14 مارچ 1987 یوم وفات
پیر علی محمد راشدی صاحب ،برصغیر کے مشہور ادیب، مصنف، صحافی، شاعر، دانش ور، سیاستدان اور سفیر
پیر سید علی محمد راشدی صاحب کمال شخصیت کے مالک تھے وہ ایک باکمال صحافی، سیاستدان، شاعر، مصنف، کالم نگار اور کامیاب ترین سفیر تھے ۔ پیر صاحب 5 اگست 1905 کو ضلع لاڑکانہ سندھ کے ایک گائوں " بہمن " میں سید حامد شاہ راشدی کے گھر میں پیدا ہوئے تھے وہ نامور شخصیت سید حسام الدین راشدی کے بڑے بھائی تھے ۔ دلچسپ بات یہ کہ پیر علی محمد راشدی صاحب نے باقاعدہ طور پر کسی بھی اسکول، مدرسے یا کالج وغیرہ سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی ۔ انہوں نے سندھی، اردو ،عربی اور انگریزی تعلیم مختلف اساتذہ سے پرائیویٹ طور پر حاصل کی اور بہت بڑے عالم بن گئے ۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں اخبارات میں مضامین لکھنے کا آغاز کر دیا ۔ وہ 1924 میں روزنانہ سندھ نیوز کراچی کے ایڈیٹر مقرر ہوئے جبکہ 1925 میں انہوں نے کراچی سے ہفت روزہ الحزب جاری کیا جس کے ایڈیٹر وہ خود تھے۔ وہ 1926 میں سندھیوں کی واحد سیاسی تنظیم " محمڈن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے والد صاحب سر شاہ نواز بھٹو اس تنظیم کے صدر تھے ۔ پیر صاحب سکھر سے شایع ہونے والے روزنامہ الامین اور روزنامہ سندھ زمیندار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے جبکہ 1933 میں انہوں نے کراچی سے اپنا اخبار روزنامہ ستارہ سندھ جاری کیا ۔
پیر علی محمد راشدی صاحب 1934 میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے اور اس پارٹی کے صدر سر شاہ نواز خان بھٹو تھے ۔ 1936 میں انہوں نے کراچی سے اپنا ایک اخبار صبح سندھ جاری کیا ۔ پیر صاحب نے سندھ کو بمبئی سے الگ صوبہ بنانے کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا ۔ 1938 میں انہوں نے کراچی سے اپنا ایک انگریزی ہفت روزہ اخبار سندھ وائس جاری کیا جبکہ اس سے قبل سائیں جی ایم سید کے تعاون سے انہوں نے کراچی سے روزنامہ قربانی جاری کیا ۔ 1946 میں انہوں نے " فریاد سندھ " کے نام سے اپنی ایک کتاب شایع کی 1949 میں وہ پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے 1948 میں وہ روزنامہ سندھ آبزرور کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1949 میں ہند پاک پریس کے صدر منتخب ہوئے ۔ 1955 میں سندھ کے وزیر صحت وزیر اطلاعات اور نائب وزیر اعلی مقرر ہوئے ۔ وہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بھی مقرر ہوئے ۔ وہ چین اور فلپائن میں پاکستان کے سفیر بھی تعینات ہوئے ۔ فلپائن کی حکومت نے ان کو بہترین سفارتکاری پر اپنے ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز " آرڈر آف سکارتو " عطا کیا ۔ پیر صاحب نے 1963 سے اردو کے سب سے بڑے اخبار جنگ میں مشرق و مغرب کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا جس کو بہت پسند کیا جاتا اور شوق سے پڑھا جاتا تھا ۔ ان کی 2 کتابیں " ون یونٹ کی کہانی " اور " اھی ڈینھن اھی شینھن " بہت مشہور ہیں ۔ انہوں نے سندھی زبان میں شاعری بھی کی لیکن انہوں نے اپنی شاعری کی کوئی کتاب نہیں چھپوائی ۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی برصغیر پاک و ہند کی اس نامور شخصیت کا 14 مارچ 1987 میں انتقال ہوا ۔