نہ خداؤں کا نہ خدا کا ڈر اسے عیب جانئے یا ہنر
وہی بات آئی زبان پر جو نظر پہ چڑھ کے کھری رہی
(یگانہ )
یارباشو! آداب و تسلیمات !
ہم ایک اور فتنے کی داغ بیل ڈال رہے ہیں ۔ یہ فتنہ دیگر فتنوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس،مضبوط اور مضرت رساں ہے لہٰذا آپ تمام فتنہ خواہوں ،فتنہ گروں اور فتنہ شاروں سے گزراش ہے کہ حسب استعداد اس فتنے کی پرورش و پرداخت اور ترویج و اشاعت میں اپناحصہ کما حقہ ڈالیں اور’ ادیب بطور معاشرے کا ضمیر‘ کردار ادا کریں۔۔۔۔آ پ حیران ہیں یہ سوچ کر کہ ہم آپ سے فتنے کو ہوا دینے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ فتنہ جسے اشد من القتل کہا گیا ہے۔ آپ کی اس حیرت میں ہم بھی شریک ہیں کہ کیا کریں جب جب ہم نے خدائے عزوجل، خدائے لفظ وتخیل اور خدائے ضمیرو جان کو گواہ بنا کر سچ بولنے کی کوشش کی ہے تب تب ہمیں فتنہ و فساد سےتعبیر کیا گیا ہے۔ جب جب ہم آشفتگانِ حق نے صدق بیانی کو سودوزیاں سے ماورا دیکھا تب تب ہمارے اوپر ذاتیات کی پرخاش کا خارش زدہ لیبل چسپاں کردیا گیا کہ یہ کچھ زیادہ ہی معروضی،کچھ زیادہ ہی عقلیت پسند اور کچھ زیادہ ہی روشن خیال ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انہیں کچھ زیادہ ہی کھجلی ہے۔
لہٰذا اے ضمیر زادو ! یہ یقن کرلو کہ ہم ایک اوسط پسند دنیا میں جی رہے ہیں اس لئے سچ بولنا جب ایک جرم ہو جائے تو غالب خستہ کی بات ’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر" یاد کرلیجئے اور وہ معتوب لفظ بدل دیجئے کہ اس سے بہت سے الزامات misplace ہو جائیں گے۔تو کیا ادیب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان چیزوں کو Misplace کردے جو ترقی پذیر سماج کے روشن مینار پر بدنما داغ نظرآرہی ہیں؟ شاید سماج یہی چاہتا ہے اور یقینا ادیب اپنا فرض منصبی بھول گیا ہے لہٰذا مجھ کج فہم کی نظر میں سچ کا نیا متبادل لفظ فتنہ ہے کہ فی زمانہ فتنہ پھیلانا اتنا بڑا گناہ نہیں رہا جتنا کہ سچ بولنا ہوگیا ہے۔اب سچ کی ترویج و اشاعت کا مطلب فتنے کی ترقی و پرداختگی ہے اور اب ہم سے یہ جنون ،یہ شوریدہ سری،یہ کجکلاہی اور یہ بانکپن چھوٹنے والا نہیں کہ سب کچھ لٹا کر یہی ایک سرمایہ حاصل کیا ہے ضمیر کا بانکپن،شعور کی شررخیزی،خیال کا حسن اورجرات اظہار کا سلیقہ۔ یہی سرمایہ حیات ہے اور یہ زندہ رہے گا اپنی رفعت و عظمت، جاہ و جلال، حسن و جمال کے ساتھ۔ اسے شوق آوارگی کہیئےیا نشہ بے کسی، ذوق وارفتگی یامنتہائے بے حسی،خمار بانکپن یا شورش جنوں جو بھی کہیں کہ
"’وہیں کعبہ کھسک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی‘۔"
آپ لوگوں نے شاید دھیان نہ دیا ہو۔باتوں باتوں میں ایک بڑی بات کہہ گیا ہوں،ہوسکے تو برداشت کرلینا کہ جوشِ خرد میں سچ کو فتنہ قراردے دیا ہے اور فتنہ فتنہ ہے اشد من القتل ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ سچ اشد من القتل ہے؟کیا واقعی سچ یہی ہے؟پھر سچ کیا ہے؟ کیا مجھے اپنی بات واپس لے لینی چاہئے یا اس ’خبط خلفشار‘ میں اور فشار ڈالنا چاہئے؟ جی نہیں بالکل نہیں کہ میرے دوست احباب کچھ دنوں کی’ رستاخیز بے جا‘ کو دیکھ کر اس نتیجے پر ایقان و ایمان کی حد تک پہنچ گئے ہونگے کہ سچ اب جھوٹ اور فتنے کے درمیان کی ایک ایسی لائن ہے جو مبہم، گنجلک اور ناقابل قرات ، یقین اور ترویج ہے۔تو کیا سچ ادب ہے؟ یعنی کہ ادب ایک فتنہ ہے؟ شاید ایساہی ہو کہ فی زمانہ جب ادیب سچ بولنے کو عیب سمجھنے لگے، دوسروں کو سچ بولنے سے روکنے لگے، عزت و شرافت اور تکریم و تقدس کے نام پر نفاق کا پیرہن اوڑھ لے،مصلحت کے نام پر اپنے موقف اورصداقت کو قربان کردے ، حکمت و موعظت کے نام پر اپنی حاشیہ زدگی کو جواز فراہم کرنے لگے، عملی زندگی میں جدلیات کی تفسیر و تطبیق سے گریزاں ہوجائے تو ایسے ادب اور ایسے ادیب کو کوڑے دان میں ڈال دینا چاہئے ۔ یہاں غالب اوران کا کلام بالکل شامل نہیں کہ ادب میں کمٹمنٹ جمہوری نظام کی تنفیذ و استحکام سے مشروط ہے ۔اس پر پھر کبھی سیر حاصل بحث کرلیں گے۔سردست ہمارا ادیب ،اسکا فکری ابتذال اور اسکا منافقانہ کردار موضوع ِ بحث ہے کہ بزعم خود وہی درست ہے ،اس سے زیادہ رواداری، فکری وسعت و شفافیت،مساوات،مودت اور محبت کہیں اور نہیں پائی جاسکتی ،بزعم خویش وہ ایک پرفیکٹ مین ہے لیکن جیسے ہی اس کی انانیت کی بالائی جلد کو چھیلنے کی کوشش کرتے ہیں اندر کا تعفن باہر آ جاتاہے ۔ صحیح سمجھا آپ نے ، بات تخلیق سے ہوتے ہوئے تنقید پر آگئی ہے۔ادیب اب ادب کی عدالت میں ہے جہاں ناقد تعین قدر کے لئے جج کی کرسی پر بیٹھا ہے لہذا یہاں الکزنڈر پوپ کا داخلہ ناگزیر ہوگیا ہے۔پوپ اپنی نظم بہ عنوان ’’تنقید پر ایک نظم ‘‘ کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں۔
’’یہ جاننے کی کوشش کرو کہ ناقدین کس چیز کا سبق دے رہے ہیں۔ اس لئے کہ یہ جاننا بھی ایک مصنف کے نصف کام سے کم نہیں ہے اور جو کچھ تم کہو اس میں سچائی اور صاف باطنی کی چمک اور گرمی ہو۔ تم سب کچھ اپنے شعور کے مطابق کہو لیکن دوستی کا بھی خیال رکھو اور اس وقت خاموش رہو جب تمہیں اپنے ادراک پر شک ہو اور جب یقین ہو تو بڑی بے باکی سے بولو ہم کچھ ایسے پرانے قسم کے افرادک وجانتے ہیں جو ایک بار غلطی کرتے ہیں تو ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ تم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرو اور ہردن کو پچھلے دن پر تنقید سمجھو‘‘
مشہور ادیب اور نقاد باقر مہدی نے اپنے مضمون ’’نقاد کا نیا ادبی رول‘‘ میں پوپ کی اس نظم کے حوالے سے لکھا ہے’’ میں یہ بات بغیر پوپ کی نظم کا حوالہ دیئے بھی کہہ سکتا ہوں۔ لیکن یہاں اس نظم کا ذکر کرنا اس لئے بھی ضروری سمجھا کہ پوپ نے نقاد اور ادیب کے رشتوں کے بارے میں جو باتیں ۱۷۸۱ میں کہیں تھیں وہ ہمارے یہاں آج تک عام نہیں ہوسکی ہیں۔‘‘ باقر مہدی صاحب کا یہ مضمون ’’نئی قدریں ‘‘ میں ۱۹۵۶ میں شائع ہوا تھا۔ یہ ۲۰۱۶ ہے۔ ۶۰ سال کا عرصہ گذر چکا ہے سوال اپنی جگہ پر برقرار ہے۔لیکن اب ہم اس گول دائرے کے سفر سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ ہم نہ صرف ادیب اور ناقد کے درمیان ایک رشتہ قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں بلکہ نسل آئندگان کی تخلیقی اور تنقیدی نہج پر تربیت کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں ۔میں نے کسی سندھی شاعر کے حوالے سے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ جب بڑے لوگ چھوٹوں سے ملتے ہیں تو یا تو اوہ ان کے لیول پر چلے جاتے ہیں یا پھر ان کو اپنے لیو ل پر اٹھا لاتے ہیں۔ہم بڑے تو نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی یہ دعویٰ کرنے کی جرات کرسکتے ہیں لیکن ہماری یہ کوشش رہےگی کہ نوواردگان عشق کو اپنے لیول پر اٹھا لائیں۔ہم ان کے شعور کو اس لئے بھی صیقل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی کم از کم وہ عمر رائگاں ہونے سے بچ جائے جو ہم نے اپنی عمر رائگاں کرکے حاصل کی ہے۔ ہم نے اپنے ضمیر کی عدالت میں یہ طے کیا ہے کہ جب بھی کسی تخلیق پر تبصرہ کریں گے تعصب اور حسد و کدورت سے پاک ہو کر کرینگے اس عمدی کوشش کے ساتھ کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ علاوہ ازیں میں اس بات کی بھی ضمانت لیتا ہوں کہ مطالعات میں جنس کی تفریق کے بغیر تمام اراکین یکساں محبت کے حامل ہوں گے۔مجھ خاکسار کے یہاں عزت و احترام شاید کم ملے کیونکہ میں عزت کم محبت زیادہ کرتا ہوں۔ عزت اور محبت کے درمیان فرق سمجھنے میں شاید تھوڑا وقت لگے لیکن امید ہے کہ سمجھ جائیں گے۔ ’مطالعات‘ کسی ردعمل کا مظہر نہیں ایک جنون کا سفر ہے جس میں ہمارے چار اور جنونی دوست شامل ہیں۔ محترم شین زاد ، محمد زبیرمظہر پنوار،باسط آذر، سعدیہ سعدی ۔ یہ صرف نہ صاحب فن ہیں بلکہ فن کے قدر شناس بھی ہیں۔ میں اپنے ان تمام دوستوں کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ابتدائیہ لکھنے کا شرف عطاکیا۔یہ میری خوش بختی ہے کہ مطالعات ٹیم کی جانب سے آپ تمام اراکین و قارئین کا شکریہ ادا کررہا ہوں کہ آپ کی محبتوں کے سائبان کے بغیر یہ سفرادھورا اور صعوبت بھرا ہوگا۔۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1691623371104363/
“