بانو قدسیہ کا ایک وہابی عاشق
نور الہدی شاہ کا بانو قدسیہ پر لکھا مضمون، ”بانو قدسیہ ۔۔ اشرف المخلوقات“ پڑھا، تو دل گیرانہ کیفیت طاری رہی۔ بانو مر گئی، لیکن جی چاہتے بھی ان پر کچھ لکھا نہ گیا؛ اور کیا ہر مرنے والے پر لکھنا ضروری ہے؟ میری بانو قدسیہ سے بہت سی ملاقاتیں ہیں۔ پر یہ ملاقاتیں اُن کی تحریر کے ذریعے ہیں۔ عمر کا آدھا حصہ لاہور میں گزار دیا، لیکن کیا ہے، کہ میں بھی نور الہدی شاہ ہی کی طرح ہر ایک سے متاثر نہیں ہوتا، چناں چہ کبھی ”داستان سرائے“ کی رُخ نہ کِیا۔ حال آں کہ میں بانو کا پرستار ہوں؛ وہابی کو عشق ہو جائے تو وہ ایسے ہی بے مراد رہتا ہے۔ کیا وجہ ہے، کہ مجھے اشفاق احمد کبھی اچھے نہ لگتے تھے۔ آپ اسے رقابت کہ لیں، یا کچھ بھی۔ “گڈریا“ پڑھنے کے بعد، میں نے اشفاق احمد کو کچھ کچھ معاف کر دیا تھا، لیکن بغض بھی جاتے جاتے جاتا ہے۔
مجھے بانو قدسیہ کی تحریریں، اشفاق احمد کی تحریروں سے زیادہ پسند ہیں۔ یہ ناقدانہ رائے نہیں ہے، بس یوں سمجھیے یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔ مجھے قدسیہ کی کہانیوں کی دِل رُبا بانو سے محبت ہے۔ وہ ”بانو“ جو اتنی با اعتماد ہے، کہ اپنے شوہر کی محبوبہ کو اس کے ساتھ کار کی اگلی نشست پر بٹھاتی ہے، اور پچھلی نشست پر بیٹھ کر چور نظروں کا تماشا دیکھتی ہے۔ نور الہدی کی تحریر سے یہ اقتباس دیکھیے، اور پھر جس عورت کا بیان ہوا، اسے محسوس کیجیے۔
”کہنے لگیں …… جب اشفاق صاحب کے ساتھ میں نے زندگی شروع کی تو وہ خود بھی بہت خوب صورت تھے اور خوب صورتی کے شوقین بھی تھے… اِدھر اُدھر بھی دیکھتے تھے ….. بڑا دل دکھتا تھا میرا…. بڑی تلخی بھرتی جاتی تھی میرے اندر …. اشفاق صاحب کی خرابیاں ڈھونڈ ڈھونڈ نکالتی تھی میں ….. پھر وقت گزرا …. بیٹا جوان ہوا …. اس کی شادی ہوئی …. بہو کو اس سے کچھ شکایات ہوئیں … بہو سچ ہی کہتی تھی مگر میں بیٹے کی خرابیوں پر پردہ ڈال دیتی تھی …. ایک دن میں نے اپنے آپ کو پکڑ لیا …. خود سے کہا …. دیکھا قدسیہ …. وہ پرایا بیٹا تھا، تو ان میں سے عیب نکالنا کتنا آسان تھا ….. یہ تیرا اپنا بیٹا ہے ….. اس کے عیبوں پر توُ پردہ ڈالتی ہے ….. کتنی دوغلی ہے توُ …..“
پھر یہ کہ بانو کے ”راجا گدھ“ کی ”سیمی“ سے تو میں آج بھی عشق کرتا ہوں۔
کیا ہے، کہ ہم نے جس دَور میں آنکھ کھولی، چائے خانوں کی دیواروں پر یہ نوٹس آویزاں دیکھا، ”یہاں نشہ کر کے آنا، نیز مذہبی اور سیاسی گفت گو کرنا منع ہے۔“ کرشن چندر نے کہیں لکھا ہے، ہر نوجوان انقلابی اور شاعر ہوتا ہے۔ اس نوجوان میں بغاوت نے جنم لیا، اور جاننا چاہا کہ مذہب اور سیاست پہ کلام شجر ممنوع کیوں کر ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ شعور حاصل ہوا کہ ہمیں ”مکالمہ“ سے دُور کیا گیا۔ مذہب اور سیاست پر گفت گو کیے بہ غیر سماج کی ساختیات کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ آج سماج کی ان پرتوں میں جھانکیے، جونھی مذہبی یا سیاسی گفت گو ہوئی نہیں، بات گالم گلوچ تک جا پہنچی۔ وہ تربیت ہی نہیں ہوئی، کہ ”مکالمہ“ کرنا کیسے ہے۔ ہاں ”مناظرہ“ کے لیے ہر دم تیار ہیں، کیوں کہ ”بحث“ ہرانے کے لیے کی جاتی ہے، جیتنے کی لیے کی جاتی ہے؛ سمجھنے کے لیے، سمجھانے کے لیے نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ایک دوسرا تاثر یہ ہے، کہ ”فن کار“ یعنی artiste کا سیاست سے کیا مطلب؛ اس طرح کی فکر نے فن کار کو محض ”ناچا“ بنا کر رکھ دیا۔ گویا اُس کام لوگوں کو گدگدی کرنا ہے؛ گویا سیاست، مذہب پر کی گئی بات لوگوں کو محظوظ نہیں کرتی۔ حظ اٹھانا کیا ہے، اس پر ایک الگ مضمون بنتا ہے۔ یہی دور جب سیاست اور مذہب پر گفت گو حرام قرار دی گئی، میری نسل کے لوگ اس زمانے میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ سے متعارف ہوئے۔ لا محالہ اُن سے چِڑ ہوتی تھی، کہ ملمع کاری کرتے مذہب کا چورن بیچتے ہیں۔ مذہب میں بھی ”تصوف“ کی شاخ کی نمو کرتے ہیں۔ مجھ وہابی کو یہ قبول نہ تھا، مگر متبادل کیا تھا؟ نہ کوئی سرخا ایسا کام کا نکلا، جسے خون دینے والا مجنوں کہا جائے، اور دودھ پینے والے مجنوں ہمیں بھائے نہیں؛ جن کی مذہب مخالفت محض شراب کی آسانیوں، اور عورت کے حصول تک محدود ہے۔
بانو قدسیہ کی اِس ”عورت“ کو مذہبی انتہا پسندوں نے نظر انداز کِیا۔ کیوں کہ بانو قدسیہ بائیں بازو کی نمایندہ نہ تھیں، اسی لیے اُن پر ”شک“ نہ کِیا گیا۔ بائیں بازو والے اپنی عینک لگائے پڑھتے رہے، تو انھیں یہ ”عورت“ مطلوب نہ ہوئی۔ میرے کئی ”سیکولر“ دوست ہیں، جو ان میاں بیوی کو صرف اس لیے پسند نہیں کرتے، کہ یہ مذہبی شناخت ظاہر کرتے ہیں۔ بایں ہمہ میرے کئی ”مذہبی“ دوست ہیں، جو ادب و فنون ہی کو حرام سمجھتے ہیں، سو اُنھیں کیا خبر کہ بانو نے کیا لکھا۔ میرا خیال ہے، بانو قدسیہ ان دونوں گروہوں سے بے نیاز تھیں۔ وہ ایک سچی فن کار تھیں، جنھوں نے وہی لکھا، جو دیکھا، سمجھا، محسوس کیا۔ ایک فن کار ماہر نفسیات ہوتا ہے، اور ایک ماہر نفسیات، مذہب اور سیاست کو سمجھے بہ غیر مسیحائی کیسے کرتا ہے، میری سمجھ سے بالا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔