فلم و شعر و ادب اور صحافت کے حوالے سے رخسانہ نور کے تمام حوالے مستند اور معتبر ہیں۔ وہ بہ یک وقت ادیبہ، صحافی، کالم نگار، شاعرہ، کہانی نویس، اسکرپٹ رائٹر اور ڈرامہ رائٹر رہی ہیں۔ اتنی خداداد صلاحیتوں کے مالک شخصیات کمال کے انسان ہوتے ہیں۔ رخسانہ نور سیالکوٹ کی ایک باپردہ کشمیری فیملی میں پیدا ہوئیں۔ انہیں بچپن سے ہی لکھنے اور شاعری کا شوق تھا۔ ان کے والد صاحب فوج میں ملازم تھے اس لیئے رخسانہ مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرتی رہی۔ سیالکوٹ سے ابتدائی تعلیم کے بعد میٹرک کوئٹہ سے کیا جس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا یہاں سے انہوں نے جرنلزم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ انہوں نے ابتدا روزنامہ نوائے وقت کی رپورٹر کی حیثیت سے کی۔ اسی دوران ممتاز صحافی عبدالقادر حسن کے ایک جریدے "افریشیا" میں بھی لکھنا شروع کیا۔ جبکہ سرور سکھیرا کے جریدے "دھنک" میں بھی لکھنا شروع کیا۔ جس کے بعد وہ جنگ لاہور سے وابستہ ہو گئیں جس میں وہ فیچر رائٹر کے طور پر ملازم بھرتی ہوئیں ان کے لکھنے کا انداز بہت عمدہ اور جاندار تھا۔ وہ اپنے فیچرز اور آرٹیکلز وغیرہ میں کسی لگی لپٹی، لالچ اور خوف کے بغیر لکھتی تھیں اس لیے عوامی اور صحافتی حلقوں میں بہت مقبول ہو گئیں۔ صحافت کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعری بھی شروع کی جس میں انہوں نے گیت، غزل، نظم اور نغمہ نگاری میں طبع آزمائی کی۔ جنگ میں ملازمت کے دوران ان کی ملک کے ممتاز فلمساز، ڈائریکٹر اور مصنف سید نور سے ملاقات ہو گئی۔ ان کا یہ رابطہ ایک دوسرے کی پسندیدگی اور پیار و محبت میں تبدیل ہو گیا اور پھر 20 اپریل 1984 میں یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
رخسانہ نور کا اصل نام ثروت تھا مگر جب کالج کے زمانے میں انہوں نے شاعری شروع کی تو اپنا نام رخسانہ کر دیا اس دوران معروف ادیب اور شاعر اعزاز احمد آذر نے ان کو مشورہ دیا کہ صرف رخسانہ مزہ نہیں کرتا اس کے ساتھ آپ ایک اور لفظ کا بھی اضافہ کریں جس پر رخسانہ نے اپنے نام کے ساتھ آرزو کا اضافہ کیا اور وہ رخسانہ آرزو کے قلمی نام اور تخلص سے شاعری کرنے لگیں لیکن سید نور سے شادی کے بعد انہوں نے خود کو رخسانہ نور کر دیا۔ چوں کہ سید نور ایک کامیاب فلمساز اور ڈائریکٹر تھے ان کو اپنی فلموں کے لیے گیت اور نغموں کی ضرورت پڑتی تھی تو انہوں نے رخسانہ نور سے کہا کہ وہ ان کی فلموں کے نغمے لکھیں جس پر رخسانہ نے فلمی نغمہ نگاری بھی شروع کی اور ان کو برصغیر پاک و ہند میں پہلی خاتون نغمہ نگار کا منفرد اعزاز حاصل ہو گیا۔ ان کے اردو اور پنجابی فلمی نغمے میں عوام میں بہت مقبول اور مشہور ہو گئے ۔ رخسانہ نور اپنے محبوب شوہر سید نور کے ساتھ بہت مطمئن اور خوش گوار زندگی گزار رہی تھی کہ ان کو اچانک یہ دھماکہ خیز اطلاع ملی کہ سید نور نے ایک فلمی اداکارہ صائمہ کے ساتھ خفیہ شادی کر لی ہے۔ پہلے تو رخسانہ نور کو یقین نہیں آ رہا تھا لیکن تحقیق کے بعد اس خبر کی تصدیق ہو گئی جس نے رخسانہ نور کو ہلا کر رکھ دیا ان کو ایسا دلی صدمہ پہنچا کہ یہ ہمیشہ ہشاش بشاش رہنے اور مسکرانے والی رخسانہ نور بجھ سی گئی اور اس طرح ایسی بیمار ہوئی کہ بستر کے ساتھ لگ گئی۔ امریکہ میں دوران علاج یہ انکشاف ہوا کہ ان کو کینسر ہو گیا ہے۔ بالآخر 12 جنوری 2017 کو لاہور میں ان کا انتقال ہو گیا۔
رخسانہ نور کے 2 شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ پہلا شعری مجموعہ "الہام " کے نام سے 1977میں شائع ہوا تھا جبکہ فلمی اور غیر فلمی شاعری پر مشتمل ان کا دوسرا مجموعہ" آ پیار دل میں جگا " 2015 میں شائع ہوا۔ رخسانہ نور اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کرتی تھیں
ان کی شاعری کے ان کی زندگی میں ہی ہندی اور گورمکھی زبان میں بھی ترجمہ ہوا تھا۔ صحافت کے شعبے میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے ان کے قریبی صحافی دوستوں میں حسن نثار، عبدالقادر حسن، سرور سکھیرا، ساقی ساجد یزدالی، ندیم سلیمی طفیل اختر، فیصل اختر اور فیاض احمد اشعر شامل تھے۔ رخسانہ نور کو پہلی خاتون نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ رخسانہ کی اولاد میں 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا شاہ ظل ہے۔ رخسانہ نور کی ایک غزل بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔
غزل
چبھن نہیں ہے مگر اضطراب کافی ہے
ہماری آنکھ کو تیرا ہی خواب کافی ہے
وہ چنتا رہتا ہے کلیاں نہ جانے کیوں دن بھر
مرے چمن کو فقط اک گلاب کافی ہے
میں اس کی یادوں کو اوڑھوں کہ پھینک دوں باہر
خیال یہ ہے کہ میرا جواب کافی ہے
کبھی تو آنکھ تمھاری بھی زیر آب آئے
مجھے تو ریت کا سراب کافی ہے
رخسانہ نور