یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد دو ماہ بعد یا دو سال بعد بقول میر…ع
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
رواں ماہ ستمبر کی یکم کو صدر اوباما نے عراق سے اپنے فوجی دستے نکال لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کارِ خیر امریکہ نے خرابی بسیار کے بعد کیا ہے۔ عراق میں ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور زخمیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے۔ امریکہ نے جو عراق اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا عراق ہے۔ نسلی گروہوں میں بٹا ہوا۔ فرقہ واریت کا شکار۔ کربلا سے لیکر بغداد تک دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ یہ ہے وہ ’’آزادی‘‘ اور یہ ہے وہ ’’جمہوریت‘‘ جو امریکہ نے عراق کو دی ہے۔
کیا امریکہ نے عراق سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ یا افغانستان میں اپنے مزید فوجیوں کو جہنم رسید کرا کر رخصت ہو گا؟ اس وقت تک افغانستان سے بارہ سو تابوت امریکہ جا چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔ امریکہ نے جو اہداف اپنے لئے طے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ افغانستان میں ’’جمہوریت‘‘ آئی نہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی امریکی خواہش پوری ہوئی۔ امریکہ آج رخصت ہوتا ہے یا ایک سال بعد یا دو سال بعد صورت حال یہی رہے گی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا؟ یہ ہے وہ سوال جس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ اس کیلئے تجزیہ بھی چاہیے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے افغانستان کے اندر کی سیاسی اور گروہی صورتحال اور حرکیات
(Dynamics)
سے پوری واقفیت بھی!لیکن ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور علم اور تجزیہ ہمارے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ "" افغان باقی کہسار باقی "" قسم کے مضامین[ روزنامہ جنگ 15 اگست 2010 ] لکھنے سے اور بار بار یہ کہنے سے کہ امریکہ کو شکست ہو رہی ہے سوائے ایک رومانویت کے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کون سی اور کس کی حکومت ہو گی؟ شمالی افغانستان (یا سابقہ شمالی اتحاد) اور جنوبی افغانستان کے پختونوں کے درمیان معاملات کس طرح طے ہونگے؟ امریکہ کے نکلنے کے بعد والا افغانستان پاکستان نواز ہو گا یا بھارت نواز؟ کاش جذباتی مضامین لکھنے کے بجائے پاکستان کو لاحق مستقبل کے ان خدشات کو موضوع بنایا جائے۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ نعرے مارنے والے اکثر حضرات کو افغانستان کی تاریخ کا علم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ اسکے اندر کون کون سی قومیتیں آباد ہیں اور ان کے باہمی روابط کیا ہیں؟ کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے جہاں ازبک آباد ہیں ۔ دوسری بڑی آبادی تاجکوں کی ہے جب کہ جنوب اور مشرقی حصے میں پختون رہتے ہیں جن کی ملک میں غالب اکثریت ہے۔
امریکیوں کے شکست خوردہ انخلاء کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ افغانستان کب وجود میں آیا؟ اکثر مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ موجودہ افغانستان کا بانی احمد شاہ ابدالی ہے جس نے 1747ء میں تاریخ میں پہلی بار پختونوں کو مجتمع کیا۔ نادر شاہ درانی کا یہ افسر غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دلی کو تاراج کرتے وقت نادرشاہ نے احمد شاہ ابدالی کو بتا دیا تھا کہ اسکے بعد وہ بادشاہ بنے گا۔ اس وقت موجودہ افغانستان، خراساں کا حصہ تھا اور افغانستان کا نام وجود ہی میں نہیں آیا تھا۔ بہر طور نادرشاہ کے قتل کے بعد 1747ء میں قندھار کے مقام پر احمد شاہ بادشاہ بنا اس نے پختونوں کو اکٹھا کیا۔ درانی، قزلباش اور یوسف زئی سارے اسکے ساتھ تھے جلد ہی اس نے غزنی پر قبضہ کر لیا۔ پھر کابل چھینا تین سال بعد ہرات بھی اس کا تھا۔
اگرچہ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ازبک ، تاجک اور ہزارہ بھی تھے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔احمد شاہ ابدالی کی حکومت سر سے لے کر پائوں تک ایک پختون حکومت تھی۔ابدالی کے بعد جو صورت ِ حال بھی افغانستان کو پیش آئی،خواہ ابدالی کے کمزور جانشینوں کے زمانے میں،یا بعد میں سکھوں اور انگریزوں کے ساتھ لڑائیوں میں، ان میں فیصلے ہمیشہ پختونوں نے کیے۔یہ صورت حال 1747 کے بعد دو سو بتیس سال تک برقرار رہی۔لیکن1979
میں منظر بدل گیا۔ سوویت یونین شمال کے راستےافغانستان میں داخل ہوا اور پہلی مزاحمت شمالی افغانستان کے ازبکوں اور تاجکوں نے کی۔ گویا دو سو بتیس سال بعد پہلی مرتبہ ازبک اور تاجک اقلیتیں پس منظر سے نکل کر پیش منظر پر آ گئیں۔ انہیں رشید دوستم اور احمد شاہ مسعود جیسے لیڈر میسر آ گئے۔ روسیوں کے انخلاء کے بعد برہان الدین ربانی صدر بنے جو احمد شاہ ابدالی کے بعد پہلے غیر پختون، سربراہ ریاست تھے۔ برہان الدین ربانی کا تعلق فارسی بولنے والے تاجکوں کے ساتھ تھا دیگر اہم مناصب بھی پہلی بار شمالی افغانستان کے حصے میں آئے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اڑھائی سو سال تک غالب رہنے والے پختون یہ صورت حال قبول کر سکتے تھے؟ انکے بابا احمد شاہ ابدالی نے یہ سلطنت پختونوں کیلئے بنائی تھی۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اقتدار پلیٹ میں رکھ کر برہان الدین ربانی کی پارٹی ’’جمعیت اسلامی‘‘ کو دے دیتے۔’’جمعیت اسلامی‘‘ میں تو ازبکوں اور تاجکوں کی اکثریت تھی۔
جب ہم تاریخ کا اور بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں ہماری ذاتی وفاداریاں اور جذباتی وابستگیاں دراندازی نہیں کرسکتیں۔ کچھ حضرات طالبان کے بارے میں تجزیہ برداشت نہیں کر سکتے۔ طالبان میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن وہ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان تھے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انکے ساتھ عرب، چیچن اور ازبکستان کے ازبک تو تھے اور ہیں لیکن افغانستان کے ہزارہ، ازبک اور تاجک انکے ساتھ نہیں۔ چنانچہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان نسلی لحاظ سے پختونوں کی ایک جماعت ہے۔
تو کیا افغانستان کے ازبک اور تاجک اتنے اچھے مسلمان نہیں جتنے پختون طالبان ہیں؟ کیا افغانستان میں اسلام پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری ہے؟ اس کا جواب منطق اور دانش کی صورت میں جو ہو سکتا ہے وہ واضح ہے۔ ازہر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تاجک برہان الدین ربانی نے سید قطب شہید کی کتابوں کا پہلی بار فارسی میں ترجمہ کیا۔ اسلام پر اگر عربوں کی اجارہ داری ممکن نہیں تو اور کسی نسلی گروہ کی اجارہ داری کس طرح ممکن ہے؟
بہرحال پختون طالبان نے غیر پختونوں کی حکومت ختم کر دی۔شمالی افغانستان کے ازبکوں اور تاجکوں نےطالبان پرقتل و غارت کے الزامات لگائے۔جواب میں طالبان نے شمالی اتحاد کے مظالم سے دنیا کو آگاہ کیا۔مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان یہ تصادم تاریخ کا بدقسمت باب ہے۔ شمالی اتحاد نے طالبان کو کنٹینروں
containers
میں بند کر کے گرمی کی شدّت سے ہلاک کیا۔دوسری طرف شمالی اتحاد کا دعوا ہے کہ یہ انوکھا آلہء قتل طالبان کی ایجاد تھا۔
یہ ہے وہ نسلی جھگڑا جو افغانستان میں برپا ہے۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد ازبکوں اور تاجکوں نے اقتدار کا مزہ پہلی بار چکھا۔ تو کیا اب امریکیوں کے جانے کے بعد وہ پھر پس منظر میں چلے جانا گوارا کرینگے؟ یا اقتدار میں برابر کا حصہ چاہیں گے؟ اور کیا طالبان جو نو سال کی جدوجہد کے بعد آج پھر ایک اہم طاقت ہیں شمال والوں کے ساتھ کوئی قابل عمل سمجھوتہ کر لیں گے؟ گزشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا بہت مشکل ہے اسکی تائید جماعت اسلامی کے سابق امیر اور طالبان کے حامی قاضی حسین احمد نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کی ہے۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں
""
ملا عمر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جس مزاج کا آدمی ہے اس سے اگر مذاکرات کئے جائینگے تو وہ آج بھی کسی درمیانی راستے کی طرف آنے کی بجائے اپنے اس موقف پر اصرار کریگا کہ افغانستان کے تمام دوسرے فریق اسے بلا شرکت غیرے امیر المومنین تسلیم کر کے اس کی بیعت کر لیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ طرزِ فکر صرف ملا عمر کا نہیں، کوئی بھی پختون ہو، وہ یہی سمجھتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے یہ سلطنت پختونوں کیلئے بنائی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ملا عمر کا مزاج ایسا ہے۔ ہو سکتا ہے ملا عمر دوسرے کئی پختونوں کی نسبت نرم دل ہوں اور اسلامی اخوت اور مساوات پر زیادہ یقین رکھتے ہوں۔
کاش قاضی حسین احمد اور دوسرے حضرات صرف امریکہ کے انخلاء پر بات کرنے کے بجائے کوئی ایسا فارمولا پیش کریں جو مستقبل کے افغانستان کو پرامن بنانے میں ممد ثابت ہو سکے۔ گزشتہ نو سالوں میں ازبکوں اور تاجکوں کے بچے پرامن شہروں میں رہ کر تعلیمی لحاظ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ آخر پختون بچوں کی قسمت میں قتل وغارت کیوں ہو؟ طالبان عددی لحاظ سے بڑے بھائی ہیں انہیں چاہیے کہ ایک بار وہ آگے بڑھ کر ازبکوں تاجکوں اور ہزارہ کو گلے سے لگائیں اور ساتھ بٹھا کر اقتدار کا کوئی قابل عمل حل تجویز کریں تاکہ افغانستان کو خانہ جنگی سے نجات ملے۔ اگر طالبان کی اس محبت کا جواب محبت سے نہ دیا گیا تو پھر طالبان پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکے گا اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں۔