لندن کی مصروف فلیٹ سٹریٹ پر ایک پتھر کی محراب ہے۔ اس سے گزرنے پر ایک خاموش صحن ہے جہاں ایک عجیب شکل کا گولائی میں گرجا ہے۔ اس کے قریب ایک ستون ہے پر ایک گھوڑے پر دو سوار ہیں۔ یہ ٹیمپل چرچ ہے، جو 1185 میں Knights Templar کا چرچ قرار پایا۔ لیکن یہ صرف ایک اہم آرکیٹکچر، تاریخی اور مذہبی مقام ہی نہیں۔ یہ لندن کا پہلا بینک تھا۔
نائٹ ٹیمپلر جنگجو راہب تھے۔ سخت لڑاکا اور مقدس جنگ کے لئے جانیں قربان کرنے والے لوگ بینکاری میں کیسے آئے؟
ٹیمپلر کا مقصد یروشلم میں کرسچن زائرین کی حفاظت تھا۔ فاطمی خلافت سے 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے بعد یروشلم کرسچن قبضے میں چلا گیا تھا اور زائرین یورپ سے ہزاروں میل کا سفر کر کے یہاں جانے لگے۔ اور یہ سفر کرنے والوں کے لئے ایک مسئلہ تھا۔ مہینوں کے سفر میں خوراک، رہائش، ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی کرنے تھے اور ساتھ بڑی رقم لے جانا بھی محفوظ نہیں تھا، کیونکہ راستے میں لٹیروں کا خطرہ تھا۔ ٹیمپلر نے اس مسئلہ کا حل کیا۔ زائرین اپنے فنڈ ٹیمپل چرچ میں جمع کروا سکتے تھے اور انہیں یروشلم سے نکلوا سکتے تھے۔ پیسوں سے بھرے پرس کے بجائے لیٹر آف کریڈٹ ساتھ رکھنا تھا۔ نائٹ ٹیمپلر ویسے سروس مہیا کرتے تھے جو آجکل ویسٹرن یونین کرتا ہے۔
ہمیں ٹھیک معلوم نہیں کہ یہ سسٹم کام کیسے کرتا تھا اور فراڈ سے کیسے بچا جاتا تھا۔ کیا کوئی خفیہ کوڈ تھا جو مسافر کے پاس ہوا کرتا تھا؟ صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹیمپلر ایسی سہولت مہیا کرنے والی پہلی تنظیم نہیں تھے۔ اس سے چند صدیوں پہلے چین کی تانگ سلطنت میں فیکوان استعمال کئے تھے۔ یہ دو حصوں کی دستاویز تھی جس کی مدد سے علاقائی آفس میں تاجر منافع جمع کروا کے دارالحکومت سے کیش حاصل کر سکتے تھے۔ یہ حکومت کا سسٹم تھا جبکہ ٹیمپلر جو کام کر رہے تھے، وہ پرائیویٹ بینک کا تھا جس کی ملکیت پوپ کے پاس تھی، جن کا یورپ بھر کی شاہوں اور شہزادوں سے اتحاد تھا اور اس کو چلانے کا کام وہ راہب کرتے تھے جو تارکِ دنیا تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیمپلر نہ صرف دور دراز پیسے ٹرانسفر کرنے کا کام کرتے تھے بلکہ کئی دوسری فائننشل خدمات فراہم کرتے تھے۔ اگر آپ کو فرانس کے قریب ایک اچھا سا جزیرہ چاہیے تو ٹیمپلر آپ کی ڈیل کروا دیں گے۔ یہ وہ سہولت تھی جو برطانیہ کے کنگ ہنری سوئم نے استعمال کی۔ ہنری نے اس کی ادائیگی لندن کے ٹمپل میں پانچ سال میں کی۔ اس جزیرے کے پچھلے مالک کو بینک کی طرف سے مکمل ادائیگی پہلے سے کر دی گئی۔ بادشاہ نے اپنے تاج کے جواہرات اس قرض کی ضمانت کے لئے رکھوائے۔ (یہ آج ٹاور آف لندن میں دیکھے جا سکتے ہیں)۔
ظاہر ہے کہ نائٹ ٹیمپلر ہمیشہ کے لئے یورپ کا بینک نہیں رہے۔ یروشلم 1244 میں چھٹی صلیبی جنگ کے بعد صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست کے بعد یورپی کرسچن کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ 1312 تک ٹیمپلر ختم ہو گئے۔ لیکن یہ خلا خالی نہیں رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیون میں منعقد ہونے والا 1555 کا عظیم میلہ عالمی تجارت کی بڑی مارکیٹ تھی۔ اس سال اس میں ایک اطالوی تاجر کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ یہ دھڑا دھڑ سودے کر رہا تھا۔ لیکن کیسے؟ نہ اس کے پاس خریدنے کو کچھ تھا اور نہ بیچنے کو۔ اس کے پاس صرف ایک میز اور ایک قلم دوات تھا۔ وہ اس پر روز آ کر بیٹھ جاتا۔ دوسرے تاجر اس کے پاس آتے۔ یہ ان کے کاغذوں پر دستخط کرتا اور امیر ہو جاتا۔ مقامی لوگ اس کے بارے میں شش و پنج کا شکار تھے۔ لیکن عالمی تجارتی ایلیٹ کے لئے اس کا کام بہت اہم تھا۔ یہ شخص ادائیگیاں خرید اور بیچ رہا تھا۔
یہ سسٹم کام کیسے کرتا تھا؟ فرض کیجئے کہ لیون کے تاجر نے فلورنس سے اون خریدنی ہے، وہ اس شخص کے پاس جائے گا اور ایک چیز ادھار پر لے گا جس کو “بِل آف ایکسچینج” کہتے ہیں۔ یہ ایک کریڈٹ نوٹ ہے۔ اس کی قدر نہ ہی فرنچ لیورے میں تھی اور نہ ہی فلورنس کے لیرا میں۔ اس کی قدر “ایکو ڈی مارک” میں تھی۔ یہ بینکاروں کے عالمی نیٹورک کی نجی کرنسی تھی۔ اور اگر لیون کا تاجر فلورنس جائے یا اپنے ایجنٹ کو بھیجے تو فلورنس کا بینکر اس بل آف ایکسچینج کو تسلیم کر لے گا اور اس کے بدلے مقامی کرنسی دے دے گا۔
بینکاروں کے اس نیٹورک کی وجہ سے ایک مقامی تاجر نہ صرف کرنسی ایکسچینج کر سکتا ہے بلکہ لیون میں اپنے قرض لینے کی صلاحیت کو بھی فلورنس میں استعمال کر سکتا ہے۔ ایسے شہر میں جہاں وہ بالکل اجنبی ہے۔ اور یہ بہت ہی اہم خدمت ہے۔ اس وجہ سے یہ پرسرار لگنے والا تاجر اتنا امیر تھا۔ ہر چند مہینوں میں بینکاروں کے نیٹ ورک کے ایجنٹ اسی طرح کے میلوں میں ملاقات کرتے۔ اپنے کھاتوں کی کتابوں کا حساب کتاب کرتے۔ ایک دوسرے کی ادائیگیوں کو net off کرتے اور باقی بچنے والے ادھار ایک دوسرے کو ادا کر دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے فائننشل سسٹم میں اس سے بہت کچھ مشترک ہے۔ ایک پاکستانی دبئی کے سٹور سے خریداری کرتا ہے۔ پاکستانی بینک کا جاری کردہ کارڈ ادائیگی کے لئے پیش کرتا ہے۔ سپرمارکیٹ دبئی کے بینک سے چیک کرتی ہے۔ یہ بینک پاکستانی بینک سے بات کرتا ہے جو اس کی منظوری دیتا ہے۔ وہ شخص اپنا سامان اٹھا کر سٹور سے نکل جاتا ہے۔ سٹور کو ادائیگی ہو جاتی ہے۔ بینک اپنا معاملہ آپس میں طے کر لیتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو نہ ہی خریدنے والا خرید سکتا اور نہ ہی بیچنے والا بیچ سکتا۔
بینکاری کی خدمات کے اس جال کا تاریک پہلو بھی ہے۔ ذاتی ادائیگیوں کو بین الاقوامی تجارت کے ادھار میں بدلنے والے قرونِ وسطیٰ کے امیر اور طاقتور بینکار اپنا نجی مالیاتی نظام بنا رہے تھے۔ اور یہ یورپ کے بادشاہوں کی رسائی اور کنٹرول سے دور تھا۔ آج بھی انٹرنیشنل بینکاری آپسی معاملات کا گنجلک بھرا جال ہے۔ اگر بینک نازک ہو جائیں تو پوری دنیا کا مالیاتی نظام نازک ہو جاتا ہے۔
ابھی تک ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بینکاری کے ساتھ کیا کریں؟ دنیا بھر کی حکومتیں ان کی ریگولیشن کے طریقے بناتی رہی ہیں۔ کئی بار نرمی کے۔ کئی بار سختی سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے سخت ریگولیٹر شاید فرانس کے فلپ چہارم تھے۔ ان کے ذمے ٹیمپلر کا قرض تھا۔ اور فرمائش کے باوجود ٹیمپلر اسے معاف کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ 1307 میں پیرس ٹیمپل پر کنگ فلپ نے حملہ کر دیا۔ اس کے بعد یہی کام یورپ میں جگہ جگہ پر حملے کئے گئے۔ ٹیمپلر کو گرفتار کر کے تشدد کیا گیا اور “گناہ اگلوائے گئے۔ پوپ کلیمنٹ پنجم نے ٹیمپلر کا آرڈر ختم کر دیا۔ لندن ٹیمپل کو وکیلوں کو کرائے پر دے دیا گیا۔ ٹیمپلرز کے آخری گرینڈماسٹر ژاک ڈی مولے کو باندھ کر پیرس کے مرکز لایا گیا اور سرِ عام نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اس کے بعد فلپ چہارم قرض نادہندہ نہیں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینکاری کی ایجاد ایک بہت طاقتور تصور کی ایجاد ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن ہمیں ابھی تک یہ بھی ٹھیک طرح سے معلوم نہیں کہ ہم ان کے ساتھ آخر کس طریقے سے رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن بینکاری کا تصور اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ عالمی مالیاتی نظام کی سب سے اہم ایجاد ہے۔