ابتدائیہ : بینک کے کوچئہ سود میں دل کو یہ تسلی دیکر قدم رکھا تھا کہ ہمارے سود کے گناہ کی پوچھ بینک کے مفتیان سے ہوگی اور گھر والوں کو بھی یہی اطمینان دلایا تھا۔ اسکے علاوہ کوئی اور قدر مشترک نا سہی مشتاق احمد یوسفی بھی تو اسہی پیشے سے وابستہ تھے ۔ جب یوسفی صاحب کی کتاب ذرگزشت پہلی بار پڑہی تھی تو عقل حیران ہوتی تھی کہ ایک ہی بینک کی چھت کے نیچے کیسے کیسے کردار چلتے پھرتے تھے اور ہر ایک کے پیچھے ایک نئی کہانی اور ایک نیا زندگی کا زاویہ۔ اگرچہ بینکنگ کو خیرباد کہے ہوئے برسوں بیت گئے ہیں مگر ان گذرے ہوئے دنوں کی یاد، ناکامیاں، لڑائیاں، دوستیاں ان سب سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے ۔ بینک بیتیاں انہی دنوں کی یادش بخیر ہے ۔
باسط صاحب – پہلا حصہ
میرا ان دنوں بینک میں جونئیر آفیسر کی حیثیت سے اپوائنٹمنٹ ہوا تھا اور کام سیکھنے کی غرض سے مجھے ریجنل آفس میں جوائن کرایا گیا تھا جس کے بعد دوسری برانچ میں ٹرانسفر ہونی تھی ۔ بینک کا ریجنل آفس کئی منزلہ عمارت میں قائم تھا اور ریجنل آفس کا ماحول کام سیکھنے کے لحاظ سے ایک بہترین تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
جس ڈیپارٹمنٹ میں میری پوسٹنگ تھی وہیں پہلے ہی دن میرا پہلا تعارف باسط صاحب سے ہوا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ باسط صاحب نے اپنا تعارف بغیر پوچھے ہی کرادیا جو وہ ہر نئے آنے والے ملاقاتی سے روز کراتے رہتے تھے ۔ موصوف بھاری بھرکم جثے کے تھے اگر انکو گول مٹول کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ سر اور ریش کے بال بالکل سفید تھے اور سر پر ٹوپی ضرور پہنتے تھے۔ اسٹیٹ بینک سے گولڈن ہینڈ شیک ریٹائرمنٹ کے بعد اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سفارش پر ہمارے بینک میں کانٹریکٹ پر کام رہے تھے بلکہ اکثر کام خراب ہی کرتے پائے جاتے تھے۔
ہمارے باس اکثر یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ ذہنی انہماک والا کام صرف باسط صاحب کی چھٹی کے بعد ہی ہوسکتا ہے ۔
اسٹیٹ بینک نے انکو اس سانچے میں ڈھال دیا تھا کہ آفس ٹائم سے آئیں یا نا آئیں باقی سارے کام ٹائم سے انجام فرماتے تھے جس میں آفس آنے کے بعد پورے اخبار کا مطالعہ اور اس پر سیر حاصل تبصرے، دن کی دو ٹائم کی چائے ، دوپہر کا لنچ اور وقت کی پابندی سے پانچ بجے آفس سے چھٹی۔ درج بالا کسی امور میں دیر یا ناغہ برداشت نہیں کرے تھے ۔ آفس بوائے اگر چائے کسی اور کو پہلے پیش کردیتا تو بہت برا مناتے اور کئی دن تک آفس بوائے کی خامیاں گن گن کر بتاتے اور اپنی ہاں میں ہاں ملواتے تھے ۔ باسط صاحب جب لنچ کرنے لنچ روم میں جاتے تو آفس والے سب ادھر ادھر ہوجاتے تھے ۔ میں نے شروع شروع میں آفس بوائے سے کہا کہ باسط صاحب اصرار کررہے ہیں کے میں آج لنچ انکے ساتھ کروں تو میرا لنچ ساتھ ہی لگا دینا ۔ آفس بوائے کہنے لگا بینک کا کوئی بندہ بھی باسط صاحب کے ساتھ لنچ نہیں کرسکتا آپ بھی ایسی کوشش نا کرو ۔ میں ان سے آپ کیلئے بہانا کردونگا کہ آپ مصروف ہیں ۔ میری بات تو سمجھ نہیں آئی مگر اسکی بات مان لی اور آفس بوائے نے باسط صاحب کو مطمئن کردیا کہ عاطف صاحب بہت مصرف ہیں لہذا آپ کھانا اکیلے ہی کھا لیں اور چونکہ انکو مقررہ وقت پر لنچ کرنے کی عادت تھی تو وہ بھی مان گئے۔ ایک دن سوئے اتفاق سے پورے ریجنل آفس کا لنچ ساتھ ہوا تو جو ان آنکھوں میں دیکھا وہ دید کے قابل تو نا تھا ۔ باسط صاحب کھانے پر چنگیزی فوج کی طرح حملہ آور ہوتے تھے ایک ہی جھٹکے میں مرغی کی ران سے گوشت ایسے اتارتے تھے جیسے تاتاری تلواروں سے گردنیں اڑاتے ہونگے۔ نوالہ منہ میں ڈالتے وقت انکی آدھی انگلیاں منہ میں چلی جاتی تھیں اور پھر انگلیوں میں لگا سالن چثاخ چٹاخ چاٹنے کے بعد سالن میں اپنے لعاب دہن سے لیس کا اضافہ کرتے جاتے تھے ۔ آفس بوائے میرے پاس آیا اور کہنے لگا دیکھا سر اگر آپ اس دن باسط صاحب کے ساتھ کھانا کھاتے تو انکے پہلے نوالے کے بعد آپ پلیٹ سے ایک نوالہ بھی نہیں لے سکتے تھے۔
جہاں باسط صاحب بیٹھا کرتے تھے اس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک لڑکی سیمی کی ٹیبل تھی ۔ سیمی کمپلائنس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی اس نے ایم بی اے کرکے بینک جوائن کیا تھا ۔ باسط صاحب کام کرتے کرتے جو کہ وہ کم ہی کرتے تھے یا اخبار پڑھتے پڑھتے کن اکھیوں سے سیمی کی طرف نظریں کرکے ایک ٹھنڈی آہ بھرا کرتے تھے ۔ اکثر مجھے بتاتے تھے کے سیمی انکی بہت عزت کرتی ہے اور انکی شخصیت سے بڑی متاثر ہے ۔ اسکا باس خود کوئی کام نہیں کرتا اور سارا کام سیمی سے کراتا ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے اسٹیٹ بینک میں ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب کو بول کر سیمی کے باس کی کلاس کرادوں مگر اس ڈر سے شکایت نہیں کرتا کہ کہیں سیمی پر بات نا آجائیے۔ سیمی کی میرے کولیگ فراز سے اچھی دوستی تھی اور میں بینک میں آنے سے پہلے ایک دو دفع فراز سے مل چکا تھا اسلئے میری بھی فراز سے بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی اور واپسی میں فراز مجھے جوہر تک اپنی بائیک پر ڈراپ بھی دیتا تھا جسکے بعد ہم لوگ کوئٹہ ہوٹل پر بیٹھ جاتے اور چائے پراٹھا کھاتے تھے ۔ فراز ہی کی وجہ سے میری آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے نعمان اور دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھیوں سے بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی اور اب مجھے بینک میں کام کرنے میں مزا آنا شروع ہوگیا تھا ۔ اکثر میں رات ساڑھے دس بجے تک اکیلا کام کرتا رہتا تھا اور سب سے آخر میں بینک سے نکلتا تھا۔ رات والے گارڈز بھی مجھے پہچاننا شروع ہوگئے تھے ۔
فراز کی باسط صاحب سے بالکل بھی نہیں بنتی تھی۔ چونکہ فراز منہ پھٹ تھا اور وہ باسط صاحب کی عمر کا لحاظ نہیں کرتا تھا جسکا باسط صاحب برا مناتے اور فراز کے پیجھے مجھ سے اسکی برائیاں کرتے اور ساتھ ساتھ منع بھی کرتے کے یہ سب باتیں میں فراز کو نا بتائوں۔
چونکہ میں باسط صاحب کی تمام باتیں غور سے سن لیتا تھا لہزا وہ مجھ پر بھروسہ بھی کرنے لگ گئے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ سیمی کل بہت اچھی ڈریسنگ کرکے آئی تھی تو میں نے اس سے کہا آج آپ بہت فریش لگ رہی ہیں تو اس نے کہا شکریہ باسط صاحب آپ تو روز ہی فریش لگتے ہیں ۔ باسط صاحب بولے میرے دل میں آیا بولوں جان اسہی بات پر میرے گلے لگ جائو ۔
یہ بات تو طے ہے کہ مرد ذات کا بھروسہ نہیں مگر باسط صاحب کے منہ سے یہ الفاظ سنکر مجھے جھٹکا تو لگا مگر میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
ایک دن باتوں باتوں مے میں نے نعمان سے کہا کہ باسط صاحب بھی سیمی پر لٹو ہیں تو وہ ہنسنے لگا اور بولا اچھا میں آج ہی سیمی کو یہ بات بتاتا ہوں ۔ میں ڈر گیا کہ بھائی کیوں ایسا کرتے ہو باسط صاحب تو بدنام ہونگے ہی سیمی کے سامنے میری بھی کوئی عزت نہیں رہے گی ۔ میں نے یہ بات تمہی اس لئے بتائی ہے کہ تم سیمی کو سمجھائو کہ باسط صاحب سے تھوڑا فاصلہ رکھے وہ سیمی کے ہنسی مزاق کرنے کو غلط سمجھ رہے ہیں ۔ نعمان بولا تم فکر نہیں کرو سیمی بہت کھلے دماغ کی ذہین لڑکی ہے وہ سب سمجھتی ہے ۔ بعد میں مجھے پتا چلا سیمی، فراز اور نعمان کے ساتھ پیزا کھانے گئی تھی ان دونوں نے اسکو اسکے گھر سی پک کیا تھا اور پھر تینوں پیزا کھانے گئے تھے ۔
سیمی سے میری صرف سلام دعا کی حد تک بات چیت تھی ۔ نعمان اپنی دوستوں کے ساتھ پکنک کی البم آفس لیکر آیا تو سیمی نے اسکے ہاتھ سے البم لے لی اور تصویرں دیکھنے لگی تو نعمان نے کہا تم البم دیکھ کر عاطف کو دیدینا ۔ میں اپنی ٹیبل پر بیٹھا کام میں مصروف تھا اور فراز کہیں گیا ہوا تھا سیمی اپنی مخصوص چال سے چلتی ہوئی آئی اسکا ایک خاص انداز تھا چلنے کا وہ بہت سنبھل مگر تھوڑا لہراکر چلتی تھی ۔ سیمی کچھ کہے بغیر میرے سامنے البم رکھکر چلی گئی ۔ باسط صاحب اپنی ٹیبل کے سامنے بیٹھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ میں نے البم کھولی تو اسمیں نعمان کی سمندر کے کنارے نہاتے ہوئے مختلف پوز میں تصویریں تھیں ۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میں نے البم بند کرکے دراز میں رکھدی۔
اب باسط صاحب کو بے چینی شروع ہوگئی کبھی وہ اپنی ٹوپی سر سے اتار کر سیدھی کرتے کبھی سیٹ سے کھڑے ہوکے اپنی نیچے گرتی ہوئی پتلون کو اوپر کھینچتے ۔ کبھی رومال سے اپنا منہ صاف کرتے ۔ جب بہت دیر ہوگئی اور انکی برداشت کی حد گزر گئی تو وہ اٹھکر میری ٹیبل پر آگئے اور بولے آپ تو ہمارے دوست ہیں کیا آپ نہیں بتائیں گے کے سیمی ابھی آپ کو کیا دیکر گئی ہے ۔
اسہی وقت اچانک میرے دماغ میں ایک شیطانی آئیڈیا آیا اور میں بہت سنجیدہ شکل بناکر بولا باسط صاحب ایک غیر شادی شدہ کنواری لڑکی کی سمندر پر نہاتے ہوئے تصویریں ہیں اور وہ میں آپ کو نہیں دکھا سکتا ۔ اب تو باسط صاحب کے بانچھیں کھل گئیں اور انکے منہ سے بس رال ٹپکنے کی کسر رہ گئی تھی ۔ وہ خوشامدی لہجے میں بولے میں نے آپ کو دوست سمجھا اور آپ مجھ پر بھروسہ نہیں کر رہے ہیں ۔ آپ بتائیں تو کسکی تصویریں ہیں ، کیا سیمی کی ہیں ؟ ایسا بولتے ہوئے انکے دماغ کے پردے پر چلتی ہوئی برہنہ تصاویر انکی آنکھوں میں صاف دکھ رہی تھیں ۔
میں انتہائی سنجیدہ شکل بناکر رازدارانہ لہجے میں بولا باسط صاحب سیمی اپنی دوستوں کے ساتھ سمندر پر پکنک منانے گئی تھی اسنے نعمان سے اسکا کیمرہ لیا تھا جس میں آدھی تصویریں کھینچنا باقی تھیں جو سیمی نے اپنی پکنک پر کھنچی ہیں یہ بات مجھے نعمان نے بتائی ہے ۔ آج نعمان وہ البم ڈیویلپ کرواکر لایا ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ سیمی کی انتہائی باریک اور گیلے کپڑوں میں تصویریں ہیں ۔
اب تو باسط صاحب کسی بچے کی طرح ضد کرنے لگے جسے ہر قیمت پر اپنا من پسند کھلونا چاہئے ہوتا ہے ۔ میں نے کہا باسط صاحب کسی لڑکی کی عزت کا معاملہ ہے آپ پلیز یہ البم یہاں نا دیکھیں ۔ انہوں نے جھٹ سے میرے ہاتھ سے البم لی اور واش روم کی طرف بھاگے۔ میں نے فوراً نعمان کا ایکسٹینشن ملایا اور ساری کہانی سنائی فراز بھی نعمان کے پاس بیٹھا تھا دونوں پیٹ پکڑ کر ہنسنا شروع ہوگئے ۔ اب مجھے باسط صاحب کا انتظار تھا کہ وہ واپس آکر کیا بولتے ہیں کیونکہ البم میں تو صرف نعمان کی تصویریں تھیں۔ کچھ دیر کے بعد باسط صاحب ستے ہوئے چہرے کے ساتھ آئے اور البم مجھے واپس کرتے ہوئے بولے آپ کو مجھ سے ایسا مذاق نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیسا مذاق ؟ میں بولا۔ اس البم میں صرف نعمان کی تصویریں ہیں اور سیمی کی ایک بھی تصویر نہیں ہے ۔ باسط صاحب مجھے گھورتے ہوئے بولے۔
میں نے فوراً انکے ہاتھ سے البم لیا اور الٹ پلٹ تصویریں دیکھیں پھر سنجیدہ شکل بناکر بولا باسط صاحب میرا خیال ہے سیمی نے اپنی پکنک کی تصویریں پہلے ہی نکال لی ہیں ۔ میں نے بھی آپکے سامنے البم کا پہلا پیج ہی دیکھا تھا ۔ مگر نعمان نے ساری تصویریں دیکھی ہیں۔ باسط صاحب اسکے بعد کافی دیر مایوسی سے بیٹھے ٹھنڈی آہیں بھرتے رہے اور سیمی کی ٹیبل کو دیکھتے رہے جو دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں کمپلائنس کے لئے گئی ہوئی تھی ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بینک بیتیاں – باسط صاحب (دوسرا اور آخری حصہ)
مجھ سے کہنے لگے اب وہ وائوچر بیگ والٹ کے نچلے پورشن میں نہیں رکھیں گے۔ میرے استفسار پر بولے آپ کسی کو بتائے گا نہیں اسٹیٹ بینک میں ہم قمیض شلوار پہنا کرتے تھے مگر یہاں بینک میں پینٹ شرٹ اور نک ٹائی پہننا لازم ہے ۔ کہنے لگے مجھے پتلون میں بیٹھ کر وائوچر رکھنے میں مشکل ہوتی ہے ۔ کل ہی کی بات ہے بیٹھنے میں مشکل ہورہی تھی تو پتلون کی بیلٹ ڈھیلی کر کے بیٹھ گیا جب واپس کھڑا ہو تو پتلون قدموں میں گری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اگر سیمی اس وقت آس پاس ہوتی تو سوچئے کیا ہوتا ؟ میں نے کہا باسط صاحب ایسی بات سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ برائے مہربانی اب آپ وائوچر بیگ خود کبھی مت رکھئے گا یہ کام میں کرلونگا۔ میری اس آفر سے بڑے خوش ہوگئے چہرے پر بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ طاری ہوگئی اور گلے میں ہاتھ ڈال کر بولے باس کو یہ بات مت بتائے گا اور کہے گا کہ آپ یہ کام اپنی مرضی سے خود کرنا چاہتے ہیں ۔
بالغوں والے قصوں کو توبہ توبہ کرکے سنتے جاتے تھے اور کرید کرید کر تفصیل بھی معلوم کرتے جاتے ۔ باتوں باتوں میں ایک فضول سا عبرت آمیز قصہ انکو سنایا جس میں حسرت کا پہلو زیادہ تھا کلائمیکس پر پہنچ کر انکی گول گول آنکھیں ڈیلوں سمیت باہر آچکی تھیں چہرے پر تلذذ کی گہری گھٹائیں چھاگئیں اور انکے منہ سے زور سے سسکاریاں بلند ہونے لگیں ۔ قصہ ختم کرکے میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا اور باسط صاحب وقت مقررہ پر بستہ لپیٹ کر چلے گئے۔ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے آئیندہ ایسا قصہ مت سنائے گا میں نے پوچھا ایسا کیوں بول رہے ہیں تو بولے قصے کا ایسا اثر ہوا کہ گھر جاکر بھی وہ قصے کا سوچتے رہے اور پھر مجبوراً اپنی زوجہ سے رجوع کرنا پڑا تب جاکر طبیعت ہلکی ہوئی ۔
انہی دنوں زندگی میں پہلی بار بینک کی کلوزنگ دیکھی سال کا آخری دن جو کہ غیر معمولی طور پر سخت سرد بھی تھا ۔ بینک میں ایسی رونق لگی ہوئی تھی جیسے کوئی تہوار ہو ۔ ہر ڈیپارٹمنٹ اپنی کلوزنگ کررہا تھا بینک کا پرافٹ ہمارا ڈیپارٹمنٹ فائنل کرتا تھا لہذا ریجنل مینیجر صاحب بار بار میرے باس کو فون کرکے مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ باقی سب ڈیپارٹمنٹ والے اپنا کام ختم کرکے آٹھ نو بجے تک چلے گئے کیونکہ اکثر کے نیو ائیر سیلیبریشن کے پروگرام بنے ہوئے تھے۔ مگر ہمارے ڈیپارٹمنٹ اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے فجر سے کچھ دیر پہلے اپنا کام ختم کیا۔ صبح ہوئی تو فراز، نعمان، طارق بھائی، باس اور میں سب ملکر بوٹ بیسن ناشتہ کرنے پہنچے ۔ سال کے پہلے دن کی سرد ترین صبح میں وہ گرما گرم ناشتہ اور نرم گرم دوستوں اور محسنوں کا ساتھ ہمیشہ یاد رہے گا۔
ایک دن دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے مینیجر فاطمی صاحب کسی کام سے ہمارے پاس آئے ہوئے تھے اور باتوں باتوں میں مختلف غذائوں کے فوائد پر گفتگو چل نکلی۔ فاطمی صاحب کہنے لگے ہر غذا کے اپنے فوائد ہیں مگر دودھ سے بڑھ کر کوئی فائیدہ مند چیز نہیں ۔ باسط صاحب جو کافی دیر سے غیر معمولی طور پر انکی گفتگو سن رہے تھے اچانک سے بولے مگر شرط یہ ہے کہ وہ دودھ اشرف المخلوقات کا ہونا چاہئے یہ بات بولتے وقت انکی شکل بالکل دودھ پیتے ہوئے بچے جیسی لگ رہی تھی۔
باسط صاحب میں ایک فطری سادگی اور معصومیت تھی۔ انہوں نے اپنی پروفیشنل زندگی اسٹیٹ بینک کے جھیل جیسے پرسکون ماحول میں گزاری تھی اور اب وہ ہمارے بینک کے تیز و تند دریا جیسے ماحول میں تیرنے کی کوشش کررہے تھے جو کہ ایک لاحاصل کوشش تھی۔
چھے مہینے کی ٹریننگ کے بعد میرا ٹرانفسر دوسری برانچ میں ہوگیا اور اسکے کچھ دن بعد باسط صاحب کا کانٹریکٹ ختم ہوگیا اس دفعہ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بھی انکی سفارش نہیں کی اور باسط صاحب خاموشی سے بینک چھوڑ گئے ۔
کچھ عرصے کے بعد میں کسی کام سے کہیں گیا تو ایسا لگا کوئی میرا نام لیکر پکار رہا ہے پلٹ کر دیکھا تو باسط صاحب کو سامنے پایا بڑی گرم جوشی سے ملے اور کہنے لگے سامنے والے بینک میں کیشیئر کی نوکری مل گئی ہے ابھی کچھ دن ہوئے جوائننگ دی ہے ۔ باسط صاحب اور کیشیئر کی جاب میں نے دل ہی دل کہا اللہ خیر کرے کس ظالم نے انکو اس جاب میں پھنسا دیا ہے۔ کیشیئر کا کام باسط صاحب کے بس کا نہیں اس بات کا مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ کچھ دن بعد کسی کام سے دوبارہ اسطرف جانا ہوا اور باسط صاحب کا پوچھا تو معلوم ہوا اب وہ یہاں کام نہیں کرتے مزید پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
کسی جاننے والے سے معلوم ہوا کہ باسط صاحب گھر بیٹھے ہیں طبیعت ناساز رہتی ہے بس گھر سے مسجد ہی جاتے ہیں۔ انکی طبیعت کا سنکر دل سے انکے لئے ڈھیروں دعائیں نکلیں۔ باسط صاحب سے عمر کے بہت زیادہ فرق کے باوجود دوستی ہوگئی تھی اور وہ ہمیشہ مجھ سے بہت محبت سے پیش آتے اور آپ جناب سے بات کرتے تھے۔ آج جب پلٹ کر گزری باتیں یاد آتی ہیں تو باسط صاحب کی پر بہار شخصیت کی یاد چہرے پر ایک اداسی بھری مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...