برصغیر کی انسانی نسلیں
اب تک برصغیر پاک و ہند کا جو نسلیاتی مطالعہ ماہرین نے کیا ہے اس کے مطابق یہاں چھ نسلوں کی نشاندہی کی ہے ۔ قدیم ترین نسل نیگرو تھی جو باہر سے آئی تھی ۔ اس کے بعد کاکیشائی نسل اس سرزمین پر آئی ۔ ان کے بعد یہاں منگول نسل یہاں وارد ہوئے اور پھر یہاں رومی النسل کے لوگ آئے ۔ وادی سندھ کی تہذیب تک یہاں پانچوں نسلیں گھل مل کر ایک نسلی وحدت میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ پاکستان کے علاقے میں یہ اختلاط زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے بہ نسبت بھارت کے اس کے بعد یہاں آریا آئے ۔
وادی سندھ کے زمانے میں پاکستان کی سرزمین پر نسلی طور پر کاکیشائی عنصر کا غلبہ تھا ۔ رومی نسل عموماً دراوڑی ثقافت سے وابستہ کی جاتی ہے ۔ اس نسل کا اثر وسیع تھا ۔ منگول نسل کا اجتماع برصغیر کے شمال مشرقی کونے اور شمالی پٹی میں رہا ہے ۔ پاکستان کے موجودہ شمالی علاقوں میں اس نسل کا غلبہ اب بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ غلبہ جدید نہیں قدیم ہے اور ان کی بولیوں پر چینی تبتی لسانی گروہ سے قربت رکھتی ہے ۔
جہاں تک آریا کا تعلق ہے یہ ایک نسل کے لوگ نہ تھے بلکہ مختلف النسل قسم کے گروہ تھے ۔ ان گروہوں میں بولی زبانیں مختلف تھی مگر ملتی جلتی تھیں ۔ کیوں کہ یہ زبانیں ایک ہی لسانی گروہ سے تعلق رکھتی تھیں ۔ جسے آریہ لسانی گروہ کہا جاسکتا ہے ۔ ابھی تک آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے آریاؤں کی یہاں آمد یا وجود کا ایک بھی اثری ثبوت نہیں ملا ۔
پروفیسر اے ایل ہیشم کا خیال ہے وادی سندھ کی تہذیب کے زمانے میں اس وادی کے لوگوں کی نسل پروٹو آسٹر یلانڈ (کاکیشائی) اور رومی کے امتزاج سے بنی تھی ۔ ان کے خیال میں موہنجودڑو کی رقاصہ پروٹو آسٹر یلانڈ نسل کی نمائندگی کرتی ہے ۔ ان کے خیال میں وادی سندھ کے لوگ پروٹو آسٹر یلانڈ نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ نسل قدیم تر ماضی میں کسی وقت پورے ہندوستان پر قابض ہوگی ۔ بعد میں رومی نسل آکر اس میں مل گئی ہوگی ۔ اس کے بعد اس میں مزید نسلیں آئیں تو رومی پروٹو آسٹر یلانڈ نسلوں کے مجموعے سے مل کر دراوڑ وجود میں آئے ۔ ان کے خیال میں وادی سندھ کے شہروں میں اسی قسم کے لوگ آباد تھے جس قسم کے لوگ ان کے مغرب میں بستے تھے ۔
دراوڑ کی اصل کے والے میں بے شمال طویل بحثیں علماء انسانیات نے کی ہیں ۔ لیکن اس کے بارے میں سب سے بہتر یوری گنکو فسکی نے پیش کئے ہیں ۔ اس کے خیال میں وسطی حجری دور میں یورشیائی لوگ جو شمال مغرب سے آئی ہوئی بنیادی نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ تیزی سے نیگرو آسٹریلیائی گروہوں کے علاقے میں داخل ہوئے ۔ (یعنی پاکستان کے علاقے میں) ان دونوں کے اتصال سے وسطی حجری عہد کے آخر میں برصغیر ہندو پاک کی سر زمین پر انسانیاتی قسم دراوڑی گرہوں نے جنم لیا ۔ جس کا جنوبی یور ایشیائی )یا ہند رومی( کی اقلیتی نسل سے تعلق تھا ۔ اس کا )دروڑی گروہ کا( جنوبی ہندوستان کے موجودہ دراوڑی لوگوں سے تعلق نہیں ہے ۔
دوسرے لفظوں میں وادی سندھ کے دراوڑ قدیم حجری انسان ، رومی نسل )پروٹوآسٹریلوی نسل) کے امتزاج کا نتیجہ تھے ۔ اس کثیر الماخذ نسل کے کچھ عناصر کی ترکیبی عناصر مغربی ایشیاء سے آئے تھے ۔ لیکن وادی سندھ کی تہذیب کو مغربی ایشیاء سے لے کر نہیں آئے تھے ۔ یہ تہذیب قدیم حجری ثقافت کے قدرتی اندونی ارتقاء سے وجود میں آئی ۔ اس کی مماثلت جو کچھ مغربی ایشیاء سے ہے وہ ضمنی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ایشیاء مثلاً میسوپوٹیمیا کی تہذیب دریا سے سیراب شدہ زراعت کی تھی اور وادی سندھ کی تہذیب بھی ۔ اندرونی حالات مماثلت کی خارجی اثر و نفوذ کے باعث نہیں بلکہ اندرونی مماثلت کے باعث ہے ۔
ارض پاکستان کے قدیم دراوڑ ۔۔۔ انہیں اگر دراوڑ کہنا ضروری ہے تو ۔۔ ان کا تعلق جنوبی بھارت کے دراوڑوں سے نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے وادی سندھ کی قدیم زبان جسے بعض ماہرین نے پروٹو دراوڑی کہا ہے اس کا موجودہ دراوڑی زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کیوں کہ پرٹو دراوڑی زبانوں کا ایک دوسرے سے رشتہ کم از کم 3000 ق م میں ٹوٹ چکا تھا ۔ لیکن سندھ کے پروہت کا مجسمہ ایک ایسی نسل کی نشاندہی کرتا ہے جس میں پروٹوآسٹریلائڈ انسل اس علاقے میں پہلے سے موجود رومی اور مقامی قدیم حجری نسل کے ساتھ مدغم ہوچکی ہے ۔
بلوچستان کے مختلف مقامات پر جو مجسمے ملے ہیں اور سندھ تہذیب کے مجسمے ایک ہی نسلیاتی ذخیرے کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان کا رنگ سیاہ اور ہونٹ موٹے ہیں ۔ آنکھیں باہر کو ابل پڑتی ہیں ۔ یہ سب پروٹو آسٹریلائڈ نسل کے مجسمے ہیں ۔
جب بہت سی نسلیں تاریخ کے تسلسل میں آپس میں مدغم ہوتی ہیں تو نتیجے میں ایک ہم آہنگ ، ہم شکل کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہوتا ۔ قدیم ارثائی ذخیرے ایک دوسرے سے خلط ملط ہو کر کچھ نئی شکلوں کو جنم دیتے ہیں اور ان میں قدیم بازگشت مختلف قسم کے تنوعات کی شکل دیکھائی دیتی ہے ۔ یہی تنوع وادی سندھ کے لوگوں میں تھا اور یہی تنوع آج بھی ہے ۔ وادی سندھ کی تہذیب نے جب اس وسیع علاقے کو معاشی اور سیاسی طور پر یکجا کیا تو ثقافتی اور نسلی طور پر بھی ایک لڑی میں پرویا ۔ وادی سندھ کا جو نسلی تشخص اس وقت متشکل ہوا وہی آج بھی ہے ۔ اس بات سے تمام ماہرین اتفاق کرتے ہیں ، ہر چند ان کا آپس میں دیگر باتوں پر بنیادی اختلاف بھی کیوں ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔