بینک سے لئے گئے قرضے کی عدم ادائیگی پر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔بینک عملہ ہراساں نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس معاملے میں پولیس مداخلت کرسکتی ہے۔
ہمارے یہاں بینکوں سے قرضہ لینے والوں کی زیادہ شرح ان لوگوں پر مشتمل ہے جو 3 لاکھ یا 4،5 لاکھ وغیرہ تک قرضہ لیتے ہیں۔کئی لوگ قسطوں کی شکل میں قرضہ واپس کردیتے ہیں،تاہم کچھ لوگ مالی حالات مزید خراب ہونے کی وجہ سے یہ رقم واپس نہیں کرپاتے تو پھر بینک عملہ انہیں ہراساں کرنا شروع کردیتا ہے۔جو کہ بالکل غلط اور غیر قانونی ہے۔بینکوں سے لین دین میں عدم ادائیگی کی صورت میں بینک صرف فنانشل انسٹیٹیوشنز ریکوری آرڈیننس 2001 کے تحت بینکنگ کورٹ میں کیس دائر کرسکتا ہے۔ایف آئی آر درج نہیں کراسکتا۔
گزشتہ سال میرے شہر حافظ آباد کا ہی ایک کیس تھا۔ایک کاروباری شخصیت نے بینک آف پنجاب حافظ آباد سے 4 کروڑ 35 لاکھ روپے کا قرض لیا۔کاروبار میں نقصان یا کسی بھی اور وجہ سے قرض کی یہ واپسی تاخیر کا شکار ہوتی گئی۔بینک ان سے مطالبہ کرتا رہا۔لیکن یہ پیسے واپس نہ کرسکے۔بینک نے کہا کہ چلیں گارنٹی کے طور پر اپنا کوئی چیک بھی رکھوا دیں۔ان صاحب نے اپنا چیک دے دیا۔تاہم بینک والوں نے اس چیک پر رقم بھر کر اسے کیش ہونے کیلئے دے دیا۔چیک باؤنس ہوا تو بینک نے اس شخص کیخلاف 489 ایف تعزیرات پاکستان کی ایف آئی آر درج کروا دی۔اس پرچے کا نمبر 924، 2019 تھا جو 21 ستمبر 2009 کو تھانہ سٹی حافظ آباد میں درج کیا گیا۔چالان پیش کیا گیا،مقدمہ چلا اور جوڈیشل مجسٹریٹ سیکشن 30 حافظ آؓباد نے ملزم کو 3 سال قید بامشقت اور 5 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنا دی۔ملزم نے اس فیصلے کیخلاف سیشن جج حافظ آباد کی عدالت میں اپیل کی۔عدالت نے نچلی عدالت کا فیصلہ مسترد کردیا اور ملزم کوبری کرنے کا حکم دیا۔اس فیصلے کیخلاف پنجاب بینک نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں یہی قرار دیا کہ کسی بھی شخص کے بینک یا کسی مالیاتی ادارے کے ساتھ لین دین کے تنازع میں عمومی قانون (تعزیرات پاکستان) لاگو نہیں ہوگا۔ یہ تنازعہ اسپیشل لا، فنانشل انسٹیٹیوشنز ریکوری آرڈیننس 2011 کے تحت ہی حل ہوگا۔ یہ قانون کہتا ہے کہ اس طرح قرض وغیرہ کی عدم ادائیگی پر ایف آئی آر وغیرہ نہیں ہوسکتی۔صرف بینکنگ عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔بینکنگ عدالت جو فیصلہ کرے گی وہ ماننا پڑے گا۔ ہائیکورٹ نے کہا کہ اس مقدمے میں چیک لے کر اور پھر اس پر 489 ایف کی ایف آئی آر کٹوانا بھی غلط تھا۔سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھا گیا اور ملزم کو بری کیا گیا۔بینک کو کہا گیا کہ پیسوں کی واپسی کیلئے آپ درست فورم پر جائیں اور یہ فورم بینکنگ کورٹ ہے۔
درج بالا بحث یا معلومات اسلئے شیئر نہیں کررہا کہ آپ بھی بینک سے قرضہ لیں اور واپس نہ کریں۔قرض لیں تو ضرور واپس کریں۔معاہدے کی پاسداری کریں۔کہ بینکنگ نظام سے ملکی معیشت کا تعلق ہوتا ہے۔یہ فلاپ ہوتا ہے تو ملک کو نقصان ہوتا ہے۔تاہم کچھ کیسز میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی بیچارے نے 3،4 لاکھ قرض لیا اور وہ بروقت قسطیں بھی ادا کرتا رہا لیکن مالی حالت خراب ہوئے اور باقی ادائیگی تاخیر کا شکار ہوئی تو بینک عملہ ہراساں کرنا شروع کردیتا ہے۔اس کے گھر کے چکر کاٹتا ہے۔پولیس بلانے کی دھمکی دیتا ہے۔اسی ہراسمنٹ سے تنگ آکر ایک سال قبل ملتان کے ایک بیچارے نوجوان نے خودکشی بھی کرلی تھی۔بتانا یہ ہے کہ بینک عملہ آپ کو ہراساں نہیں کرسکتا۔اگر کوئی ایسا کرے تو اسے بتائیں کہ آپ کو اپنے حقوق کا پتہ ہے۔آئندہ تنگ کیا تو میں تمہارے خلاف قانون فورم،پولیس وغیرہ سے رجوع کروں گا۔
قرضہ ضرور واپس کریں،لیکن اپنا استحصال نہ کروائیں۔ اپنی عزت کی حفاظت کریں۔اپنے حقوق سے آگاہی رکھیں۔