٢٩ نومبر ٢٠١٩ کورونا وائرس کے پہلے حملے سےکچھ عرصہ قبل ووہان (چین) کی ایک کانفرس کی تفصیلی رپورٹ :
چائنہ کے شہر ووہان میں دنیا کے تمام بڑے بڑے جراثیم آج پھر سر جوڑے بیٹھے تھے۔ دنیا کی ترقی اب فطرت کے لئے بھی بدہضمی کا سبب بن رہی ہے۔ کانفرنس کی روح رواں پروفیسر سالمونیلا ٹائیفی صاحبہ بڑے رقت آمیز لہجے میں گویا ہوئیں ۔ ہمیں اس کا جلد سے جلد سد باب کرنا ہو گا، ورنہ تو انسان بہت جلد ہم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، ڈاکٹر شیگیلا ڈائی سینٹریا نے بڑے عزم سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسر فیلسی پیرم اور پروفیسر پلازموڈیم غمزدہ صورت بنائے بیٹھے تھے دونوں بھائیوں کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ان کی چہیتی بہن پروفیسر ڈینگی نے پہلے تو گلہ کھنکار کے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا پھر چہکتے ہوئے بولی آپ سب پریشان کیوں ہو رہے ہیں میرا موسم قریب ہے اس مرتبہ میں پہلے سے زیادہ طاقت کا استعمال کروں گی۔ میرے بھائیوں اور محترمہ شیگیلا اور سالمونیلا کا کام تو گندگی کے ساتھ ہے جہاں گندگی ہو گی وہاں وہ کا کریں گے مگر جہاں صاف پانی کھلا ہوگا وہاں میں کام کروں گی،،، تم بھول رہی ہو پروفیسر پولیو ملائیٹس نے دبنگ اور گرجدار آواز میں پروفیسر ڈینگی کی بات کو کاٹا! سب جراثیم قدرے خوفزدہ اور مبہوت ہو کر اپنے سینئر پروفیسر کی جانب دیکھنے لگے، انھوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا، تم سب کا بزنس صرف تیسری دنیا کے ممالک میں چمکتا ہے کیونکہ وہاں جاہلیت زیادہ ہے۔ صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ سستی کی وجہ سے اشیاء خرد و نوش کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ارے ہمارے بزنس تو صرف ایسے ممالک تک محدود ہیں جو زیادہ بچےتو خود پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی صحت خوراک اور تعلیم و تربیت کا بندوبست یا تو قدرت کی ذمےداری سمجھتے ہیں یا ملک کی اور تو اور اگر ملک کی حکومت ان کے بچوں کو مفت میں مجھ سے( پولیو ملائیٹس ) بچاؤ کے قطرے پلانا چاہے تو اس کو بھی خاندانی منصوبہ بندی کا نام دے کر رد کر دیتی ہے۔ (مائیک کے تھوڑا اور قریب ہو کر آواز کو مزید پاٹ دار بناتے ہوئے) ہمارا آج کا کانفرنسی اجلاس اپنے بزنس کو فروغ دینے کے لئے ہے۔ اب ہمارے دشمن صرف تیسری دنیا کے ممالک نہیں بلکہ ان کی فکر میں گھلنے والے اپنے آپ کو سپر پاور کہنے والے ممالک بھی ہیں۔ پروفیسر انفلوئینزا تائید طلب نظروں سے سب کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے بالکل جیسے کچھ صدی پہلے میرا حملہ بڑا کارگر رہا تھا۔ تقریبا آدھی دنیا میری لپیٹ میں آ گئی تھی اور کچھ صدی پہلے کی ہی تو بات ہے کہ ہماری دیرینہ دوست پروفیسر یرسینیا پیسٹس نے کیسے دنیا کو اپنی طاعونی بانہوں میں جکڑ لیا تھا۔ پروفیسر یرسینیا پیسٹس شرمیلی نگاہوں سے سب کی طرف دیکھنے لگیں۔ سب ان کو دیکھ کر مسکرا دئیے ۔ مائیک ایک مرتبہ پھر صدر محفل محترمہ پروفیسر سالمونیلا ٹائیفی صاحبہ نے سنبھالا اور گفتگو کو سمیٹتے ہوئے گویا ہوئیں! میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اپنی تعریفیں چھوڑ کر اپنی پچھلی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی نیا لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا کیونکہ اب دنیا ہم میں سے بہت سوں سے ناں صرف واقف ہے بلکہ ہماری نسل کشی کے بہت سے نت نئے طریقے بھی ایجاد کر چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں حاضر جراثیم میں سے تقریبا پچاس فیصد کے خلاف تو دنیا کے باسی ویکسین بنا چکے ہیں۔ اب نہ تو سالمونیلا ٹائیفی میں ٹائیفایڈ پھیلانے کا زور پہلے کی طرح ہے نہ شیگیلا اس زور سے ہیضہ پھیلا سکتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے محترم پروفیسر روبیلا صاحب کیا آپ پہلے جیسے زور سے خسرہ پھیلا سکتے ہیں؟ کافی دیر سے خاموش پروفیسر روبیلا نے تھوک نگلتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور بولے صرف میں ہی نہیں میرے بھائی اور کزنز ویریولا مائنر، ویریولا میجر چیچک نہیں پھیلا سکتے، واریسیلا زوسٹر وائرس لاکڑا کاکڑا، اور ہرپس زوسٹر شنگلز کی بیماری کو اب اس طرح نہیں پھیلا سکتے ہمارے باقی خاندان بھی بہت کمزور ہو چکا ہے غمزدہ ہو کر پروفیسر روبیلا نے ایک مرتبہ پھر سر جھکا لیا۔ منظر کافی رقت آمیز ہو چکا تھا سالمونیلا صاحبہ نےگلوگیر آواز میں پروفیسر ایبولا کو شریک گفتگو کرتے ہوئے کہا آپ کچھ فرمانا پسند فرمائیں گے محترم پروفیسر ایبولا صاحب ۔جی بہت شکریہ محترمہ میں کافی دیر سے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ میرا خیال ہےکہ اس مرتبہ ہمیں آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانے کے بجائے ایک نئے جراثیم کو ایک نئے انداز میں متعارف کروانا چاہئیے۔ سب جراثیم بڑے اشتیاق سے پروفیسر ایبولا کی جانب تکنے لگے۔
میرا مشورہ ہےکہ اس مرتبہ ہمارا ہتھیار جو بھی جراثیم ہو چاہے وہ کمزور اور شرمیلا ہو مگر اس کی دہشت بڑی ہو۔ کہتے ہوئے پروفیسر ایبولا صاحب نے اپنی نظریں ایک نٹ کھٹ لمبے ناخنوں پر سرخ ناخن پالش لگائے اور اپنے بالوں میں بھی سرخ سٹریکس لگائے بڑے سٹائل سے بیٹھی ایک نئی پروفیسر صاحبہ پر مرکوز کر دیں۔ نوآموز پروفیسر نوویل کورونا پروفیسر ایبولا کی نظروں کی شرارت محسوس کرتے ہوئے تھوڑا سمٹ کر مسکرا دیں ۔ پروفیسر ایبولا کی نظروں کے تعاقب میں سب مس نوویل کورونا کی جانب دیکھنے لگے۔ جس نے انھیں کچھ اور بھی کنفیوز کر دیا اور وہ شرم سے مزید سرخ ہو گئیں۔ مگر جلد ہی خود کو سنبھالا اور پروفیسر ایبولا کی جانب دیکھے بغیر پوچھا کہ میں دہشت کیسے پھیلاو گی اور میں لوگوں کے گھروں میں کیسے داخل ہوں گی۔ دہشت کی تو آپ فکر نہ کریں وہ تو ہم ایسے پھیلائیں گے کہ لوگ آپ کے اثر سے کم اور آپ کی دہشت سے زیادہ مریں گے۔ رہی بات انسانی گھروں میں داخلے کی تو اس کے لئے آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑے گا لوگ خود آپ کو اپنے گھر لے جائیں گے اور اپنے گھر والوں سے اپنے پیاروں سے آپ کو ملوائیں گے۔ پروفیسر سالمونیلا ٹائیفی کی اس بات پہ سب مسکرا دیے کیونکہ انسانوں کی طبیعت و تربیت سے تو سب ہی واقف تھے۔ ٹھیک ہے! مجھے منظور ہے۔ مس نوویل کورونا وائرس نے اس جراثیمی بقاء کی جنگ کا ہتھیار بننے کا فیصلہ منظور کر لیا۔ سب نے تالیاں بجا کر نوآموز پروفیسر نوویل کورونا وائرس کو خراج تحسین پیش کیا۔ آج کی کانفرنس کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اب سب نے مل کر اس حملے کو ممکن اور کامیاب بنانا تھا لہذا سب نے اپنے دفاتر کی راہ لی۔
“