بار کونسلز اور نوجوان وکلاء کا استحصال
جب ایک نوجوان وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پیشہِ وکالت سے منسلک ہوتا ہے تو زیادہ تر نوجوان وکلاء کو شروع دن سے ہی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ عام طور ایک رائے قائم ہوچکی ہے کہ پہلے پانچ سال پیشہِ وکالت میں بہت بھاری ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان وکلاء کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ بات سب نوجوانوں کے لئے نہیں ہے کیونکہ چندنوجوان وکلاء کا تعلق مستحکم گھرانوں سے بھی ہوتا ہے لیکن یہ تعداد کافی کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ پیشہِ وکالت کے ابتدائی دورکی مار کھانے والوںکے مندرجہ ذیل محاورے کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی جارہی ہے ۔
وکیل جب بوڑھا ہوتا ہے
تب وکالت جوان ہوتی ہے
چند روز قبل نوجوان وکلاء نے بار کونسلز سے اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے پنجاب بار کونسل کے باہر پرامن احتجاج کی کال دی جس میں سینکڑوں نوجوان وکلاء شریک ہوئے اِس دن پنجاب بار کونسل کا اجلاس جاری تھا ۔پرامن احتجاج کرنے والے نوجوان وکلاء اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے بلڈنگ کے اندر داخل ہوگئے جس پر چندپنجاب بار کونسل کے ممبران کے ساتھ نوجوان وکلاء کی تلخ کلامی ہوگئی اِس طرح چیئر پرسن ایگزیکٹو کمیٹی محترمہ بشریٰ قمر نے 30نوجوان وکلاء کے وکالت کے لائسنس معطل کردیئے مگر یہ اصل تعداد 29تھی کیونکہ ایک نوجوان وکیل کا نام دو بار لکھا گیا تھا جبکہ اِس میں ایک دو سینئر وکلاء کے نام بھی شامل تھے جن کے مطابق وہ موقع پر موجودہی نہیں تھے اِس کے علاوہ فہرست میں چند ایسے نوجوان وکلاء کے نام بھی شامل ہیں جن کے مطابق وہ بھی موقع پر موجود نہ تھے شائداِیسی فہرست مرتب کرنے کا مقصدکسی کی طر ف سے اپنی ذاتی رنجش کا غصہ نکالنا نہ ہو!
پنجاب بار کونسل کے اِس اقدام کے بعد پاکستان بار کونسل نے معطل کیے گئے تمام لائسنس فوراً بحال کردیئے کیونکہ پنجاب بار کونسل میں پروفیشنل گروپ اور اُن کے حمایتی جبکہ پاکستان بار کونسل میں انڈیپنڈنٹ گروپ برسراقتدار ہے اِس معاملے کے بعد نوجوان وکلاء کے جائز مطالبات کی منوانے کی کوشش وکلاء سیاست کے روح ِرواں دونوں بڑے گروپوں کی نظر ہوگئی ہے جس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ شائد نوجوان وکلاء اپنے جائز مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے مگر وہ اب بھی پر عزم ہیں اور اِ س کوشش کو’’ینگ وکلاء محاذ‘‘کے نام سے تحریک کی شکل میں بدلنے کی تیاری کررہے ہیں۔
اگر نوجوان وکلاء کے مطالبات کی بات ہے تو اُن کے مطالبات میں (1)Intimationکے امتحان کی پرانے طریقہ کار کے تحت بحالی (2)لائسنس فیس میں کمی(3)نوجوان وکلاء کو ماہانہ وظیفہ کی فراہمی ہیں جو بہت ہی جائز مطالبات ہیں ۔اِن مطالبات کے حوالے سے میری بات چیت نوجوان وکلاء کے سر گردہ رکن شاہد محمود سے ہوئی جبکہ پنجاب بار کونسل میں حزب اختلاف کے رکن اور انڈیپنڈنٹ گروپ کے رہنما سید فرہاد علی شاہ کے مطابق اِس وقت Intimationامتحان کا پرانا طریقہ کار ہی چل رہا ہے جسے تبدیل نہ کیا جائے ۔لائسنس فیس میں گروپ انشورنس اور پی ایل جے کی ادائیگی کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ ’’اختیاری ‘‘کیا جاسکتا ہے اِس طرح جس کی مرضی ہوگی وہ یہ ادائیگی کرے گااور جس کی مرضی نہیں ہوگی وہ نہیں کرے گا۔
جہاں تک پنجاب بارکونسل کی طرف سے نوجوان وکلاء کے لائسنس معطل کرنے کی بات ہے تو ’’ماں کادرجہ‘‘ رکھنے والی بار کونسل کو ایسے نامناسب اقدام سے گریز کرنا چاہئے تھابلکہ نوجوان وکلاء کی بات سننی چاہئے تھی کیونکہ ہر صوبائی بار کونسل کے ممبران کا انتخاب عام وکلاء کے ووٹوں سے ہوتا ہے اور 2019بھی الیکشن کا سال ہے ۔ پنجاب بارکونسل کا موقف ہے کہ وہ نوجوان وکلاء کو ’’ ماہانہ وظیفہ‘‘ نہیں دے سکتی کیونکہ حکومت بار کونسل کو بہت کم ــ’’فنڈ‘‘ فراہم کرتی ہے جبکہ لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973میں واضح طور پر لکھا ہے کہ حکومت بار کونسل کے فنڈ کے لئے بجٹ میں حصہّ رکھے گی ۔
دوسری طرف پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینٹ کی طرز پر پاکستا ن بار کونسل کے الیکشن میں بھی ووٹوں کی خرید و فروخت یا ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘ ہوتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ بار کونسل کا ممبر منتخب ہونے کا کوئی نا کوئی تو فائدہ ضرورہوتا ہے جس کی وجہ سے آئندہ الیکشن 2019میںصرف لاہور کی 16 سیٹوں پرامیدواروں ایک بہت بڑی تعداد الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی خاص وجہ وکلاء مسائل کا حل نہیں بلکہ پاکستا ن بار کونسل کے الیکشن میں ہونے والی ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘کی مد میں ووٹوں کی کروڑوں روپے میں سودا بازی سمیت دیگر مراعات اور TA/DAکا حصّول ہے۔
اِن حالات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پربار کونسلز کی طرف سے عام وکلاء کی فلاح و بہبودکے لئے اب موثر اقدامات کرنے کا وقت آگیا ہے ۔یہ مسئلہ صرف لیگل ایڈوائزریوں کی منصفانہ تقسیم سے ہی حل ہوسکتا ہے کیونکہ عام وکلاء جن میں نوجوان بھی شامل ہیں ووٹ دے کر اپنے جن نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں وہی منتخب ہوکر اُن کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔قانون کے مطابق ایک وکیل 3سے زائد لیگل ایڈوائزریاں نہیں رکھ سکتا مگر یہاں ایک ایک چیمبر کے پاس درجنوںلیگل ایڈوائزریاں ہیں مگر نوجوانوں کے ہاتھ خالی ہیں اوراِن کے ساتھ یہ عمل ناانصافی کے مترادف ہے ۔اگر اب بھی ایسے اقدامات نہ کیے گئے جن سے نوجوان وکلاء کا استحصال ختم ہوجائے ورنہ اِس کے نتائج آئندہ بار کونسل الیکشن میں نظر آئیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔