بانو قدسیہ اشفاق احمد اور جنرل ضیا :
تین سال پہلے جب میں نے اشفاق احمد پر ایک مضمون میں اس کے خیالات کوافیم اورناولوں کے مرکزی خیال پر سرقہ کا الزام عاید کیا تھا تو بہت سے ٹھہری ہوئی سوچ کے مالک افراد کو چارسوچالیس وولٹ کا کرنٹ لگا تھا ۔ بجائے اس کےکہ وہ اپنے چھوٹے سے زہن کی کھڑکیاں کھول کر بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے الٹا لٹھ لیکر میرے پیچھے پڑگئے لیکن میں ایسے لوگوں کے خیالات کو اپنے جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتا۔ ایک صاحب نے یہ تک کمنٹ کیا کہ
ایک بونا دیوتا کو چیلنج کررہا ہے ۔
اب جبکہ بانو قدسیہ کی رحلت پر بہت سے دوست کمنٹس دے رہے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی میں ان دونوں شخصٰیات پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ ان لوگوں نے پاکستان خصوصا اہالیان پنجاب کو زہنی طور پر لولا لنگڑا کیا۔ پوری پنجابی قوم کو ڈولے شاہ کا چوہا بنانے کی کوشش کی ۔
جنرل ضیا جہاں ایک طرف طاقت کا بے رحمانہ استعمال کررہا تھا دوسری طرف عام ٓآدمی کو ملا کے زرئعے شکار کررہا تھا جبکہ تعلیمیافتہ مڈل کلاس کو اشفاق احمد ، بانو قدسیہ قبیل کے پالتو دانشوروں کے زریعے برین واش کررہا تھا۔ پوری قوم کو تصوف کی افیم کھلا کر مزاحمت کا راستہ ترک کرکے کرپٹ اور ظالم حکمران کی اطاعت کرنے کا درس دیا جارہا تھا ۔ میں تصوف کے خلاف نہیں بلکہ اس پر یقین رکھنے والا ہون لیکن میں بلھے شاہ، شاہ حسین ، خواجہ فرید کا پیروکار ہوں کسی ٹی وی رائیٹر کے جعلی بابا ٰیحیٰحی جیسے صوفی ڈرامے کا نہیں ۔ یہ فوجی حکمران کے جوتے پالش کرکے اپنی خدمات کا صلہ وصول کرتے رہے اور قوم کو صبر و توکل کی افیم کھلاتے رہے ۔
یہی کام علامہ اقبال نے کیا تھا کہ خود تو برٹش سے سر کا ٹائٹل لیا اور پنجابی نوجوانوں کو پہاڑوں کی چٹانوں کا درس دے کر الو بناتے رہے۔ یہ لوگ حقیقی تخیلیق کار بھی نہیں تھے ۔ علامہ اقبال نے زیادہ تر نظموں کا مرکزی خیال انگریزی نظموں یا یورپی فلاسفروں سے لیا ہے ۔ اسی طر ح اشفاق احمد نے بھی اپنے شاہکارناولوں کے آئیڈیاز غیرملکی ادب سے چرائے ہیں اور ان کواپنے نام سے اردو ادب میں ڈھال کرخود کو اعلی درجے کا ادیب منوایا ہے ، قوم کو بے وقوف بنایا ہے ۔
میں نے اشفاق احمد کا ایک لانگ ٹی وی پلے دیکھا ۔ پاکستان سے آتے ہوئے ساتھ لایا ۔ عنوان ہے ۔ سوناملا نہ پی ۔
اس مٰیں گاؤں کا ایک سیدھا سادا نوجوان اپنی معشوق کو انتظار کا کہہ کر پیسہ کمانے شہر جاتا ہے ۔ پھر اس کی رونقوں مٰیں کھو جاتا ہے۔ زمانے بعد واپسی کا خٰیال آتا ہے تو وہ ویسے ہی کالے بالوں والا نوجوان ہوتا ہے اور اسکی معشوق سفید بالوں والی بوڑھی ۔ملاقات پر وہ اس کو اپنے چاہنے والا کا بیٹا سمجھتی ہے ،
درحقیقت یہ ایک لاطینی ناول ہے ، اس کا خیال چرایا گیا ہے کہ ایک نوجوان اپنی محبوبہ سے سمندروں کے سفر پر نکلتے ہوئے الوداع ہوتا ہے کہ میرا یہی انتظار کرنا ۔ وہ ہرروز شام کوساحل پر جاکراس کا انتظارکرتی ہے حتی کہ بیس سال گزرجاتے ہیں ۔ وہ ویسے ہی پرشباب ہوتی ہے کہ بیس سال بعد شام کو ایک کشتی ساحل پر آتی ہے ۔ اس میں سے ایک جھریوں بھرا بڈھا اترتا ہے اور اس لڑکی کی طرف بڑھتا ہے۔
لڑکی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر رونےلگتی ہے کہ تم وہ تو نہیں جس کا مجھے اتنظار تھا۔
کتنا بڑا کلاسیک ناول اشفاق احمد نے کتنی بے رحمی سے چوری کیا اور پی ٹی وی پر چلادیا۔
اب بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کا بڑا زکر ہورہا ہے جو لفاظی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس مین جو فلاسفی بیان کی گئی ہے اس کا سائنسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، سوائے بے سروپا باتوں کو تحریر کے زور پر لوگوں کے زہن میں ٹھونسنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ ادیب تارٰیخ کے مجرم ہیں ، انھوں نے مال بنایا، شہرت کمائی ، حکمرانوں کی قربت حاصل کی اور ان کے سیاسی اقتدار کو دوام بخشا ، انہوں نے پاکستانی قوم کو زہنی طور پر صدیوں پیچھے دھکیل دیا ۔ لوگ سائنسی دور کی بجائے ایک ہزار سال پہلے کے صوفیائ دور کی خیالی دنیا میں رہنے لگے ۔
ہمیں اب ایسے جعلساز ادیبوں کو قومی ہیرو کا درجہ دینے کی عادت کوترک کردینا چاہئے۔