گئی رتوں کی ایک سہ پہر کچھ ان کہے سوالوں کی جگالی کرتامیں 121 سی داستان سرائےکےدروازےپرکھڑاتھا۔ ماڈل ٹاؤن کےویران ’بئے کے گھونسلے‘ میں جدائی کےعذاب سےجاں بلب ایک بوٹ آلھنے سے گرنے کو پھرتا تھا۔ مگر ابھی ’بیک برش اور شاور سے نہانے والی‘ دخترِ گلبرگ کو جی بلاک قبرستان میں اندرون لاہور کےکشمیری کی پائنتی دفن ہونےمیں دیرتھی۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی بیسویں سالگرہ پر منعقدہ تقریب میں غزالہ قریشی کے ایک سوال کے جواب میں بانو آپا نے کہا تھا ’میں اب تصوف کےبھی زیادہ قریب ہوں اورقبرستان کےبھی
ویڈیو لنک
اب مجھے اسی کےمتعلق لکھنا ہے۔‘ اس میں ان کی آدھی بات درست تھی۔
تصوف کی نفی تو انہوں نے خود بعد کے ایک انٹرویو میں کردی تھی۔
’مجھ سےدنیا کےبارےمیں سوال کریں تو جواب دوں۔ یہ تو مرد کی ذات ہے جو عارفِ مولاہےوہ آپکواللہ تک پہنچنے کا کوئ راستہ بتائےتوبتائے، میں تو عارفِ دنیا ہوں‘صاحبو،ایک بظاہر سادہ لوح خاتون لکھاری سے جب وہ عارفِ دنیا ہونےکانعرہ لگارہی ہواحتیاط لازم ہے۔ ہم نے احتیاط نہیں برتی اور اگوکی کی حسین دوپہروں میں عشقِ لاحاصل اور لامتناہی تجسس کی بھول بھلیوں سے ہوتے ہوئے مونگ پھلی چھیلتی عابدہ اور قیومی کے مکالمے کی بے باکی پر ڈھیر ہوگئے۔
یہ مرد ذات کا تو ہڑکا ختم نہیں ہوتا ماں کا۔ یہ وحید ہے نا ـــ کریانے سٹور والا ـــ میرا شوہر ـــ عام طورپرمرد زن مرید ہوتےہیں، یہ ماں مرید ہے۔ اماں جی خضاب لگالو ـــ اماں جی پیر دبادوں آپ کے ـــ جب یہ مرے گاتومیں اس کے کتبے پر لکھواؤں گی ’یہاں ایک ماں کا یار دفن ہے۔‘
رہ گئی بات قبرستان کی تو لاہور کی اس روشن دوپہر میں ماڈل ٹاؤن کے جی بلاک کے گورستان میں بابا صاحبا اشفاق احمد کی تربت پر دعا کرنے کو رکا تھا جب مجھے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل بھٹی کا گلہ یاد آیا۔ ’یار تم لوگوں سے ملنے کےلیے ان کے مرنے کا انتظار کیوں کرتےہو!‘
دل نے بے اختیار اکسایا کہ اشفاق احمد کو بیا اور خود کو بئے کا گھونسلہ کہنے والی بانو آپا نزدیک ہی 121 سی ماڈل ٹاؤن میں رہتی ہیں۔
گئی رتوں کی اس سہ پہر داستان سرائے کی کال بیل بجاتا عمران کچھ ان کہے سوالوں کی جگالی کرتا تھا۔
صاحبو، راجہ گدھ میں قبرستان بہت پہلے ہی آگیا تھا۔ ابھی تو ہم سیمی کو جان بھی نہ پائے تھے کہ وہ چلی گئی تھی۔ بنا کسی اپائنٹمنٹ کے، فون نمبر چھوڑے بغیر۔ اور جاتے سمے کرگس جاتی کا منہ ماتھا تلک لگائے، تیاگ کی کھڑاویں چڑھائے چندرا کی کلر زدہ زمینوں کو اُڑ گیا تھا۔
راجہ گدھ کی تازہ چوٹ کھائے اگوکی کےمقیم ایک نیم لفٹین کولاہورکے لارنس گارڈن میں ترت مرادکامزارمل جائے تو اسکی قربت میں وہ کافورکا درخت بھی ڈھونڈنکالےگا
اسکی اگلی نظرمزارکی جالی میں اٹکے زمان ومکان کی قید سے آزاد ان منتی دھاگوں کوتلاش کرے گی جنہیں سیمی وہاں بندھا چھوڑگئی تھی
بہت زمانوں بعدکا قیوم جب ساندہ کلاں سےاڈاری بھرشیخوپورہ کی ہمسائیگی میں چندراکی نمک چاٹی زمینوں پراترےگاتومعلوم پڑےگاکہ مائی توبہ توبہ کےبھٹےکوتوکب کاکلّرکھاچکا
مگرآج نہیں توکل وہا ں بھٹہ توتھا
پتلیوں میں سوئیاں چبھوتی مائی توبہ توبہ تھی
ایک سایہ ہی سہی راجہ گدھ کا مہاندرہ توتھا
ہرکھوج بے انت نہیں ہوتی، مگرجہاں بات قبرستانوں تک چلی جائےوہاں سراغ بندگلیوں میں کھوجایا کرتےہیں
وہ علی زیب روڈ کا جواں سال مزار ہو یا گرومانگٹ روڈ یا پھر غالب روڈ کے قبرستانوں کے بے نشان مکین اب نہیں بتاتے کہ گئے وقتوں میں کون تھا جو اندرون لاہورکےکشمیری، آفتاب کےعشق کا اسیرہوا یہاں سے ہم 121 سی ماڈل ٹاؤن کی اس سہ پہر کو پلٹتے ہیں۔
ایک مہمان کی آداب ملاقات کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کرملنےکی اس خواہش کی بانو آپا نے لاج رکھی، اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے
کچھ دیر بعد سفید رنگ سرتا پا مجسم سادگی میں ملبوس بانوآپا میرےسامنے بیٹھی تھیں
اشفاق صاحب کی قبرپرحاضری کاذکرکیاتوانجانےمیں دکھتی رگ چھیڑدی
درد کا ایک سایہ اس شفیق مسکراہٹ پرسےگزرگیا
غلطی کااحساس ہوا ہاتھ جوڑمعافی طلب کی بانوآپاخودکوسنبھالتےہوئےگویا ہوئیں، بیٹا آپ اپنی بات پوری کیجیے
ان آنکھوں کی نرمی کی شہہ پائی تودست بستہ عرض کی کہ آپ دونوں محبوب ہستیوں کی تحریروں کی میرےدل پر بہت گہری چھاپ ہے
ابھی اشفاق صاحب کے پاس دعا کرتے ہوئے میرا بہت دل چاہا کہ میں آپ کو ایک نظردیکھ لوں
بانوآپایہ سنتے ہی کھڑی ہوگئیں اور بصدتشکر میرے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑدئیے
میں ہڑبڑاکراٹھ کھڑا ہوا اور انہیں بمشکل روک سکا صاحب بڑے لوگوں کی عاجزی بھی انہی کی طرح قد آورہوتی ہے، میں اورآپ مزید بونے لگتے ہیں
جذبات سے عبارت ان لمحوں میں اجازت چاہی
بانوآپا نے رکنے اورافطار تک ٹھہر جانے پراصرارکیا مگرایک مشتاق ملاقاتی کےلیے عنایت کے یہ چند لمحے ہی سرمایۂ کل تھے
ماڈل ٹاؤن سے چھاؤنی پلٹتےہوئے غروب آفتاب سے ذراپہلے میں بے ساختہ میاں میرکے پل پر رکا۔ دور ایک بے آسرا انجن شنٹ کررہا تھا۔
کور ٹروپس کے میس پرافطارکرتےہوئے میں نے وہ سوال پپولےجو میں بناپوچھےلوٹ آیا تھا
راجہ گدھ کی سیمی کون تھی؟
کیا ہم نے اسے گلبرگ کےکسی گورستان میں دفنادیاتھا
یا وہ ابھی تک 121 سی ماڈل ٹاؤن میں رہتی ہے؟
یہ بات پرانی ہوئی، بانوآپا نےایک انتظارکےبعدزادعمرسمیٹااورماڈل ٹاؤن قبرستان میں اندرون لاہورکے اس کشمیری کے پاس جاسوئیں جس کے بارےمیں میڈم نورجہاں نے ان سےکہا تھا
دیکھو بی بی تمہاراشوہرپاکستانی تولگتانہیں اطالوی لگےتولگے، تم کچھ ڈھنگ کے کپڑےپہنو، میک اپ کروتوآغاجی کی جوڑی بھی سجے
اور ملکۂ ترنم کےمنہ سے یہ سن کر بقول بانوآپا وہ دل ہی دل میں اپنی لاٹری نکل آنے پرخوش خوش لوٹ آئی تھیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...