوب کا وصال نصیب ہوتا ہے، یہ بھی ضروری نہیں یہ سرمدی اور دائمی دولت ہر کسی کا حصہ ہو۔
دوسری مثال
غالب کا ایک فارسی شعر جس میں
"پاوں سوجانے پر سینے کے بل چلنے سے" .." عزم محکم" کا زبردست استعارہ کیا ہے ….
ایسی وادی کہ جس میں خضر کا عصا بھی گم ہوجاتا ہے اس وادی میں غالب کاعزم بالجزم …لفظی شوکت معنوی لطافت معنی آفرینی دیکھیں …
بوادئِ کہ دراں خضر را عصا خُفتست
بسینہ می سِپَرَم راہ گر چہ پا خُفتست
تیسری مثال
آخر میں اردو کے ایک ناشنیدہ مگر بہترشاعر کے دو تین علامتی اشعار دیکھیں..پنجابی الاصل
شاعر کا نام پریم کمار نظر ہے اشعار دیکھیں :
شعر
وہ فصل پک چکی تھی اب اس کا بھی کیا قصور؟
تجھ سے کہا تھا جیب میں چنگاریاں نہ رکھ
اس شعر میں فصل پکنا….جیب میں چنگاریاں رکھنا کتنی عمدہ اور تازہ علامتیں ہیں ..
ایک اور شعر جس میں "ہوا" " اونچا مکان " اور "کھڑکیاں " جدید علامتیں ہیں….شعر دیکھیں …
آئے گی ہر طرف سے ہوا دستکیں لیے
اونچا مکاں بنا کے بہت کھڑکیاں نہ رکھ
نظر کے اس شعر میں خیال کی رعنائی دیکھیں
اب مجھ کو پر پیچ سفر آسان ہوا
بستر باندھ کے بھیج دیا دریا کے ہاتھ
چوتھی مثال
بعض دفعہ بعض جینئس شعرا عام اور گرے پڑے الفاظ کو حسنِ استعمال اور اپنی جادو بیانی سے زندہ جاوید کر دیتے ہیں ..
مثلاً
ظفر اقبال نے "کالک کے کنستر" اور" پرانے پوسٹر " کودیکھیں کس شائستگی سے باندھا ہے…
ظفر اقبال کے دو اشعار:
وہ ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں کالک کے کنستر کو غزل میں آبرو مندی سے ہمکنار کیا ہے..
ادھر ہر خواب کا چہرہ نکھرنا چاہتا ہے
بہت بیزار ہے دیوار بھی اس سے الگ بات
پرانا پوسٹر خود بھی اترنا چاہتا ہے
پانچویں مثال
بعض دفعہ شاعر کمالِ ذہانت سے معمولی ساڈرامائی سین کریٹ کرکے یا پیکر تراشی کے ذریعہ ایسا شعر کہہ جاتا ہے جو دانش و پژوهش کی مثال بن جاتا ہے….
مثلاً
صائب تبریزی فارسی میں تمثیل نگاری اور تشہیہ سازی کے لئے مشہور ہیں.
ایک شعر میں بلا کی جدت ہے دیکھیں ذرا…
شعر کو اسطر ح سمجھیں دو آدمی اندھیرے میں دروازے کی چرچراہٹ محسوس کرتے ہیں ان میں سے ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے: یہ دروازہ بند ہونے کی آواز ہے دوسرا کہتا ہے. کہ
نہیں میرے اور تیرے سننے میں فرق ہے جسے تو دروازہ بند ہونے کی آواز سمجھ رہا ہے مجھے تو وہ آواز دروازہ کھلنے کی آواز لگ رہی ہے…..
اصل شعر یوں ہے…
تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب می شنوم
اسی سے ملتی جلتی ایک اور مثال …
یہی خیال صائب تبریزی کے بہت بعد فریدریک لینگریج نے دوسرے شعری پیکر کے ذریعہ ادا کیا ہے.
Two men look out through the same bars; One sees the mud, and one the stars’ .
(Frederick Langridge, 1896).
اس کوپلٹ کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے
دو آدمی (ایک ہی جیل )کی سلاخوں سےباہر جھانکتے ہیں ان میں سے ایک کی نگاہ بلندی کی طرف مائل ہوتی ہے وہ ستارے دیکھتا ہے اور دوسرے کی نگاہ مائل بپستی ہوتی ہے تو وہ کیچڑ پر پڑتی ہے.