سب جانتے ہیں کہ داستاں سرائے بابا اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے گھر کا نام تھا
جہاں مصیبت کے ماروں کی مشکل حل کی جاتی تھی
عزت نفس کے ماروں کی عزت افزائی ھوا کرتی ، تصوف کے متلاشی راحت پاتے تھے
جہاں صبر محبت پیار اور معافی کی فراوانی تھی
جہاں کی ایک ایک اینٹ گواہ تھی کہ یہ گھر ہر انسان کا مسکن تھا جو پیار اور سکون کی تلاش میں ہے
اسی داستاں سرائے میں پاکستان کے بڑے بڑے نامور شاعر ادیب صوفی بابا اشفاق کی نشست میں بیٹھکر درویشی کی گر سیکھا کرتے تھے
یہاں غرض مندوں کی دادرسی ھوا کرتی تھی
راجہ گدھ جیسی درجنوں تصانیف بانو قدسیہ نے اور من چلے کا سودا سمیت بہت سی مشہور کتابیں بابا جی اشفاق احمد نے اسی گھر میں لکھی تھیں
اشفاق صاحب کے جانے کے بعد بھی بابو قدسیہ آپا ہر مہینے دو چار نشستیں منعقد کرتیں جہاں اخلاق معافی در گزر اور محبت کا پرچار ھوتا تھا
یہاں کے صوفے قالین برتن پنکھے غرض کہ ہر شے بانو قدسیہ اور اشفاق صاحب سکرپٹس بیچ بیچ کر خریدا کرتے تھے ، داستاں سرائے گورنمنٹ کالج سے شروع ھونے والی قدسیہ چھٹہ اور ہجرتی پٹھان اشفاق احمد کی محبت اور زندگی کے رازوں کا آمین تھا
امیری کے پیروں تلے کچلی ھوئی عزت نفس کے ماروں کے لئے داستاں سرائے کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے
میں بھی بائیس سال داستاں سرائے سے فیض پاتا رہا
اسی گھر سے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے جنازے میں نے اپنے کندھوں پر اٹھائے تھے
اشفاق احمد اور بابو قدسیہ کے جانے کے بعد ان کے بڑے بیٹے انیس بھائی بھی انتقال کر گئے
انیق احمد یعنی نوکی بھائی امریکہ سیٹل ھوگئے تھے جو اتفاق سے اشفاق صاحب اور بانو آپا کے جنازوں میں بھی شریک نہ ھو سکے تھے
اس لئے اشفاق احمد کے چھوٹے بیٹے اثیر صاحب کبھی کبھار نشست کا اہتمام کیا کرتے تھے اور بابا جی کی نشست اور لنگر کے روایت قائم تھی
موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی روحانی تربیت کے لئے داستاں سرائے تواتر سے جایا کرتے تھے
شہباز شریف نواز شریف اور دیگر بھی دعا کے لئے اکثر داستاں سرائے جاتے تھے
محبت کا گہوارہ داستاں سرائے پاکستان اور پوری دنیا کے انسانوں کے لئے جائے امان تھا
یہ گھر جو ثقافتی ادبی روحانی اور صوفی ازم کا مرکز تھا
جس کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے
اب ہمیشہ کے لئے بند ھو چکے ہیں ،
کل رات مجھے معلوم ھوا کہ داستاں سرائے فروخت کر دیا گیا
اسی لئے میں پورے مضمون میں تھا کا صیغہ استمال کر رہا ھوں
جی ہاں اب وہ لوگ جو دیار غیر یا پاکستان کے طول و عرض سے مجھ سے رابطہ کرتے تھے اور داستاں سرائے جانے کی خواہش کیا کرتے تھے اب خبردار ھو جائیں داستاں سرائے بک چکا
اب نہ وہاں بابا جی ہیں نہ بابو آپا اور نہ ہی اثیر بھائی
کوئی نہیں ہے
کچھ عرصے میں وہاں ایک ماڈرن گھر تعمیر ھو جائے گا
پھر بابا اشفاق احمد کا مسکن داستاں سرائے تذکروں اور کتابوں میں رہ جائے گا اور پھر پچاس سال بعد کسی کو نہیں معلوم ھوگا کہ جی سی کالج کے دو ایم اے کے سٹوڈنٹس جو پہلے خود پیار کے بندھن میں بندھے اور پھر پورے پاکستان کو محبت سے پلو میں باندھ لیا تھا وہ دو جنے کہاں رہتے تھے
ان کے گھر کا کیا نام تھا
خیر جنکا گھر تھا انہوں نے بیچ دیا ،
اشفاق احمد کا عارضی گھر نہ سہی دائمی گھر تو موجود ہے
مجھ جیسے متوالے ان کی قبروں پر حاضری دیا کریں گے
میں نہیں جانتا کہ داستاں سرائے کس نے خریدا ہے
مگر جس نے بھی خریدا ہے میری ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ کیا ہی اچھا ھو کہ اس گھر کو جو ہم جیسے لاکھوں عزت نفس کے ماروں کا کرتار پور ہے اسے اسی حالت میں محفوظ کر کے آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ دیا جائے
کہ یہ دھرتی پہلے ہی عدم برداشت پیار محبت عفو و درگزر کے معانی بھولتی جارہی ہے
داستاں سرائے رہے گا تو کل ہماری نسلیں اس صوفی کی محبت پیار کے پرچار سے مستفید ہوتی رہیں گی
درگزر معافی برداشت سیکھیں گی
اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو کوئی بات نہیں آپ نے کروڑوں روپے میں داستان سرائے خریدا ہے آپ کو مبارک ھو
اب میں آنے والی نسلوں کو اس درویش داستان گو کے قصے سنایا کرونگا گا جو صدا لگایا کرتا تھا کہ
اللہ ہمیں آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرے کا شرف بخشے
آمین