بانوقدسیہ، ایک تعزیتی ریفرنس اور اسلامک یونیورسٹی کا معیار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل بروز جمعرات انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ اُردو (خواتین)کے زیرِ اہتمام بانوقدسیہ کے حوالے سے ایک تعزیتی ریفرنس کاانعقاد کیاگیا۔صدر شعبہ اردو(خواتین) محترمہ پروفیسرڈاکٹرنجیبہ عارف نے خطبہ استقبالیہ میں فرمایا کہ،
’’بانوقدسیہ کی وفات کے موقع پر سوشل میڈیا کی دنیا میں چھوٹے چھوٹے مضامین ، تبصروں اور پیہم کمنٹس کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں بانوقدسیہ کے ادبی مقام کو کلیۃً نظرانداز کرتے ہوئے اُن کی شخصیت، کردار اور فکری رجحانات یا اُن کے عقائد کو اِس بُری طرح نشانہ بنایا گیا کہ نہ صرف وہ لوگ جو بانو قدسیہ کے ادبی قدکاٹھ کی وجہ سے اُن کے مدّاح تھے رنجیدہ ہوئے بلکہ ایسے نوجوان جو بانوقدسیہ کی شخصیت سے واقف نہ تھے، اُن سطحی تبصروں کی بنا پر اُس عظیم ادیبہ کا نامناسب امیج وصول کرنے لگے۔یہ گویا بانوقدسیہ کے ادبی قد کو گھٹانے کی ایک عامیانہ سی کوشش تھی۔ آج کے ریفرنس کابنیادی مقصد ایسے تاثر کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے طلبہ کو بانوقدسیہ سے کماحقہُ متعارف کروانا بھی ہے‘‘
(مفہوم)
پروفیسر ڈاکٹرنجیبہ عارف اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی چیئرپرسن تو ہیں ہی لیکن اُن کی قابلیت، علمی استعداد اور ادبی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا شعبہ اردو اِس وقت ، اسلام آباد اور راولپنڈی کی دیگر یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردوسے نہ صرف بدرجہا بہتر ہے بلکہ نئے طلبہ خصوصاً ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی طالبات کے لیے ایک نعمت ہے۔ گزشتہ دنوں فیڈرل اردو یونیورسٹی کی ایک اردو کی طالبہ نے مجھ سے پوچھا،
’’سر! میں ایم فل کررہی ہوں۔ اس کے بعد میرا ارادہ ہے کہ میں پی ایچ ڈی کروں۔ مجھے مشورہ دیجیے کہ کس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کروں ؟‘‘
تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اسلامک یونیورسٹی سے۔ وجہ صرف یہی تھی کہ میرے ذہن میں ایک تو پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کی قابلیت اور اُن کی پروقار اور بردبار شخصیت تھی ، دوسرے نمبر پر میرے ذہن میں اِسی شعبہ کی پروفیسر ڈاکٹر حمیرااشفاق تھیں، جنہیں میں حقیقی معنوں میں ایک محققہ اورعالمہ ، فاضلہ کی حیثیت سے جانتاہوں۔ اس پر مستزاد اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ خواتین میں ’’اقبالیات کا حصہ‘‘ پاکستان میں اقبالیات کے اِس وقت سب سے بزرگ عالم ،پروفیسر ڈاکٹرایوب صابرپڑھارہےہیں۔
ضمناً عرض کرتا چلوں کہ پروفیسر احمد عقیل روبی اپنی کتاب، ’’علی پور کا مفتی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ،
’’ ممتاز مفتی کی محفل میں ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ممتاز مفتی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،” یہ لڑکی مجھ پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہے مگر یونیورسٹی والے اسے اجازت نہیں دیتے، ان کا کہنا ہے پہلے مفتی کو مر جانے دو اس کے بعد اس پر پی ایچ ڈی کی اجازت ملے گی“۔ ممتاز مفتی نے مسکرا کر جواب دیا،” یونیورسٹی والوں سے کہہ دو مفتی کو مارنے کی کوشش کر رہی ہوں جلد ہی رخصت ہو جائے گا“۔وہ خاتون ڈاکٹر نجیبہ عارف تھیں، جنہیں بالآخر ممتاز مفتی پر پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت مل گئی اور انھوں نے 2003 میں پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ اس مقالے کو الفیصل پبلشرز نے ”ممتاز مفتی کا فکری ارتقا“ کے عنوان سے شائع کیا۔
خیر تو ڈاکٹرنجیبہ عارف نے اپنی فی البدیہہ تقریر میں بانو قدسیہ کے حوالے سے ایک رواں تبصرہ پیش کیا جو منطقی اور فنی اعتبار سے خود ایک مقالہ تھا۔ بعض باتیں تو ایسی تھیں جو ہم جیسے، ادب کے دیرینہ طالب علموں کے لیے بھی نئی تھیں۔ مثلاً ڈاکٹرنجیبہ عارف نے بتایا کہ،
’’بانو قدسیہ، اشفاق احمد کے لیے عیسائی سے مسلمان ہوئی تھیں‘‘
تقریب کے مقررین میں پروفیسر ڈاکٹرحمیرااشفاق، ادریس آزاد، پروفیسر ڈاکٹرعزیز ابن الحسن اور شعبہ اردو (خواتین) کی دو قابل معلّمات شامل تھیں۔ تقریب کے خصوصی شرکأ میں ڈاکٹرارشدمعراج کے علاوہ ڈاکٹر کامران اور یونیورسٹی کے دیگر پروفیسرز اور ڈاکٹرز شامل تھے۔ ایم اے اوربی ایس اردو کے علاوہ اسلامک یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کی طالبات کی ایک بڑی تعداد سے فاطمہ بلاک کا آڈیٹوریم بھرا ہوا تھا۔
ڈاکٹرحمیرا اشفاق نے بانوقدسیہ کے ادبی کام پر روشنی ڈالنے کے علاوہ مخالفین کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کو غیر معتدل قراردیا۔ انہوں نے بعض سوالات کے عقلی جوابات دیے اور خاص طور پر بانوقدسیہ پر لگائے گئے الزام، یعنی اُن کے ’’اینٹی فیمنسٹ‘‘ ہونے کی تردید بھی کی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹرحمیرااشفاق خود اپنے ذاتی فکری رجحان کے اعتبار سے کسی حد تک ترقی پسند افکار کی طرف مائل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹرعزیز ابن الحسن کی آخری تقریر ہمیشہ کی طرح معنی خیزیت سے لبریزتھی۔ڈاکٹرعزیزابن الحسن نہایت بھرپور شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ، اعلیٰ پائے کی نستعلیق اردو بولتے ہیں۔ اس سب پر مستزاد ڈاکٹر صاحب طبعاً خاصے بذلہ سنج واقع ہوئے ہیں چنانچہ ثقیل سے ثقیل بات بھی اگر ڈاکٹر عزیز ابن الحسن کے الفاظ میں سنی یا پڑھی جائے تو وہ فقط اپنی شگفتگی کی وجہ سے نہ صرف قابلِ فہم بلکہ کسی حدتک لذیذ بھی ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹرعزیزصاحب کے خطبۂ صدارت میں بانو قدسیہ کے ادبی مقام کے تعین سے متعلق طالبات کو بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی یہ امتیاز کہ محققانہ مخالفت اور عامیانہ مخالفت میں کیا فرق ہے، اہلِ محفل پر واضح ہوا۔
لگ بھگ تمام مقررین نے بانو قدسیہ کے حرام حلال کے تصورکو ضرور اپنی تقریر کا حصہ بنایا اور اپنے اپنے طور پر کیچڑ اچھالنے والے طبقہ کو مدلل جوابات دیے۔ خاص طور پر ڈاکٹر نجیبہ عارف کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ،
’’سوشل میڈیا پر بانوقدسیہ کی مخالفت میں بولنے والے نام نہاد مبصرین منٹو کے معاملے میں ہمہ وقت جس دلیل کا دفاع کرتے ہیں، بعینہ اُسی دلیل کو استعمال کرتے ہوئے بانوقدسیہ پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ یعنی عام قارئین جب منٹو پر فحاشی لکھنے کا اعتراض کرتے ہیں تو روشن خیال طبقہ کی طرف سے منٹو کا دفاع کیا جاتاہے۔ لیکن بانو قدسیہ کے معاملے میں روشن خیال طبقہ یکایک ملاؤں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور راجہ گدھ جیسے مثبت اور نتیجہ خیز ناول پر فحاشی کا الزام دھر دیتاہے‘‘
(مفہوم)
الغرض تقریب نہایت شاندار تھی۔ دیر تک یاد رہیگی اور مجھے ایک بار پھر اس بات کا یقین حاصل ہوا کہ اسلامک یونیورسٹی تمام تر پروپیگنڈا کے باوجود آج بھی تعلیمی حوالے سے ایک فعّال اور نہایت کارآمد ادارہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔