برابس ، عمرمختار اور پچیسواں گھنٹہ
( میکسیکن نژاد امریکی اداکار انتھونی کوئین پر ایک نوٹ )
میکسیکو میں سیاحی کرتے ہوئے آپ وہاں موجود ’اولمیک ‘ ، ’ مایا‘ ، ’ ٹیوٹیہوکن ‘ ، ’ ٹولٹیک ‘ اور’ ایزٹیک ‘ تہذیبوں کے آثار قدیمہ دیکھتے ہوئے نہیں تھکیں گے ایک کے بعد ایک جگہ آپ کو اپنی طرف کھینچتی رہے گی ۔ آپ اِن سے فارغ ہوں گے تو جنوبی امریکہ کی اولین زبانوں کے تحریریں آپ کی دلچسپی اپنی طرف مبذول کروا لیں گی ۔ پھرہسپانوی نوآبادیاتی دور کے آثار آپ کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے۔ اس ساری’ میکسیکو گردی ‘ میں’ تین بہنیں‘ البتہ آپ کو ایک بار نہیں کئی بار اکتانے پر مجبور کریں گی ۔ آپ اور آگے بڑھیں گے تو’ میکسکو انقلاب ‘ کے حوالے سے ’سان جوآن ڈیل ریو‘ کا عجائب گھر آپ کو اپنی طرف کھینچ لے گا جس کے ساتھ ’ پانچو وِلا ‘ ( Pancho Villa ) کا نام جڑا ہے ۔ اس عجائب گھر کو دیکھنے اور’ پانچو وِلا ‘ کے بارے میں جاننے کے بعد آپ کے لئے یہ ممکن نہ رہے گا کہ آپ پیرال ، ’ چی ہواہوا ‘ نہ جائیں جہاں’ پانچو وِلا ‘ دفن ہے ۔ آپ ’ مورلوس‘ (Morelos) جانے سے بھی پہلو تہی نہیں کر پائیں گے کیونکہ اس کے بغیر انقلابِ میکسیکو کے بارے میں جانکاری نامکمل رہے گی ۔ ’ Anenecuilco ‘ مورلوس‘ میں ’ ایمیلیانو زپاٹا ‘ (Emiliano Zapata Salazar ) کے گھر میں میوزیم قائم ہے ۔ ہم عصر زمانہ بھی دیکھنا کچھ کم اہم نہ ہو گا ورنہ لوگ آپ سے کہیں گے؛ ’نیلا گھر ‘ ( La Casa Azul ) نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا ۔ یہ آپ کو مصورہ ’ فریدا کاہلو‘ اورمصور ’ ڈیگو ریویرا ‘ کے بارے میں بہت سی تفصیل سے آگاہ کرے گا اور اگر آپ روسی کمیونسٹ راہنماﺅں سے واقف ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ لیون ٹراٹسکی بھی اپنے قتل کئے جانے سے قبل اس گھر میں رہا تھا جب اس نے سٹالن کے عتاب سے بچنے کے لئے میکسیکو میں سیاسی پناہ لی تھی ۔ فریدا کاہلو آپ کو سلمیٰ ہائیک کی یاد دلائے گی جس نے 2002 ء کی جولی تیمور کی ’ فریدا ‘ نامی فلم میں کاہلو کا کردار ادا کیا تھا ساتھ میں اداکار’ ایلفرڈ مولینا‘ اور’ جیفری رش‘ بھی یاد آئیں گے جنہوں نے مصور’ ڈیگو ریویرا ‘ اور’ ٹراٹسکی‘ کے کردارادا کئے تھے ۔ ’ تین بہنیں‘ آپ کا پیچھا تب ہی چھوڑیں گی تاوقتیکہ آپ میکسیکو سے باہر نہ نکل جائیں ۔ یہ ’ تین بہنیں کون ہیں ؟ اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے ۔ ابھی ذرا ’ چی ہواہوا ‘ واپس چلتے ہیں ۔
مشہور اداکار انتھونی کوئین اسی ’چی ہواہوا ‘ شہر میں اپریل 1915ء میں پیدا ہوا تھا ۔ اس وقت میکسکن انقلاب کو شروع ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے اوراس کا باپ فرانسسکو کوئین ’پانچو وِلا ‘ کا ایک انقلابی ساتھی تھا ۔ 1920ء میں انقلاب کی شدت کم ہونے پر آیا تو ’ پانچو وِلا ‘ نے میکسیکو کے اس وقت کے عبوری صدر ’ Adolfo de la Huerta ' سے امن معاہدہ کیا اور بدلے میں ملی جاگیر پر جا کر آباد ہو گیا ۔ انتھونی کوئین کا باپ بھی ٹیرس شہر کے نواحی علاقے مشرقی لوس اینجلس میں ایک فلمی سٹوڈیو میں اسسٹنٹ کیمرہ مین کے طور پر کام کرنے لگا ۔
میں نے انتھونی کوئین کو پہلی بار فلم ’ ویوا زپاٹا ‘ (Viva Zapata!) میں دیکھا تھا ۔ وہ اس فلم میں زپاٹا (مارلن برانڈو) کے بھائی ’ ایفیمو ‘ کے کردار میں جلوہ گر تھا ۔ یہ شاید 1959ء کے اواخر یا 1960 ء کے اوائل کی بات ہے ۔ دیسی شکل اور بھاری آواز والے اس اداکار میں مجھے ’ گورے اداکار ‘ والی کوئی بات نظر نہ آئی تھی اور وہ مجھے زپاٹا ( مارلن برانڈو) کا بھائی کم اور’ کمی کمین‘ زیادہ لگا تھا جیسا کہ وہ فلم میں صدر ’ پورفیرو ڈائیز‘ کے ہٹائے جانے کے بعد اپنی بدعنوان حرکتوں کی وجہ سے نظر بھی آتا ہے ۔ اس سب کے باوجود اس کی اداکاری میں کچھ ندرت تھی جو اسے مارلن برانڈو پر اولیت دے رہی تھی ۔ ( ویوا زپاٹا 1952 ء کی فلم ہے ۔ 35 ایم ایم کی یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم2 ملین ڈالر سے کہیں کم لاگت سے بنی تھی لیکن یہ باکس آفس پر ایک کامیاب فلم تھی اور اس نے سینماﺅں سے بیس ملین ڈالر کی کمائی کی تھی ۔ اس نے انتھونی کوئین کو پہلا آسکر دلایا تھا جو اسے بہترین معاون اداکار کی مد میں ملا تھا۔ ایلیا کازان ’ Elia Kazan ‘ اس فلم کا ہدایت کار تھا ۔ اس ہدایت کار کی دو اور فلمیں میں نے بعد میں دیکھی تھیں جن میں ایک مارلن برانڈو ہی کی ’ اون دی واٹرفرنٹ ‘ ( On the Water Front ) تھی جبکہ دوسری جیمز ڈین کی ’ ایسٹ آف ایڈن ‘ (East od Eden ) تھی ۔ یونانی نژاد امریکی ایلیا کازان اپنے وقت کا ایک اچھا ہدایتکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا ناول نگار بھی تھا لیکن ۔ ۔ ۔ وہ یاروں کا یار نہ تھا ۔ اس نے میکارتھی ازم کے زمانے میں ’ ہاﺅس کمیٹی اون اَن – امریکن ایکٹیویٹیز‘ (HUAC) کے سامنے اشتراکیت مخالف بیان حلفی دے کر اپنے ہمعصر اداکاروں’ مورس کارانووسکی‘ اور ’ آرٹ سمتھ ‘ کے علاوہ لکھاری ’ کلفورڈ آڈٹس‘ و دیگر کئی کا ہالی ووڈ میں کیرئیر تباہ کر ڈالا تھا ۔ اس بات نے اس کے اپنے فلمی کیرئیر کو بھی متاثر کیا اور وہ بعد ازاں کچھ زیادہ فلمیں نہ بنا پایا ۔ اس نے لمبی عمر پائی اور 94 سال کی عمر میں ستمبر 2003ء میں فوت ہوا ) ۔
اگلی فلم ’ سڑک‘ ( انگریزی نام؛ The Road اطالوی نام؛ La Stradaa ) تھی ۔ اس میں انتھونی کوئین سڑکوں پر کرتب دکھانے والا ’ زیمپانو‘ بنا تھا جس کی’ عورت ‘ اس کے ساتھ بستی بستی نگر نگر سفر کرتے ہوئے مر جاتی ہے اور وہ اس کی بہن ’ گیلسومینا ‘ کو اس کی ماں سے خرید لیتا ہے ۔ اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے تشدد کا نشانہ بھی بناتا ہے جس پر وہ اسے چھوڑ کر شہر چلی جاتی ہے جہاں اس کا سامنا ایک ایسے ہی کرتب دکھانے والے بدھو ’ اِل میٹو‘ سے ہوتا ہے جو طبیعت کے اعتبار سے اس کے خاوند کے برعکس رویہ رکھتا ہے اور جوکر نما حرکتیں کرکے اپنے تماشائیوں کو محظوظ بھی کرتا ہے ۔ ’ زیمپانو‘ اپنی عورت کو ڈھونڈ نکالتا ہے اورواپس لے جاتا ہے ۔ پھر وقت ان تینوں کو ایک سرکس میں کام کرنے کے لئے اکٹھا کر دیتا ہے جہاں ’ زیمپانو‘ کا حسد ’ اِل میٹو‘ سے بڑھتا جاتا ہے جس کے نتیجہ ’ زیمپانو‘ کے ہاتھوں ’ اِل میٹو‘ کا قتل ہے ۔ ’ زیمپانو‘ ’ گیلسومینا ‘ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور تاسف کا شکار ہو جاتا ہے ۔ مجھے اس فلم کا ایک سین آج بھی اچھی طرح یاد ہے ؛ جب’ اِل میٹو‘ ’زیمپانو‘ کے ہاتھوں مررہا ہوتا ہے تو وہ ہنستے ہوئے ’ زیمپانو‘ سے شکایت کرتا ہے کہ اس نے اس کی کلائی کی گھڑی توڑ دی ہے ۔ ( ’لا سٹراڈا ‘ 1954ء کی فلم ہے جسے اطالوی ہدایتکار فیڈریکو فلینی ' Federico Fellini ' نے کارلو پونتی کے سرمایے سے بنایا تھا اس نے اس کا سکرپٹ بھی اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر لکھا تھا ۔ اس فلم نے1957ء میں’ بہترین فارن لینگوئج فلم ‘ کا آسکر بھی جیتا تھا ۔ فلینی اٹلی کا ایک نامی ہداتکار ہے اور میں نے بعد ازاں اس کی اور بھی کئی فلمیں دیکھیں ) ۔
’ حُب ِ زیست ‘ ( Lust for Lifee ) میں نے کب ، کیسے اورکہاں دیکھی تھی اس کا ذکر میں اپنے کرک ڈگلس والے نوٹ میں کر چکا ہوں ۔’ پال گوگین ‘ کے روپ میں انتھونی کوئین نے اس کردار کا حق پوری طرح ادا کیا تھا ۔ ( لسٹ فار لائف 1956 ء کی فلم ہے ۔ میں وین گاف کے علاوہ مصورپال گوگین سے فلم دیکھنے کے وقت واقف نہیں تھا ۔ ان کے بارے میں مجھے اس وقت جانکاری ہوئی جب میری دوستی میں نیشنل کالج آف آرٹس کے کچھ طالب علم آئے تھے ۔ وین گاف اورپال گوگین کی زندگی کے حالات اور ناول پڑھ کر مجھے احساس ہوا تھا کہ ناول نگار’ آرونگ سٹون ‘ نے اپنے ناول میں اصل واقعات کے ساتھ برحق انصاف کیا ہے اور یہ بھی کہ فلم کا سکرپٹ لکھتے ہوئے’ نارمن کورون ‘ نے بھی ادھر ادھر بھٹکنے سے گریز کیا ہے ۔ میں نے فلم دوبارہ دیکھی اور مجھے احساس ہوا کہ امریکی ہدایتکار’ ونسینٹی منیلی‘ ( Vincente Minnelli ) نے بھی اس فلم کو بناتے وقت خاصی باریک بینی سے کام لیا اوررنگیلے لائٹ اینڈ شیڈ کے استعمال میں مصوری کے مزاج کوایک مصور کی ہی نظر سے دیکھا ۔ یہ فلم چار آسکرز کے لئے نامزد ہوئی تھی لیکن صرف ایک حاصل کر سکی تھی ؛ انتھونی کوئین نے اس میں پال گوگین کے کردار کے لئے ’ بہترین معاون اداکار‘ کا آسکر جیتا تھا ۔ یہ فلم نقادوں نے خوب سراہی لیکن فلم بینوں میں یہ ایک کچھ زیادہ پسند نہ کی گئی تھی ویسے ہی جیسے چارلٹن ہیسٹن کی مائیکل اینجلو پر بنی فلم ’ The Agony and the Ecstasy ‘ بھی کچھ زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر پائی تھی ) ۔ وکٹر ہیوگو کے ناول پر بنی اسی برس کی فلم ’ ہنچ بیک آف ناٹراڈیم‘ کا ذکر میں ’ جینا لولو بریجیڈا ‘ پر اپنے نوٹ میں کر چکا ہوں ۔ اس فلم میں جہاں انتھونی کوئن کی اداکاری لاجواب ہے وہیں اس فلم میں میک اپ کرنے والے ’ بونی میسن ‘ و اس کے ساتھیوں کے علاوہ ڈریس میکر ’ جارجس کے بینڈا ‘ اور عکاس ’ مائیکل کیلبر‘ بھی داد کے مستحق ہیں ۔ کلاڈ فرولو کے کردار میں ’ الین کنی‘ کی اداکاری اچھی ہے ۔
پھر ایسے ہوا کہ انتھونی کوئین کی تین فلمیں اوپر تلے لاہور کے سینماﺅں کی زینت بنیں ؛ یہ ’ گنز آف نیورون ‘ (The Guns of Navarone ) ، برابس (Barabbas) اور ’ لارنس آف عریبا ‘ (Lawrence of Arabia ) تھیں ۔ گنز آف نیوران ایک بڑی کاسٹ کی فلم تھی جس میں گریگری پیک ، ڈیوڈ نیون ، انتھونی کوئین اور ارینی پیپاس مرکزی کردار ادا کر رہے تھے ۔ یہ 1943ء کے زمانے میں دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ اتحادی طاقتوں اور یونانی مزاحمتی تحریک کا مشترکہ آپریشن تھا جس میں ان دو بھاری توپوں کو خاموش کرنا تھا جو جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے نیوران جزیرے کے پاس نصب کی تھیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے موضوع پر بنی یہ فلم خود میں ایک عمدہ مہم جوئی سموئے ڈھائی گھنٹے سے زیادہ طویل فلم تھی ۔ فلم بنیوں کو ’ پاکستان کا تصویری خبر نامہ‘ دیکھتے ہی فلم کی طرف متوجہ ہونا پڑتا تھا ورنہ عام وطیرہ یہ تھا کہ تصویری خبرنامے کے بعد ایک دو کارٹون اور آنے والی فلموں کے ٹریلر دکھائے جاتے تھے اور فلم اس کے بعد شروع ہوتی تھی ۔ یہ لاہور میں کافی ہفتوں تک سینما میں لگی رہی اور اس نے انگریزی فلم بینوں کے علاوہ عام شائقین ، جن کو انگریزی مکالموں سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔ ( یہ 1961ء کی فلم ہے ۔ اس کا سکرپٹ فلم ساز کارل فورمین نے خود لکھا تھا جو ’ ایلسٹئر میکلین ‘کے ناول سے ماخوذ ہے یہ ناول 1957 ء میں شائع ہوا تھا ۔اس فلم کا ہدایتکار ’ جے لی تھامسن تھا ۔ 6 ملین ڈالر سے بنی اس فلم نے 30 ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا ) ۔
برابس ( Barabbas ) کا فلم بین محدود تھا ۔ یہ حضرت یسوع مسیح کی زندگی سے جڑی ایک ایسی ہی کہانی تھی جیسی ’ بن حُر‘ میں پیش کی گئی تھی ۔ اس کا ہیرو ’ برابس‘ نامی وہ قیدی ہے جس اور یسوع مسیح کے درمیان یہودی تہوار’ پیسچ ‘ (Pesach) کے موقع پر قرعہ پڑتا ہے کہ کسے آزاد کر دیا جائے ۔ یہودی عوام برابس کی حامی ہوتی ہے ، یوں اسے مصلوب نہیں کیا جاتا اور آزاد کر دیا جاتا ہے جبکہ یسوع مسیح کو صلیب دے دی جاتی ہے ۔ اس کی محبوبہ کو مسیحی ہو جانے پریہودی پروہتوں کے ایماء پر سنگسار کر دیا جاتا ہے جس پر برابس پھر سے لوٹ مار شروع کر دیتا ہے اور پکڑے جانے پر سسلی کی گندھک کی کانوں میں مشقت پرلگا دیا جاتا ہے ۔ وہ لمبی عمر جیتا ہے یہاں تک کہ نیرو کا زمانہ آجاتا ہے اور زندگی اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے ۔ آخر یسوع مسیح کا معتقد ہونے پر وہ زندگی سے مُکتی پاتا ہے ۔ اس فلم میں ’ برابس ‘ کا کردار انتھونی کوئین نے بہت عمدگی سے نبھایا ہے ۔ اس فلم میں اطالوی اداکارہ ’ سلوانا مینگانو‘ نے ’ ریچل‘ ( برابس کی محبوبہ) کا کردار ادا کیا ہے ۔ جب یہ فلم لاہور میں لگنے والی تھی تو اس کے بارے میں یہ مشہور ہوا تھا کہ اس میں حضرت یسوع مسیح کو مصلوب کئے جانے کے مناظر اصلی سورج گرہن والے دن فلمائے گئے تھے ۔ فلم لگنے پر اس فلم کے وہ مناظر بھی بہت پسند کئے گئے تھے جن میں روم کے کھیل کے میدان (Arena) میں پہلوانوں ( gladiators ) کے مقابلے دکھائے گئے تھے ۔ ( یہ فلم بھی1961ء کی ہی ہے اور نوبل انعام یافتہ سویڈش ادیب پار لیگرکوِسٹ ’ Pär Lagerkvist‘ کے اسی نام کے ناول پر بنی ہوئی ہے ۔ اس فلم کا ہدایتکار رچرڈ فلیسچر ’ Richard Fleischer ‘ تھا ۔ میں نے بعد ازاں اس ڈائریکٹر کی کچھ اور بھی فلمیں دیکھیں جن میں’ فنٹاسٹک وائج ‘ ، ’ تورا !تورا ! تورا! ‘ اور انقلابی گوریلا چے گویرا کی زندگی پرامریکی نقطہ نظر سے بنی فلم ’ چے ‘ شامل تھیں ) ۔
’ لارنس آف عریبا ‘ ویسے تو ' پیٹر او ٹول ' کی فلم ہے لیکن یہ بھی ایک میگا کاسٹ فلم تھی ۔ اس فلم کا تانا بانا برطانوی فوجی افسر ’ ٹی ای لارنس‘ کے گرد بُنا گیا تھا ۔ ایلک گینس ، عمر شریف ، اور دیگر کئی کے ہمراہ انتھونی کوئین اس فلم میں بدو ’ شیخ عودہ ابو تائی ‘ کا کردار ادا کیا ہوا ہے ۔ اس فلم سے جڑی ایک بات مجھے اب بھی یاد ہے کہ میرے والد نے یہ فلم دکھانے سے پہلے مجھے ہوٹل ’ پارک لگژری ‘ ، جہاں پہلے ہوٹل ’ نیڈو ‘ تھا اور اب ’ آواری‘ کھڑا ہے ، دکھایا تھا جہاں’ ٹی ای لارنس‘ لاہور میں اپنے قیام کے دوران ٹہرا کرتا تھا ۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اس برطانوی فوجی افسر نے ہوٹل نیڈو کے مالک کی بیٹی ’ اکبر جہاں ‘ سے معاشقے کے بعد شادی بھی کی تھی جو کچھ عرصہ ہی چل پائی تھی ۔ یہی اکبر جہاں بعد میں شیخ عبداللہ کی بیوی بنی تھی ۔ ٹی ای لارنس کا ہند میں قیام کیا مقاصد لئے ہوئے تھا ؟ یہ ایک الگ قصہ ہے ۔ ( لارنس آف عریبا 1962 ء کی فلم ہے ۔ اس کا سکرپٹ برطانوی رابرٹ بولٹ اور امریکی میشعل ولسن نے لکھا تھا جس کے لئے انہوں نے ٹی ای لارنس کی آپ بیتی ’ Seven Pillars of Wisdom ‘ کو ماخذ بنایا تھا ۔ یہ برطانوی ڈیوڈ لین کی بطور ہدایتکار13 ویں فلم تھی ۔ ڈیوڈ لین اور اس کی فلمیں ایک الگ مضمون کی متقاضی ہیں ) ۔
اور پھر میں نے انتھونی کوئین کی فلم ’ پچیسواں گھنٹہ‘ ( The 25th Hour ) دیکھی ۔ یہ شاید 1970 کی دہائی کے ابتدائی سال تھے ۔ اس فلم کا نام عجیب تھا : پچیسواں گھنٹہ ؛ گھنٹے تو چوبیس ہوتے ہیں ! یہ پچیسواں گھنٹہ کہاں سے آ گیا ؟ میں نے سوچا تھا ۔ یہ فلم عمومی طور پر دوسری جنگ عظیم کے موضوع پر ہی تھی لیکن یہ رومانیہ کے ایک کسان ’ جوہان موریز‘ (انتھونی کوئین) اور اس کی بیوی ’ سوزانا ‘ (اطالوی اداکارہ؛ وِرنا لیزی) کی کہانی تھی جو جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار تو ہوتے ہی ہیں لیکن جب’ سوزانا ‘ مقامی تھانیدار کو دست درازی نہیں کرنے دیتی تو انہیں یہودی قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر ان پر جو بیتتی ہے وہ اصل میں جنگ کے مدو جزر میں بسر ہوتے ان کی زندگی کے روزو شب سے پُر ’ پچیسواں گھنٹہ‘ ہے ۔ ( یہ 1967ء کی فلم ہے ۔ کارلو پونتی نے اس فلم کے لئے رومانیہ کے ہی ادیب ’ Constantin Virgil Gheorghiu ‘ کا اسی نام کا ناول ، شائع شدہ 1949ء ، چنا تھا اور کو سکرپٹ میں ڈھلوایا تھا اور فرانسیسی آرمینین ہدایتکار ’ ہنری ورمیول ‘ ( Henri Verneuil ) سے اسے بنوایا تھا ۔ اتحادی اور ایکسس فورسز کی آپسی جنگ نے یورپ کے رومانیہ جیسے چھوٹے ملکوں میں کیا غدر مچایا تھا یہ فلم اس بہیمانہ تباہ کاری کی ایک عمدہ تصویر ہے ) ۔
یہ 19777ء کا سال تھا اور پاکستان کے لئے ایک تاریک باب کا آغاز ہونے کو تھا جس کی اصل وجہ خود ذوالفقار علی بھٹو تھا ۔ اس نے ایک طرف احمدیوں کو اقلیت قرار دیا اور شراب پر پابندی لگا کر مولویوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ، میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ضیاء الحق کو مارچ 1976 ء میں افواج کا سربراہ بنایا ، جنوری 1977 ء کے انتخابات میں اپنی پارٹی کے امیدواروں پر کنٹرول نہ کیا جس کا نتیجہ دھاندلی کی شکل میں سامنے آیا اور پاکستان کی رجعت پسند طاقتوں کو موقع ملا کہ وہ ملک میں فوجی اقتدار کی راہ ہموار کریں ۔ 5 جولائی 1977ء کوضیاءالحق نے شب خون مارا اوراس رات کی سیاہی اگلے گیارہ سالوں تک ہمارے ملک پر چھائی رہی ۔
انہی دنوں شامی نژاد امریکی ہدایتکار ’ مصطفےٰ العقاد ‘ نے اردن ، سعودی عرب اور لیبیا کے سرمائے سے ’ الرسالة؛ محمد ، پیامبر ِ خدا ‘ نامی فلم بنائی تھی جسے اس نے انگریزی میں ’ دی میسیج ‘ (The Message ) کے نام سے بھی پیش کیا تھا ۔ عربی ورژن میں حضرت حمزہ اور ہندہ کے کردار مصری اداکار عبداللہ غائیت اور شامی اداکارہ مُونا واسف نے ادا کئے تھے جبکہ انگریزی ورژن میں یہ انتھونی کوئین اور اطالوی اداکارہ ’ ارینی پاپاس ‘ نے نبھائے ۔ اسی طرح کچھ اور کردار بھی دونوں ورژن میں مختلف اداکاروں نے ادا کئے ہوئے ہیں ۔ اس فلم کی انگریزی ورژن پاکستان میں ضیاءالحق کے مارشل لاء کے ابتدائی سالوں میں ہی پیش کی گئی تھی جب وہ بھٹو کو پھانسی لگا چکا تھا ۔ اس وقت ضیاء کی دوغلی اوررجعت پسندانہ پالیسیاں کھل کر سامنے آنا شروع ہو چکی تھیں ۔ نیف ڈیک کا ادارہ غیر فعال کر دیا گیا تھا اور پاکستان میں اچھی بدیسی فلموں کی درآمد بند ہو چکی تھی ، پاکستان میں فلم انڈسٹری کو تباہ کیا جا رہا تھا ، سینما بند ہو رہے تھے ۔ پی ٹی وی پر پاکستانی فلموں کی نمائش بھی پابندی کا شکار ہو چکی تھی ۔ دوغلا پن یہ تھا کہ ضیاء نے1981 ء میں ایک مارشل لاء آڈر کے تحت 1947ء تا 1981 ء تک کی انڈین فلموں پرسے پابندی ہٹا دی ۔ یہ قدم اس لئے اٹھایا گیا تھا کہ وہ اپنے دوست ’ شیخ مختار ‘ کو سہولت فراہم کرنا چاہتا تھا تاکہ اس کی فلم ’ نور جہاں‘ پاکستان کے سینماﺅں میں ریلیز کی جا سکے ۔ اسی طرح اسے اپنے ایک اور دوست ڈاکٹر جان کو ’ سہولت ‘ مہیا کرنی تھی جو رینا رائے کی فلم ’ کشش‘ درآمد کر سکتا تھا ، جو اس نے بعد میں کی بھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دونوں فلموں نے شائقین کی توجہ حاصل نہیں کی تھی ۔ ایسی فضا میں ’ دی میسج ‘ کو دیکھنے والے کچھ تو مولوی تھے یا پھر میرے جیسے فلموں کے شوقین جنہوں نے ہر حال میں تجربے کے طور پر ہر طرح کی فلم دیکھنی ہوتی ہے ۔ اسلامی عقیدے کو مد نظر رکھتے ہوئے فلم میں محمد کا کردار کسی اداکار نے ادا نہیں کیا تھا اور ان کی موجودگی کو ان کی اونٹی کی حرکات و سکنات سے ظاہر کیا گیا تھا ، اسی اصول کا اطلاق ان کی ازدواج ، بیٹی فاطمہ ، داماد علی اور خلفائے راشدین پر بھی کیا گیا جبکہ ان کے اردگرد کے باقی سبھی تاریخی اشخاص کے کردار کسی نہ کسی اداکار نے ادا کئے تھے ۔ فلم کی اشتہار بازی میں اس بات کو جلی طور پر وضع کیا جاتا تھا کہ اس فلم کو مصر کے ’ جامعہ الازہر‘ اور سعودی حکومت کی آشیرباد حاصل ہے ۔ اس سب کے باوجود یہ فلم عام فلم بین کو تو کیا خود مولویوں اور اسلام پسندوں کو اپنی طرف راغب نہ کر سکی تھی ۔ مذہبی عالم ( خواہ کسی مذہب کے ہوں ) بہت کایاں ہوتے ہیں اور وہ اپنے اپنے پیغمبر / مذہبی پیشوا کو اپنے ہی رنگ میں لوگوں کے سامنے پیش کرکے انہیں اپنے دائرہ اثر میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اس فلم کی مخالفت عام آدمی نے کم جبکہ مسلم عالموں نے زیادہ کی تھی کہ یہ انگریزوں کی سازش سے بنوائی گئی ہے ۔ آپ اس فلم کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس فلم پر 10 ملین ڈالر کی لاگت آئی تھی جبکہ یہ دنیا بھر میں صرف 15 ملین ڈالر کا بزنس کر سکی تھی حالانکہ اس وقت دین ِاسلام کے پیروکاروں کی اپنی تعداد ، بقول فلم کے ہدایتکار کے ، 700 ملین تھی جن کے دین کی ’ بڑائی ‘ کے لئے اس نے یہ فلم بنائی تھی ۔
اس سب سے قطع نظر اس فلم میں انتھونی کوئین کی اداکاری بطور ’ حمزہ‘ لاجواب تھی ۔ اطالوی اداکارہ ’ ارینی پاپاس‘ بھی ہندہ کے کردار میں کچھ کم نہ تھی ۔ یاد رہے کہ انتھونی کوئین نے اس فلم کے متوازی1977ء میں ’ جیسس آف نیزرت ‘ ( Jesus of Nazareth ) میں یہودی پیشوا ’ Caiaphas ‘ کا کرداربھی ادا کیا تھا ۔
ضیاء الحق نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو تو بربادی کی راہ پر دھکیل دیا تھا اور معیاری غیر ملکی فلموں کی در آمد بھی روک دی تھی لیکن وی سی آر اور وی ایچ ایس ٹیپس پر فلموں کو وہ نہ روک سکا بلکہ اس کے کچھ جرنیلوں کی نئی پود ماسٹر پرنٹ ہانگ کانگ ، بنکاک یا مشرق وسطیٰ سے منگوا کر اس کی کاپیاں بنا کر فروخت کرنے کا کاروبار کرتی تھی ۔ ’ ریڈیو سٹی اور کرسٹل نامی کمپنییوں کی بیک گراونڈ کچھ اسی طرح کی تھی ۔ اب ہر گھر میں دس یا بیس روپے کرائے پر ہندی / انگریزی فلم پہنچنے لگی تھی ۔ 1981ء کی ’ صحرا کا شیر‘ ( Lion of the Desert ) میں نے وی ایچ ایس ٹیپ پر دیکھی تھی جس میں اٹلی کی نوآبادی لیبیا کے انقلابی اور آزادی کے ہیرو ’ عمر مختار‘ ، جسے 73 برس کی عمر میں گرفتار کرکے 16 ستمبر 1931 ء کوپھانسی دی گئی تھی ، کا کردار انتھونی کوئن نے ادا کیا تھا ۔ اس میں اطالوی جنرل’ روڈولفو گریضیانی ‘ کا کردار اداکار اولیور ریڈ نے ادا کیا ہوا ہے جبکہ مسیولینی کا کردار’ راڈ سٹائیگر‘ نے نبھایا ہے ۔ اس فلم کا ہدایتکار بھی مصطفےٰ العقاد تھا اور اس فلم کی تیاری کے لئے سرمایہ لیبیا کی حکومت نے مہیا کیا تھا ۔ اس فلم پر اٹلی میں پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اسے سینماﺅں میں ریلیز نہ ہونے دیا گیا تھا ۔ 2009 ء میں اسے محدود طور پر آزاد کیا گیا تھا اور یہ SKY ٹی وی کے ایک اطالوی چینل پر دکھائی گئی جو فلم دکھانے کا معاضہ وصول کرتا تھا ۔ اگست 2008 ء میں اطالوی حکومت نے عمر مختار کے بیٹے سے اطالوی بربریت اور اس کے والد کو پھانسی دئیے جانے پر تاسف کا اظہار کیا تھا ۔ مجھے اس فلم میں عمر مختار کا ایک ڈائیلاگ ابھی بھی یاد ہے ؛ ” ہم ہتھیار نہیں ڈالتے ، ہم جیتتے ہیں یا مر جاتے ہیں ۔ “
میں نے انتھونی کوئین کی کچھ اور فلمیں بھی دیکھیں جن میں اب ’ Zorba the Greekk ‘ اور ’ Caravans‘ ہی یاد ہیں ۔ انتھونی کوئین نے اپنی زندگی میں تین شادیاں کیں ؛ پہلی بیوی ’ کیتھرین ڈیمِلی ‘ جو سیسل بی ڈیملی کی متبنٰی تھی ، سے اس کے پانچ بچے تھے جن میں سے سب سے بڑا ’ کرسٹوفر‘ دو سال کی عمر میں ڈوب کر مر گیا تھا ۔ دوسری سے تین جبکہ تیسری بیوی سے دو بچے ہیں ۔ دو سالہ کرسٹوفر کی موت کا اثر انتھونی کی زندگی پرایک لمبے عرصے تک چھایا رہا ۔ اس کی آپ بیتی The Original Sin: A Self-Portrait ‘ 1972ء میں سامنے آئی تھی ۔ اس میں بھی یہ اثر بار بار نظر آتا ہے ۔ اس آپ بیتی کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا تھا کہ انتھونی کوئین جہاں اداکاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا وہاں اس کی تحریر بھی لاجواب ہے ۔ وہ ایک اچھا مصور و مسجمہ ساز بھی تھا اور اس کے کام کی کئی نمائشیں امریکہ کے علاوہ میکسیکو میں بھی منعقد ہوئیں ۔ اپنی آپ بیتی میں اس کا کہنا ہے کہ ’ محبت ‘ ہمیشہ ’ مشروط ‘ ہوتی ہے ۔ اس کی یادداشتوں کی ایک کتاب ’ One Man Tango ‘ بھی 1997 ء میں سامنے آئی تھی ۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ ایک ایسے آدمی کا ’ بیانیہ ‘ ( Narrative ) ہے جس نے بہت کچھ اکیلے ہی جھیلا ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہر شخص کو ’ بہت کچھ ‘ اکیلے ہی جھیلنا ہوتا ہے کیونکہ محبت کیسی بھی ہو واقعی مشروط ہوتی ہے اور آپ کا ’جیون ساتھی‘ آپ کا ’ اکیلا پن ‘ ہی ہوتا ہے ۔
انتھونی کوئین 866 برس کی عمر میں گلے کے کینسر کی وجہ سے سانس کی بیماری کا شکار ہو کر نمونیہ کی حالت میں 3 جون 2001 ء کو فوت ہوا اور برسٹل کے قبرستان میں اپنے خاندانی احاطے میں دفن ہوا ۔
’چی ہواہوا ‘ میکسیکو میں نہ تو ’ پانچو وِلا‘ دفن ہے اور نہ ہی انتھونی کوئین ، البتہ آپ کو ان دونوں کے مجسمے وہاں ضرور ایستادہ نظر آئیں گے ۔ چلیں اب ان ’ تین بہنوں ‘ کا ذکر بھی ہو جائے جن کے بارے میں ، میں نے اس مضمون کے آغاز میں بات کی تھی ؛ یہ بہنیں ’ مکئی‘ ، ’ کدو‘ اور ’ لوبیا ‘ ہیں جو میکسکو کے باسیوں کا صدیوں سے ’ من بھاتا کھاجا ‘ ہیں ۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔