موجودہ پاک انڈیا کشیدگی کے دوران میں نے دونوں اطراف کی میڈیا کو باریکی سے واچ کیا اور بہت حیران ہوا.نہ فقط حیران ہوا بلکے مجھے مذکورہ حوالے سے کئی جگہوں پے, اپنے خیالات میں بھی ترمیم کرنا پڑی!
(1) پہلے میرا خیال تھا کہ ھندوستان جس طرح تعلیم,ٹیکنالوجی,معیشت وغیرہ کے اعتبار سے ھم سے آگے ہے,اسی طرح قومی بصیرت,اخلاقی مزاج اور اجتمائی انسانی اقدار کے موازنے میں بھی وہ ھم سے آگے ہوسکتا ہے مگر موجودہ کشیدگی میں ھندوستانی بطور قوم, ہمیں انتہائی متعصب,جنونی,غیرحقیقت پسند,افواھ ساز,تنگ نظر,اوھام پرستی کی حد تک مذھبی,خوشفھمیوں کے مارے جذباتی,غیر امن پسند اور بیحد غیر ذمیوار نظر آئے.اس دوراں میڈیا پے ہمیں ضمیر کی آوازیں بہت دبی دبی محسوس ہوئیں! شاید سطحی ذہنیت کے ھجوم میں,صافگوئی خود کو بھی غیر محفوظ سمجھہ رہی تھی!
(2) پہلے میں برصغیر کے امن کو اسلامی ریڈیکل عناصر سے سخت خطرہ لاحق سمجھہ رہا تھا مگر اب مودی ماڈل ھندوتا سے بہت پریشان ہوں! پہلے میں بندوق کی نالی سے نکالے ہوئے اسلام سے ائٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ سمجھہ رہا تھا مگر اب گائے کی پیشاب سے پویتر ہونے والی ھندو انتہا پسندی سے ائٹمی تنصیبات کو غیر محفوظ سمجھہ رہا ہوں!
ایک سو سال پہلے ھندوتا کی جس شکل نے پروان چڑھنا شروع کیا تھا اور قائد اعظم جیسے کھلے ذہن والے لیڈر کو علیحدہ ہونا پڑا تھا,وہ ہندوتا مودی ماڈل پے اکتفا کرے گی یا پھر پال ٹھاکرے سے آگے بھی کوئی ماڈل متعارف ہونے والا ہے,جس کے موڈ پے یے خطا اپنے سانس گنے گا!? یہ سوالات آجکل ہر سنجیدہ ذہن کو پریشان کر رہے ہیں.
کچھ لوگ یے کہہ کر ان سوالات سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ اچھے برے لوگ دونوں اطراف موجود ہیں,مگر میرے لئے سب سے افسوسناک پہلو یے ہے کہ انڈیا میں مودی کی انتہا پسند سوچ کی بیتحاشہ مارکیٹنگ موجود ہے.جس نے اسے گجرات کی وزارت اعلی سے بھارت کی وزارت عظمی تک پہنچایا ہے.امن دشمنوں کی موجودگی سے زیادہ خطرہ ایسے لوگوں کے بااثر ہونے میں چھپا ہوتا ہے.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...