بڑائی کی باتیں
محترم احمد اقبال نے بھارت کے فلسفی صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی بڑائی کا ذکر کیا ہے. جس سے مجھے ایک اور بڑے آدمی کا ایسا ہی واقعہ یاد آگیا.
پہلے احمد اقبال صاحب :
غالبا" 1962 کی بات ہے جب میں پنڈی کے "کلکتہ دفتر" میں تھا۔یہ ملٹری اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کا نام تھا۔میرے ایک کولیگ نے جس کا نام عظیم تھا۔ تاریخ میں ایم اے کا امتحان دیا ۔امتحان سے قبل اسے بھارتی صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کی لکھی ہوئی کتاب کی ضرورت پڑی جو کہیں دستیاب نہ تھی۔اس نے رادھا کرشنن کو خط لکھ مارا۔۔ہم سب دم بخود رہ گئے جب جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کتاب ایک خط کے ساتھ بھیجی ۔اس میں لکھا تھا کہ میں ذاتی لائبریری سے یہ کتاب بھیج رہا ہوں۔ اس کی دوسری کاپی میرے پاس نہیں ہے۔۔ضرورت پوری ہوجاےؑ تو واپس کردینا"
اب ہمارا کردار دیکھئے کہ وہ ایم اے کا طالب علم اس کتاب کو ایک تاریخی یادگار سمجھ کے واپس نہ کرنے کے موڈ میں تھا۔ہم نے اسے شرمندہ اور مجبور کرکے کتاب واپس کرائی۔خط اس کے پاس تھا۔ وہ ایم اے کے بعد انگلینڈ چلاگیا تھا اب نہیں معلوم کہاں ہے"
اب میرا تجربہ…
پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک سلسلہ شروع کیا، مختلف ملکوں کی کہانیوں کو بچوں کیلئے ڈرامے کی شکل میں پیش کرنے کا.. میری اہلیہ مسرت کلانچوی کو بھی اس سلسلے میں کچھ ڈرامے لکھنے کی دعوت دی گئی. اب کہانیوں کی تلاش اور انتخاب درپیش تھا. مجھے یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں ہمدرد نونہال کے ایشیا کی کہانیاں اور یورپ کی کہانیاں نمبر چھپے تھے… لیکن سوال تھا اب وہ ملیں گے کہاں. میں نے حکیم محمد سعید کو خط لکھ دیا، ضرورت بتاکر فوٹو کاپی بھیجنے کی درخواست کی. چند ہی روز میں ان کی طرف سے اصل یورپ کی کہانیاں نمبر موصول ہوگیا. اس سے استفادہ کیا گیا. اس کے چند سال بعد پیدا ہونے والے میرے بیٹے نے بھی پڑھا.. وہ نمبر اب تک محفوظ ہے.
یہ شک مجھے بہت سال بعد پیدا ہوا کہ وہ نمبر ان کے ریکارڈ کا تھا اور اب شاید ان کے دفتر میں بھی موجود نہ ہو. وہ اس طرح کہ مسعود احمد برکاتی مرحوم نے حسب معمول کسی جون کے مہینے میں ہمدرد نونہال کا خاص نمبر نکالا. اس میں رسالے کے پچھلے خاص نمبروں کی فہرست بھی چھاپی گئی جو یقینا" آفس ریکارڈ سے بنائی گئی ہوگی. لیکن اس میں یورپ کی کہانیاں نمبر درج نہیں تھا.
میں نے برکاتی صاحب کو فون کرکے کہا کہ یہ نمبر بھی تو تھا، انہیں یاد آگیا. ان سے کہا کہ دیکھ لیں یہ ریکارڈ میں ہے؟
میں چاہتا تھا کہ وہ نمبر موجود نہ ہو توانہیں پہنچادوں. چند ماہ بعد کراچی جانا تھا، سوچا خود مل کر پیش کروں گا. جانا نہ ہوسکا. اور یہ بات بھی ذہن سے اتر گئی. برکاتی صاحب بھی چل بسے.
اب اپنی ایک پوسٹ پر احمد اقبال صاحب کا مندرجہ بالا کمنٹ پڑھ کر یاد آیا. حکیم صاحب شہید کی صاحبزادی سے معلوم کرتا ہوں، اگر یہ نمبر ریکارڈ میں موجود نہ ہوا تو ان تک جلد پہنچانے کی کوشش کروں گا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“