::: باقر مہدی کی مزاحمتی اور باغیانہ تنقید اور ان کی کتاب " شعری آگہی" :::
باقر مہدی نام اور تخلص باقر ہے۔۱۱؍فروری۱۹۲۷ء کو ردولی ،ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جعفر مہدی اردو مرثیے کے نامور شاعر تھے۔ایم اے(معاشیات) لکھنؤ یونیورسٹی سے ۱۹۵۲ء میں کیا۔ ایم اے (انگریزی ادب) بمبئی یونیورسٹی سے ۱۹۶۷ء میں کیا۔۱۹۷۵ء میں بمبئی سے رسالہ ’’اظہار ‘‘جاری کیا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’شہر آرزو‘، ’کالے کاغذ کی نظمیں‘، ’ٹوٹے شیشے کی آخری نظم‘(شعری مجموعے)، ’نیم رخ‘(خاکے) ، ’آگہی وبے باکی‘، ’تنقیدی کش مکش‘(تنقیدی مجموعے)، ’شعری آگہی‘۔ ’تنقیدی کشمکش ‘ پر یوپی اور مہاراشٹر اردو اکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔ باقرمہدی ۲۳؍ستمبر۲۰۰۶ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:200۔ باقر مہدی مرحوم کی ایک اور نظریاتی تنقیدی کتاب "تین رخی نظریاتی، ادبی، تنقیدی کشمکش" بھی ھے جواصل میں اردو میں ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے ۔۔۔ تکونی فکری اختلافات اور مسائل پر وہ لکھے ھوئے مضامین ہیں ۔ باقر مہدی مرحوم کی تیں/3 کتابیں " سات ادھورے خاکے" ۔۔۔۔۔" کچھ راجندر سنگھ بیدی کے بارے میں" ۔۔۔۔" ترقی پسندی سے جدیدیت تک" ابھی زیر ترتیب ھی تھی کا ان کا انتقال ھوگیا۔ باقر مہدی سابق ترقی پسند ہیں پھر ان کا جدیدیت کی طرف رجحان ھوا۔ مگر اپنے باغی اور احتجاجی مزاج کے سبب جدیدیت سے بھی بیزار رھے۔ اور انھوں نے نظریات اور آئیڈیالوجی سے پرے رہ کر اپنے مزاج کے تحت تنقید لکھی۔ باقر مہدی کی زیر نظر منتخب تنقیدی مضامین کا مجموعہ "شعری آگہی" میں پندرہ (15) شامل ہیں۔ جو 1956 سے 1999 تک اردو کے ادبی جرائد میں پڑھے اور سیمناز اور کانفرسوں میں پڑھے گئے اس کتاب کے متعلق باقر مہدی نے لکھا ھے۔"۔۔۔ یہ میرا پہلا منتخب تنقیدی مجموعہ ھے۔ جس کا انتخاب خیری ( باقر صاحب کی اہلیہ مرحومہ) نے کیا اور اس کا خرچ بھی برداشت کیا ھے۔ میں نے مدتوں کی کوشش کے بعد خود تنقیدی احتساب کا ہنر سیکھ لیا ھے۔ اس لیے کسی قسم کی خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا نہیں ھوں۔ یہ کسی قسم کی نہ تو احساس برتری یا احساس کمتری کا عذاب ھے۔ بلکہ خود فہمی کا مشکل ترین مرحلہ ھے۔ مجھے خوشی ھے کہ میں نے کسی طرح اس "پل صراط" گزر سکا ہوں۔ ہاں یہ اعتراف ضروری ھے کی شیام لال صاحب سے ملاقاتوں کے نتیجے میں یہ " ہنر" مجھے حاصل ھوا۔"۔۔۔۔ " شعری آکہی" میں مخلتلف شعرا کے متعلق اچھونے انداز میں لکھا گیا ھے۔ جس کو قاری بہت دلچسپی سے پڑھتا ھے۔اور اس کی فکر اپنے طور کر سوچنے کا قصد کرتی ھے۔ ان مضامین کا لسانی لہجہ شاعرانہ نہیں ھے بلکہ اس کا لسانی اور اظہاری ڈھانچہ عقلی اور منطقی ھے۔ جو قاری کے کو ساتھ بیھٹا کر اس سے باتیں کرتا ھے۔
حقانی القاسمی نے اپنے سفر نامے "ردولی کا تخلیقی آہنگ" میں لکھا ہے" باقر مہدی نے تنقید میں جہاں فکری سطح پر نئے اور باغیانہ تجربے کیے ۔۔۔۔۔۔۔ باقر مہدی ہماری زبان بریدہ اور نارسیدہ اردو دنیا کے سب سے بڑے آؤٹ سائیڈر تھے۔سکون، ٹھہراؤ، توازن، راہ و رسم سے مناسبت باقر مہدی کی شاعری اور تنقید دونوں کا شناس نامہ نہیں بن سکتے۔ ایک مستقل اضطراب اعصاب اور حواس پر پیہم دستکیں دیتی ہوئی، دل و دماغ کو پریشان کرتی ہوئی اور اپنے اندرونی پیچ و تاب سے نمودار ہوتی ہوئی آگہی باقر مہدی کی نثر و نظم دونوں کا امتیازی وصف کہی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اخلاقی طور پر اپاہج ایک مصلحت کوش دنیا میں ایک زندہ شعور، ایک بے چین اور برہم شخصیت کو بہرحال بچائے رکھا۔‘
باقر مہدی کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’آگہی و بے باکی (1965)، تنقیدی کشمکش (1969)، شعری آگہی (2000)، تین رخی نظریاتی ادبی تنقیدی کشمکش (2003) اس کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے ادب کی تعبیر و تفہیم میں اپنا ایک الگ زاویہ نظر اختیار کیا تھا اور انہوں نے اس راستے پر چلنے کی کوشش ہی نہیں کی جس پر پہلے ہی ہزاروں پاؤں پڑ چکے ہوں۔ باقر مہدی نے ایک ایسے وقت میں جب یگانہ اردو میں معتوب اور مقہور کردار بن چکے تھے ان کی شخصیت کے حوالے سے مضمون لکھا اور برملا یہ اعلان کیا کہ میر و غالب کے بعد اردو غزل کا تیسرا اہم نام یگانہ چنگیزی ہے۔ باقر نے مضمون میں لکھا کہ ’یگانہ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان بن سکتا ہے۔ اگر اقبال کی شاعری بقول سرور صاحب ارضیت کا عہدنامہ جدید ہے تو یگانہ کی شاعری اردو میں ایک باغی کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے۔ جس کی بنیاد مانگے کے اجالے پر نہیں رکھی گئی تھی جس کا سرچشمہ خود یگانہ کی شخصیت ہے،۔"{ " قندیل" 14 اپریل 2018 }۔
کتاب کے شروع میں یگانہ چنگیزی کا یہ شعر درج ھے جو اس کتاب کی اصل بین المنعویت یا اس کا اصل " مقالہ" ھے۔
۔۔۔نہ خداؤں کا نہ خدا کا ڈر، اے عیب جانئے یا ہنر
وہی بات آئی زبان پر جو نظر پہ چڑھ کے کھری رہی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔