خیانت نہ کرنا،
بد عہدی نہ کرنا،
چوری نہ کرنا،
مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،
کوئی بھی درخت نہ کاٹنا نہ جلانا،
تمہارا گذر ایسے لوگوں کے پاس ہوگا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہوں گے،انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا، ان سے کوئی تعرض نہ کرنا،
تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے، تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردو۔
یہ اُن ہدایات میں سے چند ہیں جو امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے لشکرِ اسامہ کی روانگی کے وقت حضرت اسامہؓ کو دی تھیں۔ درختوں کی حفاظت کے متعلق اور درخت نہ کاٹنے کے بارے میں متعدد احادیث میں بھی تلقین کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ کراچی میں بارہ سو درخت قتل کر دیے گئے ہیں۔ اشتہارات کی غرض سے بِل بورڈز کی جگہ بنانا تھی! اس بھیانک وحشیانہ جرم کے خلاف شہریوں کی ایک تنظیم سپریم کورٹ جا کر روئی ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا ہے کہ شاہراہ فیصل پر واقع کارساز روڈ کے نزدیک پیدل چلنے والوں کا پُل کس اتھارٹی کے دائرۂ اختیار میں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو زِچ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ وفاق اپنی ذمہ داری تسلیم کرے گا نہ صوبائی حکومت!
اس ملک میں یہ عام بات ہے کہ مقتول کی لاش پڑی رہتی ہے اور دو تھانے جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں کہ جائے واردات کس کے علاقے میں ہے۔ اور یہ لاشیں تو انسانوں کی بھی نہیں، درختوں کی ہیں۔ یہ اور بات کہ درخت بھی جاندار ہوتے ہیں۔ اب تک بارہ سو درختوں کی لکڑی فرنیچر کی دکانوں پر اور ایندھن کے ذخیروں میں پہنچ چکی ہو گی!
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ درخت جاندار ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اپنے بچوں سے اور گھر والوں سے اور ملازموں سے اور دوستوں سے یہ بات کی ہے کہ درخت سانس لیتے ہیں، ہوا اندر کھینچتے ہیں اور باہر نکالتے ہیں؟ ہر درخت کی اپنی الگ شکل ہے۔ اس کی اپنی عادتیں ہیں۔ اس کے اپنے دُکھ ہیں۔ اپنے کرب ہیں۔
مگر درختوں کی خوشیاں کوئی نہیں ہوتیں۔ ہاں! حوصلہ بلند رکھتے ہیں۔ ایک لحاظ سے درخت خوش قسمت ہیں کہ پاؤں سے محروم ہیں اور اُس زمین سے جدا نہیں ہو سکتے جس میں ان کی جڑیں ہوتی ہیں۔ یوں وہ ہجرت سے بچ جاتے ہیں۔ زمین۔۔۔اپنی زمین۔۔۔کٹ کر، مر کر ہی چھوڑتے ہیں۔ مگر آہ! اُن سے پیار کرنے والے، انہیں پانی دینے والے، ان کی شاخوں کی تراش خراش کرنے والے، لکڑہاروں کی دست برد سے بچانے والے اُن سے دور چلے جاتے ہیں!
جس طرح درختوں کی شکلیں الگ الگ ہیں اور عادتیں مختلف ہیں، اسی طرح ان کے حجم بھی اپنے اپنے ہیں۔ اگر کوئی غور سے دیکھے تو جان لے گا کہ درخت سراپا خلوص ہوتے ہیں۔ دل سوز! بازؤں کو ہمیشہ کھلا رکھنے والے! سسکیاں بھر کر رونے والے، کڑھنے والے! درخت سوتے نہیں، کبھی کسی درخت نے یہ نہیں کہا کہ میں آج چھاؤں نہیں دوں گا! یا میں اِس سال پھل نہیں دوںگا۔ ہاں! ان پر بیرونی عناصر حملہ آور ہوں تو اور بات ہے۔ جہاں تک درختوں کا تعلق ہے آج تک دنیا میں کوئی درخت مکار نہیں پایا گیا۔ کسی درخت نے اپنے دل میں بغض و عداوت کی پرورش نہیں کی! یہ صفات انسانوں میں ضرور پائی جاتی ہیں!
کبھی غور کرو! اللہ کے بندو، کچھ وقت نکالو! کسی جنگل میں جا کر دیکھو یا باغ میں کچھ دیر گردش کرو یا کھیتوں میں چل پھر کر مشاہدہ کرو! درختوں کی قسمیں لا تعداد ہیں۔ اونچے سرافراز درخت، جو پُرشکوہ قطاروں میں خوبصورت، قدآور شہزادوں کی طرح کھڑے ہیں۔ جیسے ایبٹ آباد کے گالف گراؤنڈ میں قطار باندھے، ایک سو برس سے زیادہ کی عمر کے درخت جو دیکھنے والے پر جادو کر دیتے ہیں! اور ایسے بھی ہیں جو پستہ قد ہیں، جُھکی ہوئی کمر والے، ٹیڑھے، جو اکیلی پگڈنڈیوں پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہیں! خوش حال درخت بھی ہیں جن کی شاخوں کے نیچے چراغوں والی قبریں ہیں جن کے تنوں کو ہاتھ لگا کر ہاتھوں کو چوما جاتا ہے اور کچھ درخت مفلس ہوتے ہیں! جو جھاڑ جھنکار سے بھرے قبرستان میں رنگین چیتھڑے اوڑھے روتے رہتے ہیں!
درخت زیتون کے ہوں یا بیر کے، انجیر کے ہوں یا شہتوت کے، کیکر کے ہوں یا پھُلاہی کے، شمشاد کے ہوں یا املتاس کے، میوہ دار ہوں یا بانجھ، میٹھا بُور لیے ہوں یا نوکیلے کانٹے، اُجڑے ہوئے صحن میں ہوں یا محل کے پائیں باغ میں، جیسے بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، مقدس ہیں، ہمارے دوست ہیں اور ہماری زینت کا سامان ہیں!
درخت نبیوں کے ساتھی اور ولیوں کے مددگار رہے ہیں! درخت پرندوں کو سرچھپانے کی جگہ دیتے ہیں۔ معصوم بچوں کے امانت دار ہوتے ہیں! درختوں کی لاٹھیوں سے اندھوں نے راستہ پایا اور درختوں کے تنوں میں پناہ لینے والے پیغمبروں نے شہادت پائی۔ یہ درخت ہی ہیں جن کی چھاؤں میں مرنے کی بیعتیں اور محبت کے قول و قرار طے پاتے ہیں۔ درختوں کے پتے پانی میں ابال کر ماتم کرتے ہوئے لوگوں نے اپنے پیاروں کی میتیں نہلائی ہیں۔ درختوں کی چھال پر معشوقوں کے نام کھودے گئے۔ درختوں کی شاخوں سے رسے باندھ کر، آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ان درختوں کے علاوہ آزادی کے ان شہیدوںکوکسی نے یاد نہیں کیا!
مجھے آپ کا نہیں پتا، لیکن میں تو جتنے راستوں پر چلا ہوں اور میں نے جتنے دریا عبور کیے، اور میں جتنے پہاڑوں پر چڑھا اور میں جتنی راتوں کو جاگا ہوں اور میں نے جتنی خوشیاں کاشت کیں اور میں نے جتنے غم کاٹے اور میں نے جتنے پیاروں کو گم کیا، وہ سب مجھے درختوں ہی کے حوالے سے یاد ہیں، اس لیے کہ جتنے بھی معاملے طے ہوتے ہیں وہ درختوں کے ساتھ ٹیک لگا کر، اور درختوں پر ہاتھ رکھ کر، اور درختوں کے چلتے سایوں کے ساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹ کر اور درختوں کو جھاڑ کر اور درختوں سے بغل گیر ہو کر طے ہوتے ہیں! کبھی غورکیجئے، شام کو جب چرواہے واپس بستیوں میں آتے ہیں تو کٹے ہوئے درخت، کبھی پورے، کبھی آدھے، ان کے سروں پر لادے ہوتے ہیں۔
ہم جب بستی سے چلتے تھے اور پکی سڑک کی طرف روانہ ہوتے تھے تو فاصلے کو درختوں ہی سے ماپتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ کھیت کے کنارے کھڑے درخت کے بعد کتنا فاصلہ رہ گیا ہے اور پہاڑی کے دامن میں جو درخت ہمارا انتظار کر رہا ہے، اس کے بعد کتنا چلنا پڑے گا!
ساری دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی کوشش ہے کہ جنگلات میں اضافہ ہو۔ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ جنگلات تین فیصد رہ گئے ہیں۔ عمارتی لکڑی کا مافیا جنگلات کا دشمن بنا ہوا ہے۔ ایندھن مافیا الگ درپے ہے۔ یہاں تو جنگلات کاٹنے اور چوری کرنے والوں کو وزارتیں تک ملتی ہیں! مری کے جنگلات لالچی ٹھیکیداروں کی نذر ہو گئے۔ وہاں اب لوہے اور سیمنٹ کے جنگل ہیں! شمالی علاقہ جات کی بربادی پر بین کرنے والا تک کوئی نہیں!
مدتوں پہلے مجید امجد نے درختوں کا نوحہ لکھا تھا ؎
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہریدار
گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ مہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل
کراچی کے بارہ سو درختوں کا سوداکتنے میں طے ہؤا؟ آہ! یہ نقصان روپوں میں نہیں ماپا جا سکتا! اس کی پیمائش صرف آنسوکر سکتے ہیں یا دل کا لہو!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“