برصغیر میں بہت سے قدیم قبائل مختلف کوہستانوں ، جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے ہیں ۔ اکثر یہ لوگ نہ یکجا رہتے ہیں اور نہ ان کا رہن سہن یکساں ہے ۔ یہ لوگ پہلے ویرانوں میں رہنا پسند کرتے ، مگر اب انہوں نے قصبوں اور شہروں میں رہنا شروع کیا ہے اور اب یہ رفتہ یہ قبائل دوسرے قبائل میں مخلوط ہوتے جارہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ اپنی اکثر قدیم زبان بھول رہے ہیں یا ان میں دوسری بولیوں کی آمزش ہوتی جارہی ہے ۔ اس طرح ان کے قدیم مذہب جو کہ جو کہ بھوتوں ، درختوں اور پتھر وغیرہ کی پوجا کرتے تھے ۔ دڑاوری پوجا کرتے ہوئے دیوانوں کی طرح ناچتے تھے اور انسانوں و جانوروں کی بلی چڑھاتے تھے ۔ کلاری قبائل جو خونریزی نہیں کرتے تھے وہ سورج یا باگ ناتھ بھوت وٖغیرہ کی پوجا کرتے ہیں ۔ یہ اکثر اونچی جگہ پتھر کھڑا کر کے اس درخت کی شاخ بطور بھیٹ چڑھاتے ہیں ۔ مگر اب یہ ہندوؤں زیر اثر آتے جارہے ہیں اور ان کا مذہب کو اپنا رہے ہیں یا ان کے دیوی دیوتاؤں کو ہندوؤں دیوی دیوتاؤں کا ایک روپ یا ان کے زیر دست مانا جا رہا ہے ۔ اس طرح ان کا مذہب رفتہ رفتہ برہمنیت کی شاخ بنتا جارہا ہےْ
یہ قدیمی قبائل شکل و صورت میں قد کوتاہ و سبک ، رنگ نہایت سیاہ ، چہرہ چوڑا چگا ، ہونٹ نہایت موٹے ہیں ، ناک بھی چوڑی اور نتھنی بڑی ، بال کم لیکن سر کے بال بہت اور الجھے ہوئے بلکہ گھونگرویالے ہیں ہیں ۔ ان قبائل کی خاص پہچان ان کے موٹے ہونٹ ہیں ۔ بعض قبائل کی دوسروں سے مخلوط ہونے کی وجہ سے شکل و صورت بہتر ہوگئی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ ان کا شہروں میں آباد ہونا ہے ۔ جہاں دوسرے قبائل سے میل ملاپ ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے رہن سہن میں بہتری آرہی ہے ۔ اگرچہ ان میں حبشی خد و خال ان کے قدیم نسل سے ہونے کی گواہیں دیتے ہیں ۔ مثلاً ہوبں یا لرکاکول جو مونڈا اور سونتال کے ساتھ رہتے ہیں یہ ووسرے قبائل کی نسبت شکل و صورت میں بہتر ہیں ۔ راجہ گونڈ کا خاندان جو کہ ناگ پور میں کچھ پشتوں سے آباد تھا ۔ نہایت قابل ، مہذب اور مسلمان ہیں اور ان کا رنگ اگرچہ قدر صاف ہوگیا ہے ، لیکن ان کے موٹے موٹے ہونٹ اس کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کا نسلی تعلق حبشیوں سے ہے ۔
اگرچہ ان قبائل کی شکل و صورت میں زیادہ فرق نہیں ہے اور کلاری زیادہ محنتی اور دڑاوری زیادہ لڑاکے ہیں ۔ کلاری بہت خوش مزاج اور ناچ و گانے کے شوقین ہیں ۔ یہ تمام قدیم قبائل شیر کا پنجہ بطور تعویز پہنتے ہیں اور یہ رسم ہندوستانیوں میں عام مروج ہے ۔ وسطہ ہند کے بعض ریاستوں میں دستور تھا کہ راجہ اگرچہ ہندو ہیں لیکن تلک راج کا ٹیکہ کول ، گوند یا بھیل اپنے خون سے لگاتا ہے ۔ یہ ان کی قدامت کی دلیل ہے ۔
یہ لوگ اکثر ویران جگہوں پر رہنا پسند کرتے تھے اور یہ لوگ بحر ہند کے جزیروں مثلاً جزیرہ انڈمان وغیرہ میں بھی آباد ہیں ۔ ان کی زبان ڈراوڑی ہے ۔ ان میں کارمبر تامل قبیلہ قدیم معلوم ہوتا ہے اور ملیر قبیلہ جو مشرقی پہاڑوں کی ڈھلان میں آباد ہیں اور میلاملم زبان بولتے ہیں اور بور گھرو ، کوتا پورانا ، ناریس کی شاخ راموسیوی میں تلنگو مروج ہے ۔
یہ قدیم قبائل اکثر اس پہاڑی علاقہ میں آباد ہیں جس کی حدود مغربی و جنوبی صوبجات بنگال ، بہار ، بنارس سے حیدرآباد ، مدراس اور کوہ مشرقی ڈھلوان سے مہذب ناگ پور کے وسیع علاقہ میں واقع ہیں ۔ اس علاقہ کے بارے میں مشہور ہے یہاں پہلے جنگلی اقوام آباد تھیں ۔ مگر یہاں کے ان قدیم قبائل نے ہندو مذہب اختیار کرلیا ہے ۔ اس طرح ان جنگلی لوگوں پہچان ختم کردی گئی ۔
مثلاً قوم بھورا اور چیرونی کثیر علاقہ اودھ ، بنارس و بہار میں آباد ہیں ۔ نیز بھیل ، میر۱ ، کولی اور باری راجپوتانہ اور گجرات میں رہتے ہیں ۔ بیدا یا بیدر دکن کے علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ گونڈ وسطیٰ ہند میں آباد تھے اور ان میں گونڈ بہت مشہور ہیں اور ان کی زبان تلنگو تامل و دڑاوری کی طرح ہیں ۔ کھونڈ بھی ان ہی میں شامل ہیں ۔ ان میں سے جو ناگپور کے علاقہ میں آباد ہیں ان کی زبان میں کچھ فرق ملتا ہے ۔ تاہم ہیں وہ بھی دڑاوری ہیں ۔
راج کے پہاڑوں میں آباد اور چھوٹا ناگ پور کے آس پاس جو قدیمی قبائل رہتے ہیں ان مین لرکا ، کول ، ہوس ، بھومی منڈا ، سونتال وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کی زبانیں دڑاوری سے اکثر علحیدہ ہیں ۔ تاہم دونوں زبانیں کچھ معملات میں یکساں ہیں ۔
قدیمی قبائل میں کول بہت مشہور ہے ۔ چاہے چھوٹا ناگ پور کے یا مرزا پور کے یا جے پور کے یا بمبئی کے بلکہ شملہ کے پہاڑی علاقے میں ۔ شاید کول یا قلی یعنی مزدور ہم معنی الفاظ ہیں ۔ شاید ابتدا میں یہ لفظ کولا یا کولار تھا ۔ کیوں کہ قدیم زمانے میں ہندوؤں کو کولارا کہا جاتا تھا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں سے ر خارج ہوگیا تو کولا یا کولی بن گیا ہو اور ل خارج کیا تو یہ کرکوار یا کور یا کہور بن گیا جو کہ اب مشہور ہیں ۔
جنوبی ہند اس لفظ کو کچھ فرق سے کلر کہتے ہیں اور چور بھی کلر کہلاتا ہے ۔ تاہم کلاری سے مراد شمال کی قدیم اقوام سے ہوگی ۔ یعنی ان میں اور دڑاوری کے درمیان فرق ہے ۔
گونڈ بولی میں صرف دس تک شمار کر سکتے تھے ۔ لیکن وہ صرف چار اور راجمالے صرف دو تک گن سکتے ہیں ۔ اہم یہ بات ہے کہ شمالی قبائل کول اور سنتال وغیر اگرچہ ہزاروں تک گنتے ہیں ، لیکن وہ سو نہیں گن سکتے ہیں اور ہمیشہ فلانی فلانی کوڑی گنتے ہیں ۔ البتہ کھونڈ درجن بھر گن لیتے تھے ۔
میسور میں جو لوگ جرائم پیشہ ہیں انہیں وہاں پرایا کہا جاتا ہے ۔ اس میں بیدر ، دول اور پالی گر شامل ہیں ۔ ان میں بیدر چور مشہور ہیں ۔ نیلگری کے اصل باشندے کارمنبر ہیں مگر باداگرا اور کوتا جو بپای بھی آباد ہیں ۔ تودا بھی نیل گڑی کی پہاڑ پر آباد ہیں ان کی شکل و صورت اچھی ہے مگر ہندوؤں سے قدرے مختلف ہیں ۔ اس علاقہ میں تمام پہاڑی بابشندوں کو ملیاسر کہا جاتا ہے ۔ کارمنرو ، اردلر ، پولیار اور پدامن جنگلی قبائل ہیں اور جنگل میں رہتے ہیں ۔ ان کا قد کوتا ، پریشان کن و منہ اور درختوں کے نیچے یا غار میں بود و باش رکھتے تھے ۔ جنگلی پھل ان کی خوراک ہے اور پھیڑیں بھی چراتے ہیں ، لیکن کاشت کاری کم کرتے ہیں ۔ کوہ تا عقل ہیں اور ان کا مذہب محض جادو ہے ۔ مشرقی دھلان میں مدراس کے قریب چبچیوارہ میں دریائے سنا و پلکات کے قریب چینڈور اور ویندی رہتے ہیں ۔ شاید یہ وہی چیڑر اور ناگووی ہیں جو کہ مالبار کے علاقہ میں بھی آباد ہیں ۔
وسط دکن میں وہیر اور راموس بھی آباد ہیں اور دوسرے لوگوں میں مخلوط ہوچکے ہیں ۔ ان قبائل کا اصل وطن دریائے گووادری کے شمالی جانب واقع ہے جو پہاڑی علاقہ میں گودآوری و مہان ندیوں کے درمیان واقع ہے ۔ جہاں وہ اب بھی وہ آباد ہیں ۔ دکن کے مغرب جانب وحشی کھونڈ آباد تھے جو ماضی میں انسانوں کی قربانی کرتے رہے ہیں ۔ اس کے مشرقی کی جانب پہاڑی علاقہ کے درمیان میں وحشی گونڈ بھی مشہو نہیں ہیں ۔ کھونڈوں کی غالباً مقامی باشندوں کے میل کی وجہ سے ان کی شکلیں بہتر ہوگئی ہیں ۔ گونڈ بستر کے جنگل اور دریا وین گنگا کے پاس آباد ہیں ۔ وہ اب تک وحشی اور فسادی ہیں ان رنگت سیا اور بدشکل ہیں۔ انہیں ماری بھی کہا جاتا ہے ۔ گونڈ وہاں سے شمالی جانب دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور جس قدر شمالی جانب آباد ہیں اور اب تک وحشی ہیں ۔ سنبل پور کا پہاڑی درہ گونڈوں اور شمالی قبائل کے درمیانی حد ہے ۔ پورب کی جانب گونڈوں کا ایک اور قبیلہ گور اددھپور سرگوجہ تک رہائش پزیر ہے ۔ یہ اپنی زبان بھول چکے ہیں اور ان کی زبان ہندوؤں سے مشابہ ہوچکی ہے ۔
راجہ سرگوجہ کا دعویٰ ہے وہ راجپوت ہے لیکن وہ یقیناًوہ گونڈ ہیں ۔ یہ سرگوجہ سے سوتپورہ کے تمام کوہستان میں آباد ہیں ۔ یہ کچھ عرصہ پہلے تک یعنی مرہٹوں کے عروج سے پہلے تک اس علاقہ بلکہ ناگپور ، رائے پور ، جبل پور کے ارد گر شاید الچپور اور دریائے گوداوری کے جنوبی کنارے تک ان کی حکمرانی رہی ہے اور دیو گڑھ ان کا دارالحکومت تھا ۔ مرہٹوں نے ان کو میدانوں سے بیدخل کردیا تھا ۔ لیکن پہاڑی علاقہ پر ان کی حکمرانی بدستور رہی ہے ۔ جوڑیس قبائل ضلع ساگر اور قریب کے دوسرے اضلاع میں آباد ہیں ۔ اگرچہ یہ خود کو راجپوت کہتے ہیں اور مسلمان ہوچکے ہیں ۔ لیکن یہ سب گونڈ قبیلے سے تعلق رکحتے ہیں ۔
گونڈوں کے بعد اوراون قبیلہ قابل ذکر ہے ۔ یہ اگرچہ دڑاوری ہیں لیکن کولاری قبائل کے درمیان سکونت رکھتے ہیں ۔ یہ اودیپور ، سرگوجہ اور جے پور کے مغربی کی جانب پہاڑی علاقہ میں رہتے ہیں ۔
چھوٹا ناگپور کے مرتفع کے درمیانی علاقہ کے درمیان میں مونداون منتشر حالت میں ملتے ہیں ۔ اس سے بخوبی اندزاہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے طاقت ور تھے ، مگر اب وہ کمزور ہوچکے ہیں ۔ مونڈاؤں کولاریوں کی طرح محنتی ہیں اور بنگال میں ان کی بڑی تعداد مزدوری کرتی ہے ۔ کلکتہ میں جیسا اور کلی کو ویسے ہی انہیں دہنگر بھی کہا جاتا ہے اور کلکتہ میں تمام قدیم قبائل کو دھنگر کہا جاتا ہے ۔
ان سے کچھ فاصلے پر راجمحالی ملتے ہیں جو کہ دڑاوری ہیں ۔ اگرچہ ان کے ساتھ دڑاوریوں کے مختلف قبائل ، کولاری ، ہندوستانی اور بنگالی بھی رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی ان کو مالیر کہا جاتا ہے اور یہ کلمہ پہاڑی دڑاوریوں کو کہا جاتا ہے ۔ یہ پہلے وہ ماہر چور تھے اور ان کی زمینیں گھاٹ والی ، بہاگلپور اور بیر بھوم کے ضلع میں پہاڑ کی دونوں طرف واقع ہیں ۔ وہ زمینیں انہیں اس لیے دی گئیں ہیں وہ چوریوں سے بعض آجائیں ۔ انگریزوں نے ان کی ایک بٹالین مرتب کی تھی ۔ لیکن یہ اچھے لڑاکے نہیں ہیں اس لیے وہ بٹالین ختم کردی گئی ۔
کولاری قبائل کلکتہ کے مغربی سمت ایک سو پچاس کوس دور ان کے مختلف قبائل جن میں موند ، بھومی ، سونتال اور ہویس موند ، بھومی ، سونتال اور ہویس رہتے ہیں ۔ یہ خاصے مہذب ہیں اور ان سب کی زبان و رسومات اکثر ایک سی ہیں ۔ یہ چھوٹا ناگپور ، سبگھوم ، مانوبھوم کوہستان ، بھاگلپور راحمجالی کے پہاڑی علاقے پر ، بردوان ، مدنہ پور اور کٹک میں آباد ہیں ۔ یہ سادہ نیک چلن اور راست گو قبائل ہیں ۔ ان کا علاقہ خوبصورت ہے ۔ اس علاقے میں ان تعداد روز بروز کم ہورہی ہے ۔ کیوں کہ یہ مزدور پیشہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ روزگار کے سلسلے میں مختلف کاموں جن میں نیل اور چائے کے فارموں اور آسام تک کام کرنے چلے جاتے ہیں ۔ لیکن آسام میں یہ جلد بیمار ہوجاتے ہیں ۔ کیوں کے آسام مرطوب علاقہ ہے اور ان کا آبائی علاقہ اونچا اور خشک ہے ۔ٍ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...