ڈیئر اظہار! آج محبوب صدیقی کراچی میں چل بسے۔ اس دور میں جو میڈیا کے بنائے ہوئے شاعروں کا دور ہے‘ وہ آخری شاعر تھے جو شاعری میں زندگی کرتے تھے۔ اُس شاعری میں جسے وہ لکھتے تھے اور محسوس کرتے تھے۔
(جاوید علی خان)
یہ ای میل رات گئے موصول ہوئی‘ تب سے سوچ رہا ہوں‘ آج کتنے لوگ محبوب خزاں کو جانتے ہیں! ہر جینوئن شاعر تو ان سے متعارف ہے لیکن کیا اردو شاعری میں دلچسپی لینے والے تمام لوگوں نے ان کے بارے میں سنا ہے یا انہیں پڑھا ہے؟ ہرگز نہیں! اس کی ذمہ داری اُس میڈیا پر تو ہے ہی‘ جو نا شاعروں کو شاعر بناتا ہے لیکن خود محبوب خزاں پر بھی تھی اس لیے کہ وہ ساری زندگی تشہیر تو دور کی بات ہے تعارف سے بھی گریزاں رہے۔ اب یاد نہیں‘ یہ شعری بیٹھک فاطمہ حسن کے گھر کراچی میں ہو رہی تھی یا قمر جمیل کے ہاں‘ ہم دو تین دوستوں نے محبوب خزاں کو ان کے گھر سے لیا ۔ راستے میں سختی سے تاکید کی کہ قمر جمیل کے سامنے ان کے‘ یعنی محبوب خزاں کے شعری مجموعے کی اشاعت کا ذکر بالکل نہ کیا جائے کہ قمر جمیل پیچھے پڑ جاتے ہیں!
ایک ہی مجموعۂ کلام شائع کیا۔ اتنا وقیع کہ اردو شاعری میں بلند مقام حاصل ہوا۔ غالباً ساٹھ کا عشرہ تھا جب تین شعرا نے اپنے اپنے شعری مجموعے ایک کتاب کی صورت میں شائع کیے اور اس ایک کتاب کا عنوان ’’تین کتابیں‘‘ رکھا! اس میں محب عارفی کی ’’چھلنی کی پیاس‘‘ تھی‘ قمر جمیل کی ’’خواب نما‘‘ اور محبوب خزاں کی ’’اکیلی بستیاں‘‘۔ ’’اکیلی بستیاں‘‘ نے اس وقت کے شعری پیش منظر پر غلغلہ برپا کردیا۔ کئی اشعار ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئے۔
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے یہ کون
جینا وعدہ خلافی ہے
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
زیرِ لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
جو کھیل جانتے ہیں ان کے اور ہیں انداز
بڑے سکون بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں
خزاںؔ کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر
تھوڑی بہت انہی سے شرافت خریدیے
یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو
محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا
کچھ ایسی بات ہے انکار بھی کرتے نہیں بنتا
اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے
یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے نہیں بنتا
سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کسی ہے کہ دنیا رگوں میں چلتی ہے
تمہیں خیال نہیں کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے لیکن اداس چلتی ہے
پلکوں پر حسرت کی گھٹائیں ہم بھی پاگل‘ تم بھی
جی نہ سکیں اور مرتے جائیں ہم بھی پاگل‘ تم بھی
دونوں اپنی آن کے سچے دونوں عقل کے اندھے
ہاتھ بڑھائیں پھر ہٹ جائیں ہم بھی پاگل‘ تم بھی
ان کی شہرۂ آفاق نظم ’’اکیلی بستیاں‘‘ اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نظم ہے۔ کیا اچھوتا اسلوب ہے اور کیا سحر طاری کر دینے والا ڈِکشن ہے۔ حسن اور عشق سے لے کر معاشرت‘ رواج اور معیشت تک‘ ہر موضوع چودہ سطروں والی اس نظم میں در آیا ہے۔ غنائیت اس قدر کہ جب بھی پڑھی جائے‘ نیا لطف آئے:
بے کس چمبیلی‘ پھولے اکیلی‘ آہیں بھرے دل جلی
بھُوری پہاڑی‘ خاکی فصیلیں‘ دھانی کبھی سانولی
جنگل میں رستے‘ رستوں میں پتھر‘ پتھر پہ نیلم پری
لہریلی سڑکیں‘ چلتے مناظر‘ بکھری ہوئی زندگی
بادل‘ چٹانیں‘ مخمل کے پردے‘ پردوں پر لہریں پڑی
کاکل پہ کاکل‘ خیموں پہ خیمے‘ سلوٹ پہ سلوٹ ہری
بستی میں گندی گلیوں کے زینے لڑ کے دھما چوکڑی
برسے تو چھاگل ٹھہرے تو ہلچل راہوں میں اک کھلبلی
گرتے گھروندے‘ اٹھتی امنگیں‘ ہاتھوں میں گاگر بھری
کانوں میں بالے‘ چاندی کے ہالے‘ پلکیں گھنی کھردری
ہڈی پہ چہرے‘ چہروں میں آنکھیں‘ آئی جوانی چلی
ٹیلوں پہ جوبن‘ ریوڑ کے ریوڑ‘ کھیتوں پہ جھالر چڑھی
وادی میں بھیگے روڑوں کی بیٹی چشموں کی چمپا کلی
سانچے نئے اور باتیں پرانی مٹی کی جادو گری
پاکستان بنا تو محبوب خزاں الہٰ آباد یونیورسٹی میں گریجوایشن کر رہے تھے۔ پاکستان آ کر مقابلے کے امتحان میں بیٹھے۔ قمر جمیل کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے ا ندازے سے بتایا تھا کہ نتیجہ آئے گا تو یہ پوزیشن ہوگی اور وہی پوزیشن آئی۔ لاہور سے سول سروس کا آغاز کیا۔ ڈھاکہ بھی رہے۔ انور سن رائے نے بتایا ہے کہ تہران میں بھی تعینات رہے۔ اپنے ڈھنگ سے ملازمت کی۔ ضروریات محدود رکھیں۔ کروفر سے بھاگتے تھے۔ افسری اور شاعری… دونوں کو چھپاتے تھے۔ عمر بھر ازدواج کے جنجال سے دور رہے۔ زندگی والدہ کے لیے وقف کیے رکھی۔ بے حد وسیع المطالعہ۔ بے تکان بولتے تھے اور خوب بولتے تھے۔ 1982ء میں ان سطور کے لکھنے والے کا پہلا شعری مجموعہ ’’دیوارِ آب‘‘ چھپا‘ بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن کراچی سے ٹیلی فون آیا… بھائی! میں محبوب خزاں بول رہا ہوں۔ محمود لودھی نے تمہارا مجموعہ پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کتاب پر‘ شاعری کے استعاراتی پہلوئوں پر‘ اور اشعار کے تصویری منظروں پر ایسی خوبصورت گفتگو کی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ جسارت کر کے کہا کہ حضرت! جو کچھ فرما رہے ہیں‘ لکھ دیجیے کہ اعزاز ہوگا‘ ناخوش ہو گئے کہ بھائی! میں لکھا نہیں کرتا؟ بہت کم ملاقاتیں رہیں۔ کچھ عرصہ اسلام آباد قیام کیا۔ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کا زمانہ تھا۔ مکمل طور پر کنارہ کش رہے!
پطرس بخاری اردو کے فکاہیہ ادب میں ایک کتاب سے زندہ ہیں۔ باقی صدیقی کا پنجابی کا ایک مجموعہ ’’کچے گھڑے‘‘ کئی پر بھاری ہے۔ محبوب خزاں کا مجموعہ ’’اکیلی بستیاں‘‘ بھی ان کا مقام متعین کر چکا ہے۔ بہرطور کیا عجب اس کے بعد کا غیر مطبوعہ کلام شائع ہو جائے!