بانسوں والی کوٹھی……….
مکرم معظم ..مخدوم جا وید ھاشمی سے تعلق اور رابطہ راتوں رات بانس کی طرح یک دم نہیں ابھرا……..نصف صدی کے قریب قریب کا فسوں ہے ……..برادری …نسل …زبان ….مقامیت …معاشرتی اور سیاست سے کوی واسطہ نہیں ……ھاں اماں جان (جنت مکیں )کے لیے یہ گھرانہ ….چشمہ حقانی رھا ….کچی عمر میں پکے جزبات اور اصیل ارزووں کے نخل تمنا کی ثمر یابی کے لیے جھنگ کے دریاے عشق کو کجاوں کی لمبی قطار کے ساتھ اپنے والدین کی چھتر چھاوں میں ….اٹا گھٹا ..کے ساتھ دربار میں حاضری اور حضوری ….ساری زندگی نہیں بھولیں ……پھر وسایل کی چنگیر میں پھول ھی نہیں اے اور جب نخل تمنا کی ہر یالی کا موسم ایا تو موت کے سیلاب میں نقش ناتمام ذوب گیے ……..
اول اول ان کا نام نامی ھوا تو ملتان کی طلباء سیاست میں قد اور ھوے …..اسلامی جمعیت طلباء میں شریک سفر ھوے ….پھر جامعہ پنجاب ….بنگلہ دیش نا منظور تحریک …..جیل کے میل …..عملی سیاست …..قید وبند ….اقتدار کے جھولے اور اپوزیشن کے رولے …….سجن دے ھتھ بانہہ وی سادی …کی کر اکھاں چھد وے اٹریا ……
مخدوم جاوید ھاشمی ….طالب علمی کے زمانے سے لمحہ موجود تک میرے محبوب اور پسندیدہ اور مثالی قاید ہیں …..ان کے برادر خورد ….مخدوم مختار ھاشمی میرے بی .اے کے زمانے میں ایسے دوست بنے کہ موت کا پیعام انے سے نصف گھنٹہ قبل تک ….چیچہ وطنی میں ان کا پرجوش استقبال دیکھنے کے متمنی اور سندیسہ میں تروتازہ تھے …….مجھے ان کی بے پناہ محبت ھمیشہ ملی …….ایک لحاظ سے وہ میرے مربی بھی ہیں ………میری شکستگی میں شیفتگی کا دروازہ بنے …..ملتان کینٹ میں بانسوں والی اجار اور سنسان کو ٹھی خریدی تو مجھے کشاں کشاں وھاں لے گیے…..تعمیر اور تزین نو میں میرے لیے ایک کمرہ سجایا کہ جب دل کرے ادھر تشریف رکھیو …….میرے بچوں کی اعلی تعلیم کو خوبصورت بنانے میں ان کی عملی مشاورت شامل رھی ……میرے بٹرے صاحب زادے کی بارات اپنے گھر سے لے کے چلے ….ولیمہ چیچہ وطنی میں تھا تو مہمانوں کی اولیت میں شمار ھوے اور سب سے أخر میں اپنے عزیزوں کے ساتھ واپس پلٹے …….
اب کینٹ والی رھایش گاہ چند وجوہ کی بناء پر قصہ ماضی بن جاے گی …..مہمانوں کی امد ورفت کی بہت زیادہ مشکلات اور عوامی رابطہ مہم میں دیکھی اور ان دیکھی تکالیف نے نکل مکانی پر مجبور کر دیا ….جہاں ان کی دلہن بیٹی کو چار گھنٹے انتظار میں کجھل خوار ھونا پٹرے حالانکہ وہی وی وی ای پی مہمان اسی دلہن کی تقریب میں ا رھا ھو وہاں ھما شما کس شمار میں……
مجھے اپنی نیی قیام گاہ کی …زیارت …کرای جہاں مستقبل قریب میں ایلیٹ کلاس تو ضرور ھو گی مگر ضرورت سے زیادہ بیجا پابندیاں نہیں ھوں گی اور ان کی نجی زندگی میں تانک جھانک کے امکانات معدوم ھوں گے …..اس فقیر رھگزر کے لیے یہاں بھی ایک کمرہ تو بتایا گیا مگر مجھ جیسے تو ….ان کی ابای حویلی ….مخدوم ھاوس …مخدوم رشید کو ترجیح دیں گے جو ان کی تازہ رھایش گاہ سے 25 منٹ کی درایو پر کھلے بازووں کی طرح بہار سمے کی خوشبو سے مہک رھی ہے ….اور پھر وہاں ھاشمی صاحب کا زاتی کتب خانہ چند قدم کی مسافت پر مجھے ان کے جد امجد مخدوم عبد الرشید حقانی کے چشمہ حقانی کی یا د دلاے گا جو کرور لعل عیسن سے اقتدار کو ٹھوکر مار کر اس ویرانے میں اے اور صدیوں بعد میری اماں اپنی معصوم اور الھٹر خوابیدہ جزبوں کے ساتھ سکینت کا جزیرہ تلاش کر پایں ……زیر نظر تصاویر مخدوم رشید کے درویش منش ….انسان دوست انسان کے گھر کی ہیں جو مکاں سے زیادہ مکیں کی وجہ سے عزیز ترین ہے ……اپنی تو جہاں انکھ لٹری پھر وہیں دیکھوں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“