آج – 8/جنوری 1972
پاکستان کے ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل اور معروف شاعر” باقیؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
باقی صدیقی، محمد افضل قریشی نام، باقیؔ تخلص۔ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء کو موضع سہام، ضلع روالپنڈی میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اس لیے میٹرک سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ شروع میں تقریباً ۵؍سال راولپنڈی کے دیہاتی اسکولوں میں مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ یہ فضا ان کو راس نہ آئی۔ چناں چہ ملازمت سے سبک دوش ہو کر بمبئی چلے گئے۔وہاں تین سال رہے اور دو ایک فلم کمپنیوں سے وابستہ رہے۔ اس مشغلے سے بھی بیزار ہو کر وطن واپس آگئے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ حالات سے مجبور ہو کر جناب باقی حوالدار کلرک کے آسامی پر نوکر ہو گئے۔ دوسال بعد آپ فوج سے علاحدہ ہوئے اور آرڈیننس ڈپو میں ملازمت اختیار کرلی۔ پھر آپ ایم ای ایس ، ریڈیو پاکستان، پشاور اور راولپنڈی میں ملازم رہے۔ باقی صدیقی کو غزل سے خاص دلچسپی تھی ۔ عبدالحمید عدمؔ سے تلمذ حاصل تھا۔ ۸؍جنوری ۱۹۷۲ء کو موضع سہام میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’جامِ جم‘، ’دار و رسن‘، ’زخمِ بہار‘، ’بارِ سفر‘، ’شاخِ تنہا‘، ’کتنی دیر چراغ جلا‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:403
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر باقی صدیقی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
کہتا ہے ہر مکیں سے مکاں بولتے رہو
اس چپ میں بھی ہے جی کا زیاں بولتے رہو
ہر یاد ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ
یہ محفلِ نوا ہے یہاں بولتے رہو
موج صدائے دل پہ رواں ہے حصارِ زیست
جس وقت تک ہے منہ میں زباں بولتے رہو
اپنا لہو ہی رنگ ہے اپنی تپش ہی بو
ہو فصلِ گل کہ دورِ خزاں بولتے رہو
قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے
لمبا سفر ہے ہم سفراں بولتے رہو
ہے زندگی بھی ٹوٹا ہوا آئنہ تو کیا
تم بھی بطرز شیشہ گراں بولتے رہو
باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسمِ میں جہاں بولتے رہو
✧◉➻══════════════➻◉✧
ان کا یا اپنا تماشا دیکھو
جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو
وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں
کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو
رنگ ساحل کا نکھر آئے گا
دو گھڑی جانب دریا دیکھو
تلملا اٹھا گھنا سناٹا
پھر کوئی نیند سے چونکا دیکھو
ہم سفر غیر ہوئے جاتے ہیں
فاصلہ رہ گیا کتنا دیکھو
برف ہو جاتا ہے صدیوں کا لہو
ایک ٹھہرا ہوا لمحہ دیکھو
رنگ اڑتے ہیں تبسم کی طرح
آئنہ خانوں کا دعویٰ دیکھو
دل کی بگڑی ہوئی صورت ہے یہاں
اب کوئی اور خرابہ دیکھو
یا کسی پردے میں گم ہو جاؤ
یا اٹھا کر کوئی پردا دیکھو
دوستی خون جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو
سادہ کاغذ کی طرح دل چپ ہے
حاصل رنگ تمنا دیکھو
یہی تسکین کی صورت ہے تو پھر
چار دن غم کو بھی اپنا دیکھو
غم گساروں کا سہارا کب تک
خود پہ بھی کر کے بھروسا دیکھو
اپنی نیت پہ نہ جاؤ باقیؔ
رخ زمانے کی ہوا کا دیکھو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
باقیؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ باقیؔ صدّیقی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔