کسی بھی سماج میں تقسیم کا عمل عام بات ہے ۔ یہ عموماً شرفا اور عوام کے درمیان ہوتی ہے اور یہ تقسیم دنیا کے ہر معاشرے میں ہے ۔ ایران میں بھی سماج چار حصوں میں تقسیم تھا ۔ یہ تقسیم پیشہ کی بنا تھی اور کسی بھی پیشہ کی تبدیلی سے اس شاید اس کا سماجی رتبہ بڑھ جاتا تھا ، لیکن ہندوؤں کا ذات کا نظام منفرد ہے اور اتنا ترقی یافتہ شکل میں ایسی معاشرتی تقسیم دوسرے سماجوں میں ناپید ہے ۔ اگرچہ اس نظام کے ابتدائی نقوش رگ وید میں ملتے ہیں ۔ مگر اس کے لیے ورن کا کلمہ آیا ہے جس کہ معنیٰ رنگ کے ہیں اور یہ تقسیم اس وقت اتنی سخت نہیں تھی ۔ البتہ ایسے شواہد ملتے ہیں ذات پات کی تقسیم مسلمانوں کی آمد کے بعد زیادہ سخت ہوگئی ۔ جہاں مسلمانوں کا اثر و رسوخ نہ ہوا وہاں ذات کی تبدیلی کا عمل جاری رہا ۔ ۔ برصغیر میں وقت اور زمانے کے تغیرات نے ذات پات کے نظام کی جامع تعریف مشکل بنادی ۔
ابسن نے زات کی تعریف یوں کی ہے کہ کسی سماج کا باہمی علحیدہ گروہوں (ذاتوں) میں نسلی ، قبائلی ، مذہبی اور معاشی درجوں کی بنیاد پر منتقم ہوجاتا ہے ۔ جن کے باہمی تعلقات درجاتی تقسیم کی صورت میں اور روایات کی بنا پر طہ ہوچکے ہوں ۔ ذات پات کی یہ تعریف سارے ہندستان میں مروجہ ذات پات کے نظام پر منطبق ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اس سے نظام کی انفرادیت بڑی حد تک اجاگر ہوتی ہے اور بالخصوص بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مسلمان ہندوؤں کے برعکس اپنی سماجی درجاتی تقسیم کو کوئی مذہبی رنگ نہیں دیتے یا اس کو مذہب کی روشنی میں ثابت نہیں کرتے ہیں ۔ نسل یا پیشہ کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق یا امتیاز بنیادی طور پر اسلام کی تعلیم کے منافی ہے ۔ لیکن ہندوستانی مسلمان اس قسم کے سماجی امتیاز اور تفریق پر جو ذات کی ہی شکل ہے عمل پیرا ہیں ۔ ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کا رنگ مسلمانوں میں شادی بیاہ اور دیگر سماجی رسم و رواج میں بہت گہرا پاتے ہیں ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سماجی افعال بڑی حد تک ویسے ہیں جن پر ہندو ذات پات کے نظام میں عمل ہوتا ہے اور بڑی حد تک یہ ہندو اثرات اور ہندوستانی ماحول کی وجہ سے ہے ۔ ان معاملات میں بڑی آسانی سے اسلام کی اخوت اور مسوات کی بنیادی تعلیم اور ہندوستانی مسلمانوں کی مروجہ سماجی تفریق اور امیتاز اور ان کے رسم و رواج کے درمیان ہم ایک قسم کی کشمکش دیکھتے ہیں ۔
اس طرح ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کا مطالعہ کرتے کی تشکیل کے وقت ہمیں مذہبی عنصر کو جو ہندو ذات پات کے نظام کی تشکیل کے کئی عناصر ہیں ۔ کیوں کہ ہندوستانی مسلمان حالاں کہ اپنی معاشرتی زندگی میں سماجی تفریق پر عمل پیرا ہیں مگر بنیادی طور پر مساوات پر عقیدہ رکھتے ہیں اور دل سے تو نہیں تو بظاہر لازمی طور پر باہمی برادری کے نظریے کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مذہب کے علاوہ بقیہ عناصر ہندوستان کے مسلمانوں کی سماجی تقسیم پر صحیح اترتے ہیں اور اس نتیجے کو لفظ ذات اسی طرح مسلمانوں کی سماجی تقسیم پر منطبق ہوتا ہے جس طرح ہندو سماج کی جماعت اور گروہ کے لیے بڑی حد تک موزوں اور مناسب ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
مسلمانوں میں ذات پات کا نظام اپنی ساخت اور تنظیم میں کئی لحاظ سے ہندو ذات پات کے متوازی ہے ۔ طبقہ اشراف نے اونچی ہندو ذاتوں سے بہت سی رسمیں اخذ کرلی ہیں ۔ اس کے خلاف دیسی مسلمان بہت سی آبائی رسموں کو اپنائے رہے اور ان کے ارتصال کے زمانے میں مسلم سماج میں علی الترتیب تقسیم نتیجاً وجود میں آگئی اور اشراف نے اعلی طبقہ میں جگہ پائی ۔
چونکہ ہندوستانی ذات پات کی نظام بنیادی طور پر ہندوؤں سے مختص ہے اور اس کے اپنے اصول و ضوابط ہیں ۔ مسلمانوں نے یہ ضواط ہندوؤں سے لے لیے ۔ سماجی معاملے میں عملی طور پر مسلمانوں کا ذات پات کا نظام اتنا سخت نہیں ہے کہ جتنا ہندوؤں کا ۔ پھر بھی اس میں بڑی حد ترمیم و تنسیخ کی گئی ہے ۔ اس طرح دیسی مسلمانوں میں سماجی اور ذات پات کے رجحان میں تبدیلی مذہب کی وجہ سے کچھ تبدیلیاں پیدا ہوگئیں ۔ لہذا مسلمانوں کا ذات کا پات کا نظام ہندو ذات پات کے نظام کی ضمنی پیداوار اور بدلی ہوئی شکل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات کی ساخت اور اس کا تنظیمی مطالعہ اس نظام کے عملی پہلو کو سمجھنے میں بڑی مدد دے گا ۔ اس لیے ذات پات کی تقسیم کی سختی ہندوؤں سے کم ہے ۔
ہندوستان میں معاشرتی ارتقاء کے دوران مزید ذاتیں وجود میں آئیں ۔ اس وجوہات میں ایک ذات سے دوسری ذات میں شامل ہونے سے مخلوط ذاتیں پیدا ہوئیں ۔ اس میں ہجرت ، پیشے کی تبدیلی ، آبائی ذات کے درجہ سے گرنا یا بلند ہونا ، نئی مذہبی یا غیر روایتی جماعت سے اپنے کو وابستہ کرنا شامل ہے ۔ ہندو دھرم کے سماجی ڈھانچے کی اساس ذات پات کے نظام پر ہے اور اس ڈھانچے ہر ذات کا ایک مخصوص مقام ہے ۔ کسی فرد کے درجات کا فیصلہ اس کی پیدائیش سے ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہی وہ ذات کا رکن بنتا ہے ۔ ذات پات کے نظام کی مندرجہ خصوصیات میں مخصوص برادری یا سے ہٹ کر شادی بیاہ کی سخت ممانعت ہوتی ہے اور ہر پیشہ کسی ذات کے لیے مخصوص ہوتا ہے یا ذات اسی پیشہ سے وابستہ ہوتی ہے ۔
پاکستان کے علاقہ میں ذات نے یہاں خاص متاثر نہیں کیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہاں مسلمانوں کی فتوحات کی بنا یہاں پر راجپوت اور برہمنیت کا پھیلاؤ نہیں ہوا ۔ مسلمانوں سے پہلے یہاں کے باشندے سیتھی النسل تھے اور مسلمان ہونے سے پہلے بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے اس لیے یہاں سماجی طور اونچ نیچ نہیں تھی ۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں سماجی اونچ نیچ نہیں ہے ۔ سماجی طبقات میں اونچ نیچ ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے اور یہاں بھی ہے ۔ مثلا سندھ میں سب سے اونچا درجہ سیدوں کو ان کے مذہبی تقدس کی بنا پر حاصل ہے ، اس کے بعد بلوچوں کا آتا ہے جنہوں نے انگریزوں سے پہلے سندھ پر حکومت کی اور آخری درجہ مقامی یا سماٹ کا ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے یہاں چھوت چھات رہی ہے ۔ یہاں کے ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ کھاپی لیتے ہیں ۔ اس پنجاب میں سیدوں اور اس کے بعد راجپوت کا درجہ ہے ۔ لیکن دور جدید میں بہت سے مقامی قبائل نے عرب نژاد ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اس طرح بلوچستان میں بلوچ اعلیٰ ذات مانی جاتی ہے انہوں نے بھی عربوں سے اپنا تعلق جوڑا ہے ۔ یہی حالت پختون علاقوں کی ہے وہ بھی اپنے کو یہود النسل کہتے ہیں اور دعویٰ کیا کہ انہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام قبول کیا ۔
اسلام جب برصغیر میں پھیلا تو اس کو مقامی سیاسی اور سماجی ڈھانچے نے متاثر کیا اور بہت کچھ مقامی خصوصیات اپنائیں ۔ رفتہ رفتہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں پر ذات پاتوں کا مقامی اثر کہ زیر ہوگئے اور اشراف سید مغل پٹھان اور عرب و توران سے اپنی نسبت دینے لگے اور مقامی مسلمان کمرتر تصور کئے جانے گے ۔ ان کے لیے یہ جواز پیدا کیا کہ انہوں نے اسلام بعد میں قبول کیا اس لیے یہ نسب میں کم تر ہیں ۔ اس لیے مقامی مسلمان کو کمتر سمجھا جاتا تھا ۔ بعض مسلمانوں میں یہاں تک ہوگیا کہ لڑکی کو اپنی برادری یا طبقہ میں رشتہ نہیں ملتا تو وہ تمام عمر گھر پیٹھی رہتی ۔ اگرچہ انہیں اپنی برادری سے باہر اچھا رشتہ مل سکتا تھا ۔
ہندو ذاتوں کے نظام میں ادنیٰ ذاتوں میں اپنی ذات کی سماجی سطح کو اونچا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، مثلاً بعض قبائل نے چندر بنسی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ بالکل اسی طرح کا دعویٰ مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ وہ اپنے سماجی رتبہ کو بڑھانے کے لیے اس طرح کے دعویٰ کیا جاتا ہے ، مثلآ راجپوت جو مسلمان ہوئے تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ خان کا لائقہ لگایا اور پٹھان ہونے کے دعویدار ہوئے یا قصائیوں نے قریشی ہونے کا دعویٰ کیا اور جلاہوں نے انصاری بن گئے ۔ مگر ان دعوں کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انہیں اشراف کے طور پر قبول کرلیا جاتا ہے اور انہیں اشراف میں داخلے کے لیے ایک لمبی مدت اور پیشے کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تب کہیں وہ جاکر اشراف کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس کے لیے ایسا بھی ہوتا ہے نچلی ذاتوں کے لوگ اپنا سماجی رتبہ بڑھانے کے لیے اپنی قدیم رسمیں اور تصورات ترک کرکے اونچی ذاتوں کے رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں ۔ مثلا ان کی عورتیں پردہ نہیں کرتی ہیں تو پردہ کرنا شروع کردیتی ہیں یا شادی بیاہ اور جنازے کی نماز کی ادائیگی کے لیے کسی بڑے اور باعزت مولوی کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔ ۱۹۳۱ کی مردم شماری میں نیچ ذاتوں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنا سماجی رتبہ بڑھانے کی کوشش میں نئے نام اختیار کئے ۔
ان میں تین مسلمان ذاتوں کے نام شامل ہے (۱) جولاہے جو انصاری بن گئے (۲) مراثی جنہوں نے قریشی ہونے کا دعویٰ کیا (۳) قصاب جنہوں نے قریشی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اب مسلمان برصغیر میں چار طبقوں میں تقسیم ہوگئے (۱) اشراف یعنی عرب ، فارس ترکستان اور افغانستان سے اپنا نسلی تعلق جوڑتے تھے ۔ (۲) اونچی ذات کے ہندو جو مسلمان ہوگئے تھے ۔ (۳) مقدس پیشہ ور ذاتیں (۴) نچلی ذاتیں مثلاً بھنگی ، چمار وغیرہ دوسری ادنی درجے کی ذاتیں ۔ راجپوتوں کے علاوہ ایسی بہت سی پیشہ ور ذاتیں ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا ۔ ان کو تین اقسام شمار کیا جاتا ہے ۔ (۱) بعض برادریوں نے مکمل طور پر اسلام قبول کرلیا ۔ مثلاً آتش باز ، بھانڈ ، جلاہے ، مراثی ، قصاب اور فقیر وغیرہ (۲) بعض برادریوں کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کیا مگر ان کی برادری کے کچھ لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا (۳) بعض برادریوں کے کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور اکثریت ہندو رہی ۔
اب مسلمان دو طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں (۱) وہ لوگ جو سید ، شیخ ، پٹھان اور مغل کہلاتے ہیں ۔ (۲) دیسی لوگ جن کے اجداد اسلام لے آئے تھے اور یہ اپنے پیشوں سے پہچانے جاتے ہیں ۔ برصٖغیر میں مذہبی پیشوا عموماً سید کہلاتے ہیں اور ان کو حقیقی ذات کوئی بھی ہو یہ اموماً تصوف کے کسی سلسلے سے ان کا تعلق جوڑ لیتے ہیں اور یہ تعلق رفتہ رفتہ ان کی ذات سید ہو جاتی ہے اور مذہبی پیشوائی میں اس طبقہ کی ہندو برہمنوں کی طرح اجارہ داری ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کوئی پیشوا ور خاندان کا کوئی فرد کوئی باعزت اختیار کرلیتا ہے تو وہ اس کی برادری میں عزت ہوجاتی ہے ، یہ بھی ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ برادری سے ناطہ ٹور کر اپنے ہم پیشہ افراد میں رشتہ جوڑ لیتے ہیں ۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کسی قصائی نے اپنی اولادوں کو پڑھایا اور سب لڑکے پڑھ لکھ کر سرکاری ملازمت میں ہوگئے تو انہوں نے قصائیوں سے تعلقات ختم کرلیے اور نئے رشتہ ناطہ قائم کرلیے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے نیچ ذات سے لڑکیاں لے لیتے ہیں مگر انہیں لڑکیاں دینا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ یہی طریقہ ہندوؤں میں بھی رائج ہے وہ کم تر سے لڑکی لیتے ہیں لیکن دیتے نہیں ہیں ۔
ٍ موجودہ دور میں پست ذات کا کوئی لڑکا قابل نکلا اور کسی اچھے عہدے یا کاروبار ہونے کی صورت میں اسے اونچی ذات والے بھی لڑکی دیتے ہیں باشرطیکہ اس نے اپنا طرز رہائش بدل لیا ہو ۔ لیکن یہ بھی دیکھا ہے نیچ ذات کے افراد اپنی برادری کو بہت کم چھوڑتے ہیں ۔ اس کے وجہ یہ ہے کہ برادری ان کو جو عزت دیتی ہے ان کو احساس ہوتا ہے کہ کہیں اور یہ عزت نہیں ملے گی ۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ فرد اپنی برادری کے سرگردہ فرد بن جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا برادری کہ وہ افراد اپنی توقیر کی وجہ سے سماجی کارکن یا سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں خاص کر اپنی برادری کے اجمتاعی کاموں میں ۔ اگرچہ ان کو سماجی شعور نہیں ہوتا ہے مگر جب کوئی مسلہ اٹھتا ہے تو یہ آگے ہوتے ہیں ۔ یہ میرا تجربہ ہے جہاں برادریاں اور نیچ ذات کے لوگ رہتے ہیں وہاں ہر وہ فرد جو ذرا پڑھ لیا ہے سماجی کارکن یا سماجی تنظیم بنالیا ہے ۔ میرے شہر کے ایسے ہی علاقے میں ایک زمانے میں جو میٹرک کرلیتا تھا وہ سماجی تنظیم بنالیتا تھا ۔ سیاسی حلقوں میں ان کو اپنی برادری میں عزت کی وجہ سے اہمیت دیتے تھے ۔
دیکھا یہ گیا ہے بہت سے راجپوت مسلمان قبائل وہ اکثر نیچی ذات کے لوگوں سے تعلقات رکھنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ وہ مسلمان ہونے سے پہلے اپنی برادری میں شادی نہیں کرتے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد بھی رشتہ کے یا تو اشراف سید شیخ مغل پٹھانوں میں شادی کرد دیتے ہیں ۔ لیکن نیچ ذاتوں میں شادی نہیں کرتے ہیں ۔ بہت سی برادریاں ایسی ہیں جو کہ اپنی برادری سے باہر شادی نہیں کرتی ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے وہ رشتہ ہندوؤں سے قائم کرلیتے ہیں اتر پردیش کے مغربی اضلاع میں ایسے خاندان بھی ملتے ہیں جن کے رشتہ دار ہندو ہیں ۔ مسلمان ہونے والے راجپوت میں ایسا رواج ہے کہ ہو مورثی ہندوانہ رسموں پیروی کرتے ہیں اور بعض حالات میں یہ بھی ہوتا ہے کہ فسٹ کزن میں شادی نہیں کرتے ہیں ۔ بعض حالات میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ کی طرف سے کسی گوت میں دور کا رشتہ ملتا ہے تو بھی شادی نہیں کرتے ہیں ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ برصغیر کے معاشرے میں ذاتوں کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ برصغیر میں خاندان پر معاشرے کی بنیاد ہے اور خاندان کا کوئی فرد اپنے آبااجداد سے جدا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ فرد کوئی چیز نہیں تھا ، فرد کوئی خالص انسان نہیں تھا ، بلکہ وہ ماں باپ کی اولاد اور اس کے پیچھے کی پشتیں ، جن سے وہ پیدا ہوا ہے اور اس کے آگے کی وہ جھولیں جو اس کے بعد آنے والی ہیں ۔ یہی وجہ ہے ہمارے یہاں ذات اور قبیلہ کی اہمیت ہے اور فرد کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ یہاں مسلمان ہونے والے پہلے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ہمارے یہاں ذات اور قبائلی نام لائقہ کی صورت میں لازمی لگانے کا رواج ہے ۔ اس کے پیچھے یہ نظریہ ہے کہ فرد کچھ نہیں ہے سب کچھ خاندان یا قبیلہ ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔