(Last Updated On: )
برصغیر میں اسلام کے عظیم مُبلغ ، مشہور صوفی بزرگ
سلطان الہند، حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ
رواداری، امن و سلامتی اور انسان دوستی کے سفیر
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا نام نامی اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کے حوالے سے اسلامی تاریخ میں پوری طرح روشن و تاباں ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز اسلامی تصوف کی تاریخ میں برگزیدہ ترین بزرگوں میں سے ایک اور برصغیر پاک و ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی کے طور پر مشہور و معروف ہیں۔ راہِ سلوک و طریقت سے فیض یابی کے بعد سرکارِ دوجہاںحضرت محمدﷺکے روضۂ انور کی زیارت کے مشتاق ہوئے۔ مدینۃ النبی ﷺ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ مدینۃ النبی ﷺ میں ورود کے بعد رسالت مآب ﷺ کے روضۂ انور پر حاضری سے شرف یاب ہوئے۔ آپ ﷺ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کو ظلمت کدہ ہند، سر زمین ہندوستان جانے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے ارشاد فرمارہے تھے ! ’’معین الدین! ہم نے تمہیں اللہ کی رضا و منشاء سے ’’سلطان ہند‘‘ مقرر کیا ہے ، اب تم ہندوستان چلے جاؤ۔ ‘‘
حضرت خواجہ غریب نواز ؒ تاریخ کے جس دور میں ہندوستان پہنچے۔ ان دنوں مشہور راجپوت حکمران پرتھوی راج اپنی دو لاکھ سپاہ اور تین ہزار ہاتھیوں کے بل بوتے پر مسلمان حاکم شہاب الدین غوری کی سپاہ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کر چکا تھا۔ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جس دربار میں سب سے پہلے حاضری دی، وہ گنج بخش حضرت سید علی ہجویریؒ کا مزار پُر انوار تھا۔ یہاں آپؒ نے چلہ کشی کی ۔ پھر اجمیر کا رُخ کیا جو ہندوستان میں بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ اس وقت کے حکمران پرتھوی راج کی راج دھانی تھا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے اپنے مریدین سمیت ’’انا ساگر ‘‘ نامی مقام پر قیام کیا۔ یہ جگہ بعدازاں اولیاء مسجد کے نام سے مشہور ہوئی۔ ’’اناساگر‘‘ جسے آپ نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔ یہ مقام ہندوؤں کے لاتعداد مندروں کے حوالے سے خاس شہرت رکھتا تھا۔ حضرت خواجہؒ نے اس جگہ کو تبلیغ دین کے لیے منتخب کیا اور یہیں تشریف فرما ہو کر اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کا بے مثال فریضہ انجام دیا۔ یہاں آپ نے اپنی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں بے شمار نفوس کو دینِ بین کے نُور سے منور کیا۔ دعوت و تبلیغ کی بے مثال حکمت ِ عملی ، خدمت خلق، احترامِ انسانیت اور انسان دوستی کے فلسفے سے آپ نے اسلام کے پیغام امن و سلامتی کو عام کیا۔ جس کے نتیجے میں سچائی اور حق کے متلاشی افراد رنگ و نسل ، طبقاتی امتیاز ، کفر و شرک اور ظلم و جبر کے ظالمانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے لگے۔ وہ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہو کر آپ کے حلقہ بہ گوش ہو گئے۔
آخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مشہور جوگی جے پال دولت اسلام سے شرف یاب ہو کر آپ کے ارادت مندوں میں شامل ہو ا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی ، دین کی تبلیغ و اشاعت اور معاشرے کی اصلاح میں بسر کی۔ ایک موقع پر آپؒ نے فرمایا۔’’بُت پرستی کا دوسرا نام خود پرستی اور نفس پرستی ہے۔ جب تک انسان اِن سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ، وہ خدا پرستی کی منزل سے دور رہتا ہے۔ ‘‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے طبقاتی نظام اور چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریہ توحید عملی حیثیت سے پیش کیا اور بتایا کہ یہ صرف ایک تخیلی چیز نہیں ہے بلکہ زندگی کا ایسا اُصول ہے جسے تسلیم کرلینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہ در حقیقت ایک زبردست دینی، سماجی اور اصلاحی انقلاب کا اعلان تھا۔ آپ کی نظر جس فاسق (گناہ گار بندے) پر پڑ جاتی وہ تائب ہو جاتا اور پھر کبھی گناہ کے پاس تک نہ جاتا۔ ہندوستان پر برطانوی دورِ حکومت میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن کہا کرتا تھا۔ ’’میں نے اپنی زندگی میں دو ایسے بزرگ دیکھے ہیں جو اپنی وفات کے بعد بھی لوگوں کے دِلوں پر اس طرح حکمرانی کر رہے ہیں، جیسے وہ بہ نفس نفیس ان کے درمیان موجود ہوں۔ ان میں ایک تو مغل فرماں روا اورنگ زیب عالمگیر ہے اور دوسری عظیم المرتبت شخصیت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی ہے۔‘‘
چنانچہ وقت کے فرماں روا شہنشاہ اور سلاطین جن میں سلطان شمس الدین التمش، شہنشاہِ اکبر ، جہانگیر ، شاہجہاں، اورنگ زیب عالمگیر اور کئی دیگر امراء نے آپ کے دربار میں حاضری کو دین و دُنیا کی سعادت جانتے ہوئے آپ سے اپنے تعلق خاطر اور دِلی عقیدت کا اظہار کیا۔ رسول کریم ﷺ کے دربار سے انہیں ’’قطب المشائخ ‘‘ کے لقب کی بشارت ملی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کیؒ نے آپ کو ’’ملک المشائخ ،سلطان السالکین ، منہاج المتقین ، قطب الاولیاء، شمس الفقراء اور ختم المہتدین ‘‘ کے بلند القابات سے یاد کیا ہے۔ حضرت خواجہؒ کے یہ خلفاء اور بزرگان دین مختلف مقامات پر مامور تھے۔ تاکہ یہ شمع اسلام روشن کر کے ہندوستان کے ظلمت کدہ کو دین کے نور سے منور کر دیں اور جب سلاطین دہلی تخت و تاج کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ فوج کشی میں مصروف تھے تو خانقاہ کے یہ بوریا نشین انسانوں کے قلوب کی تسخیر کر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ دو متوازی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ ایک تو ان کی تھی جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں اور ایک ان کی جن کے ہاں درویشی اور فقر و فاقہ تھا لیکن ان ہی بوریا نشینوں اور فاقہ مست افراد کے ذریعے ہندوستان میں اسلام کی سچی عظمت اور شوکت قائم ہوئی۔
سلطان الہند حضرت غریب نوازؒ نے تاریخ کے جس عہد میں شعور کی آنکھ کھولی تھی۔ وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے لیے بڑے مسائل، ابتلاء اور مصیبت کا دور تھا۔ اُس وقت عالم اسلام میں اندرونی طور پر ہر طرف انتشار ،افراتفری، فرقہ واریت اور خانہ جنگی کا ماحول تھا۔ مسلمانوں کی اس ہمت شکنی ، پست حوصلگی ، مایوسی اور شکست خوردگی سے متاثر ہر حساس انسان جو حالات و واقعات اور اسباب سے نتائج متعین اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ سمجھتا تھا کہ اسلام کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو رہا ہے۔ اس عالم آشوب سانحے سے اسلام اور مسلمانوں کو بدترین نقصان پہنچا۔ کیوں کہ اصل نشانہ مسلمان ہی تھے۔ اسی لیے سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے کام کرنے کا میدان تنگ تھا اور سب سے زیادہ نا اُمیدی کی تاریکی انہی کے لیے تھی۔
آپ نے علم دین حاصل کرنے کا آغاز کیا اور پھر آپ اٹھارہ برس کی عمر میں مسلمانوں کی اس شکست ، تباہی اور زوال پر انتہائی دل گرفتہ ’’ارض اللہ واسعتہ فتہا جروا‘‘ کی قرآنی آوا ز پر ’’اللہ کی وسیع و عریض ‘‘ زمین پر کسی ایسے خطۂ ارضی کی تلاش میں سرگرداں نکل کھڑے ہوئے کہ جہاں اسلام کی ازسرِ نو آبیاری کر کے نورِ توحید کا بیج بویا جا سکے۔ آپؒ ایران سے عراق سفر در سفر، رہنمائی کے لیے حجازِ مقدس جا پہنچے اور روضۂ رسول اکرم ﷺ پر اُمت کی اس تباہی و بربادی کا پُر سوز استغاثہ پیش کیا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ بارگاہِ رسالت پناہ ﷺ سے عالمِ رؤیا میں آپ کو سر زمین اجمیر (ہندوستان) جا کر وہاں نور توحید کی شمع اُجالا کرنے کا حکم ملا۔ جب آپ نے ہندوستان کی طرف رخت ِ سفر باندھا اُس وقت ہندوستان میں دورِ جہالت اپنے عروج پر تھا اور یہاں کی معاشرتی ، مذہبی ، سیاسی اور معاشی حالت تباہ کن تھی۔ ہندوؤں کی جاہلانہ حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پورے ہندوستان کے چپے چپے پر بت پرستی اونچ نیچ کے بدترین نظام میں جکڑی ہوئی تھی۔ بے شمار معاشرتی خرابیاں ان لوگوں میں رچی بسی تھیں۔ خصوصاً عقائد کے لحاظ سے صاف نظر آتا تھا کہ ہندوستان کے سوا اور کوئی ملک ایسا نہیں جہاں لوگ سب سے زیادہ جاہل اور گمراہ ہوں اور جہاں خالق کے دھوکے میں کھلی مخلوق پرستی ہو رہی تھی۔ چرند و پرند ، حجر و شجر تک کی پرستش کی جا رہی تھی۔ ذہن انسانی کی پستی و ذلت اور جہالت کا یہ عالم تھا کہ گائے کا پیشاب پینا سب سے بڑی عبادت سمجھا جاتا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ ان بدترین مذہبی و معاشرتی حالات میں ایک خدا شناس ، صاحب ِ معرفت اور دریائے وحدت میں ڈوبے ہوئے ولی اللہ کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ اُسے یقینا نظر آیا کہ اس سے زیادہ کوئی اور خطۂ زمین ہدایت کا محتاج نہیں۔ آپ نے یہ اپنا فرض جانا کہ ان مظلوم بندگانِ خدا کی ہدایت و رہنمائی اور دست گیری کریں اور سر زمین پر غلبۂ اسلام کے لیے ان بت پرستوں کے دلوں میں توحید کا بیج بویا جائے۔ بس آپؒ بلا تامل ہندوستان میں قیام کرنے اور اللہ کے بندوں کو راہِ راست کی طرف متوجہ کرنے پر آمادہ و تیار ہو گئے۔
آپؒ نے ہندوستان کے مرکزی مقام اجمیر کو اپنی دینی تبلیغ و غلبۂ دین حق کی جدوجہد کا مستقل مرکز بنایا۔ آپ نے اس صحرا کا انتخاب اس لیے بھی کیا کہ یہاں اب تک اسلام نہیں پہنچا تھا۔ اس علاقے کے کسی باشندے کو اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا سب سے زیادہ اسی علاقے کے لوگوں کو تبلیغ و ہدایت کی ضرورت تھی۔ خواجہ غریب نوازؒ کے اس سرزمین پر قدم رکھنے اور دعوتِ توحید کی برکت سے اس بت کدے کی دھرتی پر بسنے والے مجبور ، مظلوم، ذات پات کے نظام میں جکڑے اور اونچ نیچ کے مارے ہوئے ، پس ماندہ و غربت کی چکی پاٹوں کے بیچ پسے ہوئے، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے، راجا مہاراجاؤں ، پروہتوں ، پنڈتوں ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے دھتکارے ہوئے ، بے بس اور بدنصیب ہندوستانیوں کی قسمت جاگ اُٹھی۔ دعوتِ توحید ، تبلیغ اسلام اور انسانی مساوات کی اس جدوجہد میں آپ کو بھی اسی طرح ہندو معاشرے کی بالادست و باثر طبقات کی مخالفتوں ، ایذا رسانیوں کا سامنا کرنا پڑا جو کہ دعوتِ توحید پہنچانے کے راستے میں ہر داعی کو اُٹھانی پڑتی ہیں مگر آپؒ ان کی مخالفتوں اور ظلم و زیادتی سے بالکل نہیں گھبرائے۔ اور اسلام کی سربلندی کے لیے اس تمام مخالفت کو ثابت قدم اور صبر کے ساتھ برداشت کیا۔
یہ وہ دور ہے کہ جب سرزمین ہندپر ایک طرف شہاب الدین غوری نے اپنی فوجی قوت و طاقت کے زور اور بل بوتے پر خود کو ’’سلطانِ ہند ‘‘کہلوایا۔ تو دوسری طرف اسی سال سرزمین ہند کے مظلوم اور بدنصیب باسیوں نے خواجہ معین الدین چشتیؒ کو اُن کی انسان دوستی ، غریب پروری ، سیرت کی پاکیزگی اور خداپرستی کی وجہ سے ’’سلطان الہند‘‘ کہہ کر پکارا اور آپؒکو ہندوستان کا روحانی سلطان و بادشاہ تسلیم کیا اور آپ کی یہ روحانی بادشاہت اور سلطنت آج تک قائم ہے۔
خواجہ غریب نوازؒنے ذات پات کے ظالمانہ نظام میں جکڑے ہوئے ، اونچی ذات اور نسلی تفاخر زدہ لوگوں کے ٹھکرائے ہوئے انسانوں کو اس طرح رحمت و محبت ، اور شفقت و عاطفت سے اپنے سینے سے لگایا۔ جس طرح خطرے کے وقت مرغی اپنے چوزوں کو اپنے پروں میں ڈھانپ لیتی ہے۔ خواجہ غریب نوازؒ ان مظلوم و غریب لوگوں پر ظلم کی تپتی دھوپ میں بادل کی چھاؤں اور غربت کی دہکتی آگ میں خدمت و رحمت کی گھٹا بن کر برسے۔ خواجہ غریب نوازؒ ہندوستان میں تخت و تاج کی خواہش لے کر نہیں آئے تھے وہ تو اجمیر میں ابرِ رحمت بن کر آئے تھے اور ’’انا ساگر‘‘ جیسے چھوٹے تالاب کے کنارے بیٹھ کر شرک ، گمراہی اور انسانی عدم مساوات کے تپتے صحرا میں جھلستے بھٹکتے انسانوں کے لیے رحمت و ہدایت کا ایسا بحر بیکراں بن گئے کہ جس کا فیضان آج تک جاری و ساری ہے۔
خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اپنی نیکی اور ہدایت ربانی کی تعلیمات کو کسی خاص مذہب کے ماننے والوں تک محدود نہیں رکھا۔ آپ کا ہندوستان آمد کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ یہاں کے لوگوں ، چاہے وہ مسلم ہوں یا ہندو، سکھ ہوں یا عیسائی۔ ان سب کی زندگیوں میں توحید اور ہدایت ربانی کا وہی انقلاب ِ محمدی برپا کریں۔ جو اللہ کے آخری رسول ﷺ نے دُنیا کے انسانوں کی زندگیوں میں برپا کیا تھا۔ اور آپ بھی اتباع سُنت میں غلبہ ٔدین حق کا فریضہ انجام دیں۔ اس مقصد کی خاطر آپ نے اپنے دل کے دروازے سب کے لیے کھلے رکھے۔ اور سب کو خداپرستی ، انسانیت کی خدمت ، نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی تعلیم دی۔
غیر مسلموں کے ساتھ آپ کا رویہ انتہائی رواداری اور صُلح کُل کا تھا۔ جو بھی حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کی پاک سیرت ، انسان دوستی پر مبنی حقیقی اسلامی تعلیمات اور خدا پرستی کو دیکھتا ،دین اسلام ہی کا ہو کر رہ جاتا۔
تاریخ کے اوراق اس بے مثل انقلاب کے شاہد ہیں کہ آپ کے اسی رویے اور کردار سے متاثر ہو کر ہندوستان کے نوے لاکھ غیر مسلموں نے آپ کے دست ِ حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ اسی طرح آپ نے ہندوستان کی روحانی تسخیر کا معرکہ سرانجام دیا۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپؒ نے دم توڑتے عالم اسلام کو حیاتِ نو عطا کرتے ہوئے ہندوستان میں ایک نئے عالم اسلام کی تاسیس و تشکیل فرمائی اور دُنیا میں اسلام کو ایک نئی زندگی عطا کی۔
حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی تمام تر جدوجہد ہندوستان کی سر زمین پر غلبہ دینِ حق کے لیے تھی۔ آپ اس زمین پر انسانوں کے لیے جس امن، صلح کُل، انسانیتکی خدمت ، رواداری کے مبلغ تھے وہ ہمیں آپؒ کی تعلیمات میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔
آئیے خواجہ صاحب کی ایسی ہی چند تعلیمات دہرائیں اور ان سے ہدایت انسانی کا سبق حاصل کریں۔ خواجہ غریب نواز نے ہندوستان کے بُت کدے میں توحید و رسالت ، غلبہ دین اور تصوفِ اسلام کا جو بیج بویا، وہ ایسا پھلا پھولا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان پر محبت، انسان دوستی، غریب پروری اور ہدایت و رحمت الہٰی کا گھنا درخت بن کر چھا گیا۔ اور اس درخت میں نیکی و ہدایت کے ایسے پھول کھِلے کے جن کی خوشبو سے آج پورا برصغیر پاک و ہند مہک رہا ہے۔
حکمت و دانش کا خزینہ:
٭ حضرت خواجہ غریب نواز نے ارشاد فرمایا کہ ’’چار چیزیں گوہر نایاب ہیں۔ ان کا برابر خیال رکھو، درویشی میں اظہار دولت مندی، بھوک میں اظہار سیری، غم میں اظہارِ خوشی اور دشمن سے اظہارِ دوستی۔ ‘‘
٭ انسانیت کی خدمت کا درس دیتے ہوئے خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’بھوکے کو کھانا کھلانا، غریب کی فریاد سننا اور حاجت پوری کرنا اور بھٹکے ہوئے کی مدد کرنا، دوزخ کی آگ سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ‘‘
٭ انسانوں کی عزت و احترام کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ’’گناہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا اپنے بھائی کو ذلیل کرنا۔‘‘
٭ اللہ کے دوست اور ولی کی پہچان یہ بیان فرمائی کہ اللہ کا دوست وہ ہے جس میں تین خوبیاں ہوں۔ ’’دریا جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی عاجزی‘‘
٭ فرمایا!’’ ذخیرہ اندوز اور منافع خور لوگ اپنی قوم کے جسم کو مہلک مرض بن کر دکھائے چلے جاتے ہیں۔ ان کو نیست و نابود کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ ‘‘
٭ والدین کے چہروں پر محبت سے نظرڈالنابھی خُدا کی خوشنودی کا موجب ہے۔
٭ عارف ایک قدم اُٹھا کر عرش پر پہنچ جاتا ہے اور دوسرا اُٹھا کر واپس آ جاتا ہے۔
٭ کائنات میں صرف ایک چیز موجود ہے یعنی نُور خدا اور باقی سب کچھ غیر موجود ہے۔
٭ خُدا اور انسان کے درمیان ایک ہی حجاب حائل ہے جس کا نام نفس ہے۔
٭ کائنات کی کثرت سے فریب مت کھائو۔
٭ اگر عشق خود کار رہبر نہ ہو تو وہ کبھی منزل کو نہیں پا سکتا۔
٭ اللہ خیر مجسم ہے اور اُس کی تقدیر ات ہمہ خیر۔
٭ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس قوم کے شانہ بشانہ عورتیں بھی آگے نہ بڑھیں۔
٭ یقین محکم ، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کو اپنا لیجیے ۔ آپ دُنیا میں معتبر بن جائیں گے۔
٭ اپنی ملت کو اقتصادی ، سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر منظم کرو ، پھر تم دیکھو گے کہ تم یقیناً ایک ایسی قوم بن جائو گے جسے ہر شخص تسلیم کرے گا۔
٭ آزادی کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیں ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ جو رویہ چاہیں اختیار کریں اور جو دل میں آئے کہہ گزریں بلکہ آزادی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ جسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوتا ہے۔
٭ نوجوانو! اگر تم اپنی قوتوں کو فضول کاموں میں ضائع کرو گے تو بعد میں ہمیشہ افسوس کرتے رہو گے۔
ترا کر کے آیا