بڑے مسئلے کی چھوٹی سی کہانی:
یہ بات ہے 1974 کی۔ نشتر میڈیکل کالج میں سائکییٹری کا شعبہ نہیں تھا۔ فائنل کے طلباء سائیکییٹری کے لیکچر لینے کی غرض سے گروپوں کی صورت میں مینٹل ہسپتال لاہور بھیجے جاتے تھے۔
ہمارے گروپ کی باری آ گئی تھی جس میں سات آٹھ لڑکے اور تین چار لڑکیاں تھیں۔
لیکچر میں ہمارے سامنے ایک بہت بوڑھا شخص بٹھایا گیا جو بہت اونچا سنتا تھا۔ لیکچر بعد میں بہت معروف ہونے والے ڈاکٹر اعجاز حیدر دے رہے تھے۔ انہوں نے بوڑھے کے کان کے پاس منہ لے جا کر اونچی آواز میں پوچھا تھا،" بابا جی تسی ایتھے کاہدے لئی آئے او؟" بوڑھے نے خلا میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ،"کی؟" ڈاکٹر صاحب نے زیادہ اونچی آواز میں کان کے زیادہ نزدیک منہ کرکے سوال دہرایا تو بزرگ نے بلا کم و کاست یہ سوچے بنا کہ سامنے جوان لڑکے لڑکیاں ہیں کہا تھا،" نمردی دا علاج کران"۔
ظاہر ہے ہم سب زور زور سے ہنسنے لگے تھے۔ اعجاز صاحب نے سختی سے کہا تھا کہ یہ ہنسنے کی بات نہیں ۔ پھر انہوں نے بلیک بورڈ پر ایک سیدھی لکیر کھینچی تھی۔ ایک طرف کو انہوں نے کہا بابا جی سمجھو، لکیر کی دوسری طرف کو بابا جی کی بیوی۔
پھر وہ بولے تھے،" جب یہ بزرگ اٹھارہ سال کا کڑیل جوان تھا تب اس کی پندرہ سولہ برس کی لڑکی کے ساتھ شادی ہو گئی تھی۔ یہ کھیت میں حل چلاتا تھا اور سوچتا تھا گھر جا کے بیوی کے ساتھ یوں کروں گا ووں کروں گا۔ اس کا جنسی ہیجان بڑھتا جاتا تھا۔ یہ کہتے ہوئے اعجاز صاحب لکیر کے اس جانب جو بابا جی کی تھی ایک لکیر عمود میں اوپر لے جاتے رہے تھے۔ ایک خاص مقام پر لکیر روک دی تھی۔
پھر کہا تھا، لڑکی گھر میں برتن دھو رہی ہے، کپڑے دھو رہی ہے، جھاڑو دے رہی ہے۔ ساس کی سن رہی ہے ۔ نندوں دیوروں کی خدمت کر رہی ہے اور کچھ بھی نہیں سوچ رہی ۔ اس کی جانب کو انہوں نے بلند نہیں کیا تھا۔
پھر بتایا کہ جوان گھر پہنچتا ہے۔ بیوی کسی کام میں مصروف ہے وہ کہتا ہے چل چل چل ۔ وہ کہتی ہے ہاتھ تو دھو لینے دو۔ وہ بازو سے کھینچتا ہوا اسے کوٹھڑی میں لے جاتا ہے اور مصروف ہو جاتا ہے۔ اب پروفیسر صاحب نے دونوں جانب کی لکیروں کو بلند کرنا شروع کیا۔ بابے کی بیوی والی لکیر بابے کی لکیر کا ایک تہائی تھی۔
اعجاز صاحب نے کہا کہ جب یہ شخص فارغ ہو گیا تو بیوی نے اتنا کہا،" بس"۔
پھر انہوں نے توجیہہ کی کہ اس نے ساری عمر بیوی کی ضرورت کے بارے میں نہیں سوچا تھا ( یاد رہے عورت کو جنسی فراغت کی خاطر زیادہ وقت اور زیادہ عملی توجہ درکار ہوتی ہے ) ان دونوں کے بچے ہو گئے، بچوں کے بچے ہو گئے۔ ایک روز بوڑھا بڑھیا کی لڑائی ہو گئی تو بڑھیا نے تنک کر کہا،" میں تیری لج رکھی بیٹھی آں۔ توں تے چڈوکنا نمرد سیں" یعنی میں نے تمہاری لاج رکھی ہوئی ہے۔ تم تو ایک عرصے سے نامرد تھے۔ یہ سنتے ہی بوڑھے کا دماغ الٹ گیا اور اسے نا مرد ہونے کا خبط ہو گیا۔
سب پاگل نہیں ہوتے تھے مگر عورتوں مردوں کی باہمی زندگی کی کہانیاں عموما" مماثل ہوتی تھیں۔ آپ کا کیا خیال ہے معاملہ آج بھی ایسا ہی ہے یا کچھ بہتری آ چکی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“